جموں و کشمیر انتظامیہ نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں ‘علیحدگی پسندی کو فروغ دینے’ اور ‘ہندوستان کے خلاف تشدد بھڑکانے’ کے الزام میں 25 کتابوں کو ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان میں سے کچھ کتابیں سرکردہ ہندوستانی مصنفین مثلاً اے جی نورانی، ارندھتی رائے اور انورادھا بھسین سمیت معروف مؤرخین نے لکھی ہیں۔
میں ایک خوشحال ملک کا شہری ہوں اور معترف ہوں کہ یہ خوشحالی آپ کی بدولت ہے۔ آپ کے اقتدار سے پہلے یہ ملک دنیا کا سب سے غریب ملک تھا ۔لوگ زندہ درگور تھے۔ آپ نے ہمیں غربت ، جہالت اور ذلت کی دلدل سے آزاد کیا۔ میری طرح آپ کے لاکھوں پرستار ہیں۔ ایک اداکارہ تو آپ کی دیوانی ہے۔ اس نے بجا فرمایا ہے کہ ہم صحیح معنوں میں آپ کے اقتدار میں آنے کے بعد آزاد ہوئے ہیں ۔ آپ نے ہمیں آزادی، عزتِ نفس اور تاریخی افتخار سے آشنا کیا ہے۔
موجودہندو قوم پرست حکومت کوئی بھی قدم خلاف مصلحت نہیں اٹھاتی ہے، اسی لیے اس پر چہ می گوئیاں شروع ہو گئی ہیں اور بتایا جا تاہے کہ بیک ڈور سے سرینگر سے دارالحکومت کا درجہ چھین کر جموں کو دیا گیا ہے۔ ویسے بھی مرکزی حکومت کے کئی اہم ادارے برسوں قبل اپنے دفاتر مستقل طو پر جموں منتقل کر چکے تھے۔