بہار: کیا مہا گٹھ بندھن کی واپسی ممکن ہے؟
بہار میں مہاگٹھ بندھن کے لئے راستہ یہ ہے کہ وہ اس بڑی ہارکے بعد بھی اپنے اتحاد اور یکجہتی کو بنائے رکھے۔ حالانکہ ابھی تو انتخاب کے بعد جیتن رام مانجھی نے تیجسوی کی قیادت پر ہی سوال اٹھا دیا ہے۔
بہار میں مہاگٹھ بندھن کے لئے راستہ یہ ہے کہ وہ اس بڑی ہارکے بعد بھی اپنے اتحاد اور یکجہتی کو بنائے رکھے۔ حالانکہ ابھی تو انتخاب کے بعد جیتن رام مانجھی نے تیجسوی کی قیادت پر ہی سوال اٹھا دیا ہے۔
سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے کانگریس صدر راہل گاندھی کے برطانوی شہری ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس بنیاد پر عدالت سے ان کے انتخاب لڑنے پر روک لگانے کی مانگ کی گئی تھی۔
وزارت داخلہ نے ایک خط میں کہا کہ اس کو بی جے پی ایم پی سبرامنیم سوامی کی طرف سے عرضی ملی ہے، جس میں راہل گاندھی کو برٹش شہری بتایا گیا ہے۔ وہیں، کانگریس نے کہا کہ راہل پیدائشی ہندوستانی شہری ہیں، لیکن’فرضی ڈسکورس’کے ذریعے بےروزگاری اور زرعی بحران جیسے خالص مدعوں سے دھیان بھٹکانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس کی وزیر پنکجا منڈے نے کہا تھا کہ کانگریس صدر راہل گاندھی کے گلے پر بم باندھکر ان کو کسی دوسرے ملک بھیج دینا چاہیے۔ اس دوران وہاں فڈنویس اور بی جے پی کے ریاستی صدر موجود تھے۔
دوسرے مرحلے کی پانچ سیٹوں میں اس بار بھی مہاگٹھ بندھن آگے دکھائی دے رہا ہے۔یہ مرحلہ پہلے مرحلے کے انتخاب سے ان معنوں میں الگ ہے کہ پہلے مرحلے میں جہاں تمام چار سیٹوں پر سیدھا مقابلہ ہوا وہیں اس مرحلے میں دو سیٹوں پر سہ رخی مقابلہ ہے۔
امیدواروں کے انتخاب کے لحاظ سے دیکھیں تو لالو کی غیر موجودگی میں کہیں سے ایسا نہیں لگا کہ تیجسوی کی قیادت میں کوئی نیا آر جے ڈی سامنے آ رہا ہے۔ ایک طرف سنگین جرم میں قصوروار قرار دئے گئے رہنماؤں کی بیویوں (سیوان اور نوادہ)کو ٹکٹ ملا تو دوسری طرف امیدواروں میں جوان چہرے تقریباً غائب رہے۔
شتروگھن سنہا ہوا کا رخ بھانپ لینے والے رہنماؤں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اپریل 2014 میں انہوں نے بی جےپی کے 300 سے زیادہ سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اب دہلی، پٹنہ اور ممبئی کے حلقوں میں یہی قیاس آرائی ہے کہ کانگریس اور لالو کی مدح سرائی میں مصروف شترو نے کیا پھر کچھ اندازہ لگا لیا ہے؟