وزیر اعظم نریندر مودی کے 70ویں یوم پیدائش کے موقع پر ٹوئٹر پر دن بھر کئی ایسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتے رہے، جن کے ذریعہ ٹوئٹر صارفین نے ملک میں بڑھتی بےروزگاری اور شدید معاشی بحران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وزیر اعظم سے جواب طلب کیا۔
ایس بی آئی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال 2019-20 میں اس سے پچھلے مالی سال 2018-19 کے مقابلے 16 لاکھ کم نوکریوں کے مواقع کا اندازہ ہے۔ پچھلے مالی سال میں کل 89.7 لاکھ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے تھے۔
نریندر مودی حکومت میں چیف اکانومک ایڈوائزر رہتے ہوئے ارویند سبرامنیم نے دسمبر 2014 میں دوہرے بیلنس شیٹ کا مسئلہ اٹھایا تھا، جس میں نجی صنعت کاروں کے ذریعے لئے گئے قرض بینکوں کےاین پی اے بن رہے تھے۔سبرامنیم نے کہا کہ ہندوستان کی معیشت ایک بار پھر سے دوہرےبیلنس شیٹ کے بحران سے جوجھ رہی ہے۔
گجرات کے احمدآباد میں ایک تقریب کو خطاب کرتے ہوئے رنگ راجن نے کہا کہ ترقی یافتہ ملک کی تعریف ایسے ملک سے ہے جس کی فی شخص آمدنی 12000 ڈالر سالانہ ہو۔ اگر ہم نو فیصدی کی شرح سے ترقی کریں تب بھی اس کو حاصل کرنے میں 22 سال لگیں گے۔
نوٹ بندی کے وقت کہا گیا تھا کہ اس کےدور رس نتائج ہوںگے۔ تین سال ہو گئے، آئندہ کتنے سال میں آئےگا دوررس؟
اس سے پہلے تین دوسری رپورٹس میں جولائی-ستمبر سہ ماہی کے دوران مکانوں کی فروخت میں ایک سے لےکر 25 فیصد گراوٹ کی جانکاری دی گئی تھی۔
آئی ایم ایف کی طرف سے کہا گیا ہے کہ کئی عرب ممالک میں فی شخص قرض بہت ہی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ یہاں جی ڈی پی کا اوسطاً 85 فیصد قرض ہے۔ وہیں لبنان اور سوڈان میں یہ قرض جی ڈی پی کے 150 فیصد سے زیادہ پہنچ چکا ہے۔
شیوسینا نے اپنے ماؤتھ پیس‘سامنا’میں فلم شعلہ کے اس ڈائیلاگ سے ملک میں اقتصادی بحران اور تیوہاروں کے موقع پر بازاروں سے غائب رونق کے لیے سرکار کی نوٹ بندی اور غلط طریقے سے جی ایس ٹی کونافذ کرنے کو ذمہ دار بتایا ہے۔
دہرادون میں منعقد پروگرام میں بی جے پی کی سینئر رہنما اوما بھارتی نے کہا کہ جہاں تک اقتصادی بحران کے دور کی بات ہے، یہ سانسوں کے چڑھنے اور اترنے کی طرح ہوتا ہے۔ سانس نیچےاوپر ہوتی ہے لیکن جسم پورا چل رہا ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہریش سالوے نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ 2جی گھوٹالہ، کول بلاک اور ووڈافون معاملے میں دیے سپریم کورٹ کے فیصلے نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ڈرا دیا ہے۔
بہار کے نائب وزیراعلیٰ اور وزیر خزانہ سشیل مودی نے کہا کہ ویسے تو ہرسال ساون-بھادو میں مندی رہتی ہے، لیکن اس بار مندی کا زیادہ شور مچاکر کچھ لوگ الیکشن میں اپنی شکست کی شرمندگی اتار رہے ہیں۔
یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ لوگ کچھ لاکھ خرچ کرنے میں ہچک رہے ہیں، لیکن جب وہ 5 روپے خرچ کرنے سے بھی کترانے لگیں، تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ہم ایک بڑے اقتصادی بحران میں ہیں
1929 میں قائم پارلے میں تقریباً ایک لاکھ لوگ کام کرتے ہیں۔ کمپنی کے کٹیگری ہیڈ مینک شاہ نے کہا کہ 2017 میں جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد سے کمپنی کےسب سے زیادہ بکنے والے 5 روپے کے بسکٹ پر اثر پڑا ہے۔