شوپیاں کےایگزیکٹیو مجسٹریٹ نےگرفتاری وارنٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گوہر گیلانی لگاتارعوامی امن وامان کو متاثرکر رہے ہیں۔ انہیں 7 فروری کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے بلایا گیا تھا، لیکن وہ حاضر نہیں ہوئے۔
جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اس طرح ایف آئی آر درج کرنا صحافی کو ‘چپ کرانے’ کا طریقہ تھا۔ صحافی کی ایک رپورٹ 19اپریل2018 کو جموں کےایک اخبار میں شائع ہوئی تھی، جو ایک شخص کو پولیس حراست میں ہراساں کرنے سے متعلق تھی۔ اس کو لےکر پولیس نے ان پر کیس درج کیا تھا۔
جموں وکشمیر انتظامیہ نے گزشتہ دنوں ریاست کی نئی میڈیا پالیسی کو منظوری دی ہے، جس کے تحت وہ شائع اورنشرہونے والےمواد کی نگرانی کرےگا اور یہ طے کرےگا کہ کون سی خبر ‘فیک، اینٹی سوشل یا اینٹی نیشنل رپورٹنگ’ہے۔ پریس کاؤنسل نے اس بارے میں انتظامیہ سے جواب مانگا ہے۔
دو جون کو جاری جموں وکشمیر کی نئی میڈیا پالیسی کے مطابق، سرکار اخباروں اور دوسرے میڈیا چینلوں پر آنے والے مواد کی نگرانی کر کےیہ طے کرےگی کہ کون سی خبر ‘فیک، اینٹی سوشل یا اینٹی نیشنل’ ہے۔ ایسا پائے جانے پر متعلقہ ادارے کو سرکاری اشتہار نہیں دیےجا ئیں گے، ساتھ ہی ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائےگی۔
یو اے پی اے کے تحت ملزم بنائے گئے کشمیری صحافی اور قلکار گوہر گیلانی کی گرفتاری سے عبوری تحفظ اورایف آئی آر رد کرنے کی مانگ والی عرضی پرشنوائی کرتے ہوئے جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے سرکار کو نوٹس جاری کرکے 20 مئی سے پہلے جواب داخل کرنے کاحکم دیا۔
واشنگٹن پوسٹ اور الجزیرہ جیسےانٹرنیشنل میڈیااداروں کے ساتھ کام کرنے والی 26 سالہ خاتون فوٹوجرنلسٹ مسرت زہرہ کشمیر کی دوسری صحافی ہیں جن پر یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
ملک کاعوامی نشریاتی ادارہ پرسار بھارتی نے ٹوئٹ کرکے کہا تھا کہ وزارت خارجہ نے امریکہ میں واقع ہندوستانی سفارت خانے سے ہندوستان مخالف رویے کو لے کر وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیائی ڈپٹی بیورو چیف ایرک بیل مین کو فوری اثر سے واپس بھیجنے کی ایک اپیل کو دیکھنے کے لیے کہا ہے۔ حالانکہ وزارت خارجہ کے ذرائع نے کہا کہ پرسار بھارتی نے غلط جانکاری دی۔
بجٹ پیش ہونے سے کچھ دن پہلے پرائیویسی بنائے رکھنے کے لئے وزارت خزانہ میں صحافیوں کے داخلہ پر پابندی لگا دی جاتی ہے، لیکن بجٹ پیش ہونے کے بعد یہ پابندی ہٹا لی جاتی ہے۔ حالانکہ، اس بار ایسا نہیں کیا گیا۔
ویڈیو: میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں کچھ میڈیا ہاؤس کو سرکاری اشتہار نہ دینے کے مودی حکومت کے فیصلے پر سینئر صحافی راجیو رنجن ناگ، ستیہ ہندی ویب سائٹ کے مدیر آشوتوش اور دی وائر کے بانی مدیران میں سے ایک ایم کے وینو سے ارملیش کی بات چیت۔
مجموعی طور پر 2.6 کروڑ ماہانہ ر یڈرس والے تین بڑےاخبار گروپ کا کہنا ہے کہ مودی کے پچھلے مہینے لگاتار دوسری بار بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر اقتدار میں آنے سے پہلے ہی ان کے کروڑوں روپے کے اشتہارات کو بند کر دیا گیا۔
اخبار’وشووانی’کے مدیر ویشویشور بھٹ نے کہا کہ خبر ذرائع پر مبنی تھی اور اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو وہ وضاحت جاری کر سکتے تھے۔ بہت زیادہ تو ہتک عزت کا معاملہ دائر کیا جا سکتا تھا لیکن ایف آئی آر درج کرانا ایک نیا پیٹرن شروع کرنے جیسا ہے۔ میں یقینی طور پر عدالت میں اس کو چیلنج دوںگا۔