Christopher Snedden

کتابوں پر پابندی یا سوچ پر پہرے

اس پابندی کو  ایک بڑے بیانیہ کا حصہ سمجھنا چاہیے۔یہ یاداشتوں کو کھرچنے کا عمل ہے، جو کئی دہائیوں سے جاری ہے، اگرچہ 2019 کے بعد یہ بے حد بڑھ گیا ہے۔کشمیر کے اخبارات کے آرکائیوز بند کر دیے گئے ہیں۔ پچھلے تیس سالوں میں اس خطے پر کیا قیامت برپا ہوگئی، اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔

جموں و کشمیر میں کتابوں پر پابندی: مصنفین، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کا احتجاج

جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے 25 کتابوں پر پابندی عائد کرنے کے بعد سول سوسائٹی  کارکنوں، اظہار رائے کی آزادی کے لیے آواز بلند کرنے والے لوگوں  اور سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے پر احتجاج کیا اور یونین ٹیریٹری انتظامیہ سے اس پابندی کو ہٹانے کی اپیل کی۔

جموں و کشمیر انتظامیہ نے اے جی نورانی اور ارندھتی رائے کی کتابوں سمیت 25 کتابوں پر پابندی لگائی

جموں و کشمیر انتظامیہ نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں ‘علیحدگی پسندی کو فروغ دینے’ اور ‘ہندوستان کے خلاف تشدد بھڑکانے’ کے الزام میں 25 کتابوں کو ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان میں سے کچھ کتابیں سرکردہ ہندوستانی مصنفین مثلاً اے جی نورانی، ارندھتی رائے اور انورادھا بھسین سمیت معروف مؤرخین نے لکھی ہیں۔

انکل سیاہ فام کے نام پہلا خط

میں ایک خوشحال ملک کا شہری ہوں اور معترف ہوں کہ یہ خوشحالی آپ کی بدولت ہے۔ آپ کے اقتدار سے پہلے یہ ملک دنیا کا سب سے غریب ملک تھا ۔لوگ زندہ درگور تھے۔ آپ نے ہمیں غربت ، جہالت اور ذلت کی دلدل سے آزاد کیا۔ میری طرح آپ کے لاکھوں پرستار ہیں۔ ایک اداکارہ تو آپ کی دیوانی ہے۔ اس نے بجا فرمایا ہے کہ ہم صحیح معنوں میں آپ کے اقتدار میں آنے کے بعد آزاد ہوئے ہیں ۔ آپ نے ہمیں آزادی، عزتِ نفس اور تاریخی افتخار سے آشنا کیا ہے۔