یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن پلس اور آل انڈیا سروے آف ہائر ایجوکیشن کے اعداد و شمار پر مبنی ‘اسٹیٹس آف مسلم ایجوکیشن ان انڈیا’ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2019-20 میں 21 لاکھ مسلم طلباء نے اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لیا تھا، 2020-21 میں یہ تعداد 19.21 لاکھ رہ گئی۔
ویڈیو: کیا ہندوستان کی یونیورسٹیوں میں تعلیمی آزادی نام کی کوئی چیز باقی رہ گئی ہے؟ یونیورسٹی کو خیالات کے تبادلے کی جگہ تصور کیا جاتاہے، لیکن کیا آج ہندوستان میں ایسی کوئی جگہ باقی رہ گئی ہے؟ دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور ڈی یو کے پروفیسر اپوروانند اس بارے میں تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔
آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن نے انکشاف کیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں مسلم اسٹوڈنٹ کے داخلے میں 8 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ 20 فیصد مسلم آبادی والے اتر پردیش کی کارکردگی سب سے خراب رہی۔یہاں36 فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ وہیں کیرالہ میں43 فیصد مسلمانوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لیا ہے۔
اعظم گڑھ گرچہ اپنی علمی اور ادبی حیثیت کے لیے ملک اوربیرون ملک مشہور ہے، پھر بھی نئی نسل کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے یہاں بہت سارے مسائل برسوں سے حل طلب ہیں۔ابتدائی تعلیم توکسی طرح ہوجاتی ہے، لیکن اس کے بعد سیکنڈری، سینئرسیکنڈری اور اس سے آگے معیار ی تعلیم کا حصول آسان نہیں ہے۔
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اور آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن نے اس سلسلے میں ایک ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے ہندوستانی شہریوں سے کہا کہ وہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کریں۔ چینی اداروں میں ہندوستانی طالبعلموں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے گریز کرنے کی وارننگ دینے کے ایک ماہ کے اندر یو جی سی اور اے آئی سی ٹی ای نے یہ ایڈوائزری جاری کی ہے۔
وزیر تعلیم رمیش پوکھریال نشنک نے لوک سبھا میں بتایا کہ ملک کی42سینٹرل یونیورسٹی میں کل 18647عہدے خالی ہیں، جن میں 6210 ٹیچنگ اور 12437نان ٹیچنگ پوسٹ ہیں۔
صدرجمہوریہ رامناتھ کووند کو بھیجے گئے خط میں ٹیچرس ایسوسی ایشن نے لکھا ہے کہ وہاٹس ایپ سے امتحان لینے کے انتظامیہ کے فیصلے سے جے این یو پوری دنیا کی تعلیمی دنیا میں ایک مذاق بن جائے گا۔
لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب میں ایم ایچ آر ڈی منسٹر رمیش پوکھریال نشنک نے بتایا کہ سال 2018-19 میں ملک کے 26 انجینئرنگ کالج بند ہوئے ہیں، جن میں سب سے زیادہ اتر پردیش میں ہیں۔
یو جی سی چیئرمین ڈی پی سنگھ نےکہا کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کو اپنے نصاب کا از سر نو جائزہ لینے اور آنے والے 5 سالوں میں مہیا ہونے والے روزگار کے مواقع کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ملک کے سرکاری اسکولوں میں دس لاکھ اساتذہ نہیں ہیں۔ کالجوں میں ایک لاکھ سے زیادہ اساتذہ کی کمی بتائی جاتی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں آٹھویں کے بچّے تیسری کی کتاب نہیں پڑھ پاتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ ڈپریشن سے گزریںگے کیونکہ اس کے ذمہ دار بچّے نہیں، وہ سسٹم ہے جس کو پڑھانے کا کام دیا گیا ہے۔
اساتذہ کی کمی کے معاملے میں سب سے سنگین حالت وارانسی کے آئی آئی ٹی بی ایچ یو کی ہے۔ یہاں پر اساتذہ کے لئے 548 منظور شدہ عہدے ہیں لیکن اس وقت صرف 265 اساتذہ کام کر رہے ہیں۔
بی جے پی کی حکومت نے اعلیٰ تعلیم پرسب سے زیادہ پیسے بچائے ہیں۔ ہمارا نوجوان خودہی پروفیسر ہے۔ وہ تو بڑےبڑے کو پڑھا دیتا ہے جی، اس کو کون پڑھائےگا۔ مدھیہ پردیش کے پونے 6لاکھ نوجوان کالجوں میں بنا پروفیسر،اسسٹنٹ پروفیسر کے ہی پڑھ رہے ہیں۔ ہمارا نوجوان ملک مانگتا ہے، کالج اور کالج میں ٹیچرنہیں مانگتا ہے۔
سی سی ایس جیسے قانون کا مقصد اعلیٰ تعلیم کے مقاصد کو ہی تباہ کر دینا ہے۔اعلیٰ تعلیم میں ترقی تب تک ممکن نہیں ہے جب تک خیالات کے لین دین کی آزادی نہ ہو۔اگر ان اداروں کا یہ رول ہی ختم ہو جائے تو اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہی کیا رہےگی؟ ٹیچر اور ریسرچ اسکالر سرکاری ملازم کی طرح عمل نہیں کر سکتے۔
انٹرویو: دہلی یونیورسٹی کے ایم اے کے نصاب سے مصنف اور مفکر کانچہ ایلیا شیفرڈ کی کتاب ہٹانے کی تجویز پر ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی الگ الگ خیالات کو پڑھانے، ان پر بحث کرنے کے لئے ہوتی ہیں، وہاں سو طرح کے خیالات پر بات ہونی چاہیے۔ یونیورسٹی کوئی مذہبی ادارہ نہیں ہیں، جہاں ایک ہی طرح کے مذہبی افکار پڑھائے جائیں۔
یونیورسٹیوں کو 31 جولائی تک یو جی سی کو بتانا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں ان کو جنسی استحصال کی کتنی شکایتیں ملیں اور ان پر کیا اقدام کیے گئے۔
علم کی جب بھی بات ہوتی ہے تو بہار کے تاریخی نالندہ اور وکرم شلا یونیورسٹی کا ذکر کئے بغیر پوری نہیں ہوتی ، لیکن اسی بہار میں آج تعلیمی نظام کا حال یہ ہے کہ آدھا درجن یونیورسٹیوں میں مختلف سیشن کے امتحان کئی سالوں سے التوا میں ہیں۔
جس طرح زراعتی شعبے میں قرض سے بڑھتی کشیدگی نے کسان خودکشی کا مسئلہ پیدا کیا، اسکولی تعلیم میں امتحانات اور میرٹ کے دباؤ نے اسکولی طالب علموں میں خودکشی کے رجحان کو جنم دیا، ذہنی دباؤ کی اسی کڑی میں حکومت نے کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں اور اساتذہ کو جھونکنے کی تیاری کر لی ہے۔
بی جے پی کے2014 میں حکومت میں آنے کے بعد سے اس نے جیسےفیصلہ کر لیاہے کہ جےاین یو کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے لیے تعلیمی معیار کو بہتر کر نے کے بجائے ، لیفٹ ونگ اسٹوڈنٹ پا لیٹکس اور لیفٹ ونگ خیالات کو ختم کر نے پر ان کا سارا زور ہے۔