سپریم کورٹ نے سبھی پارٹیوں کو ہدایت دی ہے کہ 30 مئی تک وہ الیکٹورل بانڈ کی رقم اور اس کے چندہ دینے والوں کے نام سمیت تمام جانکاری سیل بند لفافے میں الیکشن کمیشن کو دیں۔ کورٹ نے کہا کہ اس معاملے میں آخری فیصلہ تفصیلی سماعت کے بعد لیا جائےگا۔
سپریم کورٹ میں الیکٹورل بانڈ کے خلاف عرضی کی سماعت پوری، آج آئےگا فیصلہ۔ شنوائی میں مرکزی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے کہا کہ الیکٹورل بانڈ بلیک منی پر روک لگانے کے لئے ایک تجربہ ہے اور لوک سبھا انتخاب تک عدالت کو اس میں دخل نہیں دینا چاہیے۔
کمیشن نے کہا کہ الیکٹورل بانڈ اسکیم اور کارپوریٹ فنڈنگ کو محدود نہ کرنے سے سیاسی جماعتوں کو ملنے والے چندے کی شفافیت پر سنگین اثر پڑےگا۔ سیاسی جماعتوں کو غیر منضبط غیر ملکی فنڈنگ کی اجازت ملےگی اور اس سے ہندوستانی پالیسیاں غیر ملکی کمپنیوں سے متاثر ہو سکتی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے گزشتہ 26 مئی 2017 کو وزارت قانون کے سکریٹری کو خط لکھکر اپنی تشویش کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد وزارت قانون نے کمیشن کے اعتراضات کو شامل کرتے ہوئے وزارت خزانہ کے محکمہ اخراجات کو تین خط بھیجا تھا۔
پہلے بھی مرکزی حکومت کے قریبی مانے جانے والے افسر آر بی آئی تک پہنچے ہیں، لیکن انہوں نے اپنی آواز کو آزاد رکھا۔ کیا شکتی کانت داس ایسا کر پائیںگے؟
گجرات کے وزیر صحت رہ چکے جئے نارائن ویاس نے ریزرو بینک کے نئے گورنر شکتی کانت داس کی تعلیمی صلاحیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے حساب سے بینک کا چیف ایک اہل ماہر اقتصادیات ہونا چاہیے۔
مالیاتی کمیشن کے ممبر شکتی کانت داس اقتصادی معاملوں میں سکریٹری ، سکریٹری آف ریونیو اور فرٹیلائزرس سکریٹری رہ چکے ہیں۔
ریزرو بینک کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے کہا کہ ارجت پٹیل کا استعفیٰ باعث تشویش ہے ۔ پورے ملک کو اس بات کو لے کر فکرمند ہونا چاہیے۔
پچھلے کچھ وقتوں سے مرکز کی مودی حکومت اور ریزرو بینک کے گورنر ارجت پٹیل کے بیچ کشمکش جاری تھا۔ارجت پٹیل نے اس استعفیٰ کی وجہ کو نجی بتایا ہے۔
اگر کل ممکنہ این پی اے کا تقریباً40 فیصد 10 کے قریب بڑے کاروباری گروپوں میں پھنسا ہوا ہے، تو بینک اس کا حل کئے بغیر قرض دینا شروع نہیں کر سکتے ہیں۔یہ بات واضح ہے لیکن حکومت بڑے بقائے والے بڑے کاروباری گروپوں کے لئے الگ سےاصول چاہتی ہے، جو ان کے مفادات کا خیال رکھتے ہوں۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے فنڈز ملک کی سماجی جائیداد ہیں اور مفاد عامہ کا حوالہ دےکر من مانے طریقے سے ان کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
ڈپارٹمنٹ آف اکانومک افیئرس(ڈی ای اے)کے سکریٹری سبھاش چندر گرگ نے کہا ہے کہ حکومت آر بی آئی سے 3.6لاکھ کروڑ روپے کی مانگ نہیں کر رہی ہے۔
نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے ریزرو بینک آف انڈیا کی کل پونجی 9.59 لاکھ کروڑ روپے کا تقریباً ایک تہائی حصہ مانگا تھا۔
این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر مہر شرما نے لکھا ہے کہ ریزرو بینک اپنے منافع سے ہرسال حکومت کو 50 سے 60 ہزار کروڑ دیتی ہے۔ اس کے پاس ساڑھے تین لاکھ کروڑ سے زیادہ کا ریزرو ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اس ریزرو سے پیسہ دے تاکہ وہ انتخابات میں عوام کے بیچ گل چھرے اڑا سکے۔
آر بی آئی ایکٹ کی دفعہ 7 کا استعمال مفاد عامہ میں نہیں ہے-یہ موقع کےتلاش میں بیٹھے کاروباریوں کو آر بی آئی کے ذریعے پیسہ دینے کے لئے مجبور کرنے کے ارادے سے اٹھایا گیا ایک بےشرمی بھرا قدم ہے۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ کسی بھی ملک کے سینٹرل بینک کی خود مختاری میں دخل نہیں دیا جانا چاہیے۔