ویڈیو: کسان اس وقت اپنی فصلوں کی زیادہ سے زیادہ قیمت کے لیے احتجاج نہیں کر رہے ہیں بلکہ حکومت سے ایسے نظام کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں اپنی محنت کی واجب قیمت مل جائے۔ کسانوں کے احتجاج اور ان کے مطالبات پر روشنی ڈال رہے ہیں دی وائر کےاجئے کمار۔
خصوصی رپورٹ: مرکزی وزیر پیوش گوئل کی قیادت والی قومی پیداواری کونسل کا کہنا ہے کہ وزارت زراعت کے تحت آنے والے نیشنل ایگریکلچرل کوآپریٹو مارکیٹنگ فیڈریشن نے جو نیلامی ضابطہ فروغ دیا ہے، اس سے مل مالکان کو بے تحاشہ منافع حاصل کرنے میں مدد مل رہی تھی۔ کونسل کی سفارش ہے کہ این اے ایف ای ڈی 2018 سے جاری نیلامی کے اس ضابطہ کورد کرے۔
ویڈیو: حال ہی میں دال مل مالکان کے 4600 کروڑ روپے کے گھپلے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہ انکشاف دو صحافیوں نتن سیٹھی اور شری گیریش نے کیا ہے۔ ان کی رپورٹ کے مطابق مل مالکان حکومت کو ناقص معیارکی دالوں کی فراہمی کے لیےذمہ دار تھے۔اس معاملے پر دونوں صحافیوں سےدی وائر کے اندر شیکھر سنگھ کی بات چیت۔
ویڈیو: گزشتہ نومبرمیں اسکاٹ لینڈ کےشہر گلاسگو میں منعقد ہوئےاقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس، جس کو’سی او پی 26’بھی کہا جاتا ہےکے سلسلے میں دو ماہرین ماحولیات– وندنا شیوا اور شیام شرن (سابق خارجہ سکریٹری اور ہندوستانی سی او پی مذاکرہ کار)سے دی وائر کے اندر شیکھر سنگھ کی بات چیت۔
خصوصی رپورٹ: دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ سرکاری ملکیت والی این اے ایف ای ڈی کی نیلامی کےعمل میں تبدیلیوں کے باعث مل مالکان کو گزشتہ چار سالوں میں5.4 لاکھ ٹن خام دالوں کی پروسسنگ کےلیے کم از کم 4600 کروڑ روپے کا منافع ہوا۔ اس سے سرکاری خزانے کا شدیدنقصان ہوا اور ممکنہ طور پر دالوں کی کوالٹی بھی متاثر ہوئی۔
مسلسل اقتصادی ترقی کےکسی بھی دور کے ساتھ ساتھ غربت میں کمی آتی ہے اور لیبرفورس زراعت سے انڈسٹری اورسروس سیکٹر کی طرف گامزن ہوتا ہے۔حالیہ اعدادوشمار دکھاتے ہیں کہ ملک میں ایک سال میں تقریباً1.3کروڑ مزدور ایسےسیکٹر سے نکل کر کھیتی سے جڑے ہیں۔ عالمی وبا ایک وجہ ہو سکتی ہے،لیکن مودی سرکار کی اقتصادی پالیسیوں نے اس کی زمین پہلے ہی تیارکردی تھی۔
خصوصی رپورٹ : مرکزی وزارت زراعت نے اس کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لئےریاستی حکومتوں کے ساتھ ملکر جانچ شروع کی ہے۔ اس کے علاوہ کسانوں کے 5000 کروڑ روپے سے زیادہ کے دعوے کی ادائیگی نہیں کی جا سکی ہے، جبکہ دعوے کی ادائیگی کی معینہ مدت کافی پہلے ہی پوری ہو چکی ہے۔
آئی آر ڈی اے آئی کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2018 تک فصل بیمہ کے تحت کام کرنے والی سرکاری کمپنیوں کو 4085 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اس میں سے سب سے بڑا نقصان اے آئی سی کو ہوا ہے۔
بیمہ کمپنیوں کو اکتوبر 2018 تک 66242 کروڑ روپے کا پریمیم مل چکا ہے۔ ایک طرف کمپنیوں کو وقت پر پریمیم مل رہا ہے، وہیں دوسری طرف کسانوں کے دعوے کی ادائیگی کئی مہینوں سے زیر التوا ہے۔
وائر کی اسپیشل رپورٹ: آر ٹی آئی سے ملی جانکاری کے مطابق پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے تحت کمپنیوں کو پہلے کی بیمہ اسکیموں کے مقابلے میں36848 کروڑ روپے کا زیادہ پریمیم ملا ہے جبکہ کور کئے گئے کسانوں کی تعداد میں صرف 0.42 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
سینئر صحافی اور کسان کارکن سائی ناتھ نے دعویٰ کیا کہ مہاراشٹر کے ایک ضلع میں فصل بیمہ یوجنا کے تحت کل 173 کروڑ روپے ریلائنس انشیورنس کو دئے گئے۔ فصل برباد ہونے پر ریلائنس نے کسانوں کو صرف 30 کروڑ روپے کی ادائیگی کی اور بنا ایک پیسہ لگائے 143 کروڑ روپے کا منافع کما لیا۔