نتیش سرکار کی جانب سے جاری ایک آرڈر میں احتجاج یا سڑک جام کرنے والوں کو سرکاری نوکری اور ٹھیکوں سےمحروم رکھنے کی بات کہی گئی ہے۔ اپوزیشن رہنما تیجسوی یادو نے اس پر کہا کہ نتیش کمار مسولنی اور ہٹلر کو چیلنج دے رہے ہیں۔ نوکری بھی نہیں دیں گے اور احتجاج بھی نہیں کرنے دیں گے۔
بہارپولیس نے ریاست کے سکریٹریوں سے ایسے معاملے جہاں سوشل میڈیا کے ذریعےلوگوں اوراداروں کی جانب سےسرکار پر ناپسندیدہ تبصرہ کیا گیا ہو ان کے نوٹس میں لانے کی گزارش کی ہے تاکہ سائبرکرائم کےتحت متعلقہ شخص کے خلاف کارروائی کی جائے۔
کووڈانفیکشن کےخطرے کے بیچ بھی ملک بھر کےمیڈیااہلکار لگاتار کام کر رہے ہیں، لیکن میڈیااداروں کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ جوکھم اٹھاکر کام کررہے ان صحافیوں کو کسی طرح کا بیمہ یا اقتصادی تحفظ دینا تو دور، انہیں بناوجہ بتائے نوکری سے نکالا جا رہا ہے۔
کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے میڈیا میں نوکریوں کے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ سوموار کو دی ہندو کے ممبئی بیورو کے 20 صحافیوں کو ایچ آر کی جانب سے استعفیٰ دینے کو کہا گیا ہے۔
رپورٹنگ کی روایت کو اداروں کے ساتھ سماج نے بھی ختم کیا، وہ اپنی سیاسی پسندکی وجہ سے میڈیا اور جوکھم لےکر خبریں کرنے والوں کو دشمن کی طرح گننے لگا۔ کوئی بھی رپورٹر ایک آئینی ماحول میں ہی جوکھم اٹھاتا ہے، جب اسے بھروسہ ہوتا ہے کہ سرکاریں عوام کے ڈر سے اس پر ہاتھ نہیں ڈالیں گی۔
مرکزی وزیر پرتاپ چندر سارنگی نے کہا کہ شہریت قانون کو 70 سال پہلےنافذ ہو جانا چاہیے تھا۔ شہریت قانون ملک کی تقسیم کے پاپ کا کفارہ ہے۔ یہ کانگریس کے گناہ کا کفارہ ہے۔
اتر پردیش کے نوئیڈا کے ایس ایس پی ویبھو کرشن کی طرف سے وزیراعلیٰ اور ڈی جی پی کو بھیجی گئی رپورٹ اس وقت عوامی ہو گئی جب ایک مبینہ ویڈیوسیکس چیٹ وائرل ہو گیا تھا۔ رپورٹ میں ایس ایس پی نے سینئر آئی پی ایس افسروں پرالزام لگایا تھا کہ وہ پیسے لےکر ٹرانسفر-پوسٹنگ کے ساتھ مقدموں اور گرفتاریوں کوبھی متاثر کرتے تھے۔ اس تعلق سے ڈی جی پی نے ایس ایس پی سے جواب مانگا ہے۔
’گیٹنگ اوے ود مرڈر‘نامی اسٹڈی کے مطابق 2014 سے 2019 کے بیچ ہندوستان میں 40 صحافیوں کی موت ہوئی، جن میں سے 21 صحافیوں کے قتل کی وجہ ان کے کام سے جڑی تھی۔
پیرس واقع نگرانی تنظیم’رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرس ‘کےسربراہ کرسٹوف ڈیلوئر نے کہا کہ جمہوریممالک میں زیادہ تر صحافیوں کو ان کے کام کے لئے نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو کہ جمہوریت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
بجٹ پیش ہونے سے کچھ دن پہلے پرائیویسی بنائے رکھنے کے لئے وزارت خزانہ میں صحافیوں کے داخلہ پر پابندی لگا دی جاتی ہے، لیکن بجٹ پیش ہونے کے بعد یہ پابندی ہٹا لی جاتی ہے۔ حالانکہ، اس بار ایسا نہیں کیا گیا۔
اڑیسہ کے بالاسور سے پہلی بار رکن پارلیامان بننے والے پرتاپ چندر سارنگی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں مرکزی وزیر مملکت ہیں۔ پارلیامنٹ میں اپنی پہلی تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک ٹکڑے ٹکڑے گینگ کو کبھی قبول نہیں کرےگا۔
مودی حکومت میں مرکزی وزیر مملکت پرتاپ چندر سارنگی کے انتخابی حلف نامہ کے مطابق، ان کے خلاف ، فسادکرنے، مذہب کی بنیاد پر مختلف فرقوں کے درمیان نفرت کو بڑھاوا دینے،دھمکی اورجبراً وصولی کے الزامات کے تحت مقدمے درج ہیں۔
جب ایک صحافی نے سیدھے وزیر اعظم سے سوال پوچھا تو انہوں نے کہا، ‘ہم تو مہذب سپاہی (Disciplined Soldier) ہیں۔ پارٹی صدر ہمارے لئے سب کچھ ہوتے ہیں۔ ‘شاہ نے بھی کہا کہ وزیر اعظم کو سوالوں کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
میانمار کے رخائن میں فوجی کارروائی کے دوران روہنگیا مسلمانوں پر ہوئے ظلم و تشدد کی رپورٹنگ کرتے ہوئے 32 سالہ وا لون اور 28 سالہ کیاؤ سوئے او کو سرکاری پرائیویسی قانون توڑنے کے لئے گزشتہ سال ستمبر میں سات-سات سال کی جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔
میڈیا کا ایک بڑا طبقہ، جس کا مذہب اقتدار میں بیٹھے لوگوں سے سوال پوچھنا ہونا چاہیے، گھٹنے ٹیک چکا ہے اور ملک کے کچھ سب سے طاقتور لوگوں نے خاموشی اختیار کرلی ہے، لیکن عام لوگ ایسا نہیں کرنے والے ہیں۔ ان کی آواز اونچے تختوں پر بیٹھے لوگوں کو سنائی نہیں دیتی، لیکن جب وقت آتا ہے وہ اپنا فیصلہ سناتے ہیں۔
دی وائر ہندی کے سینئر کرسپانڈنٹ رہے امت سنگھ کو یہ ایوارڈ ’بہترین ہندی جرنلزم -پرنٹ‘کٹیگری میں جموں وکشمیر پولیس پر کی گئی ان کی گراؤنڈ رپورٹ کے لیے دیا گیا ہے۔ دی وائر انگریزی میں انوائرمینٹل رپورٹنگ (پرنٹ )کی کٹیگری میں سندھیا روی شنکر کویہ ایوارڈ دیا گیا۔
میانمار کی حکومت ان جرائم سے انکار کرتی رہی ہے۔ لیکن صحافیوں کی گرفتاری کے بعد خود میانمار کی فوج نے مانا کہ اس نے گاؤں میں 10 روہنگیا ئی مردوں اور نوجوانوں کو مارا تھا۔
ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے حال ہی میں کئی صحافیوں پر حملے کی دھمکیوں اور سوشل میڈیا پر ان کے لئے نامناسب زبان کے استعمال کی پرزور مذمت کی ہے۔
کوبرا پوسٹ کے دوسرے حصے کو آج پریس کلب آف انڈیا میں جاری کیا جانا تھا۔ لیکن اس اسٹنگ آپریشن میں شامل میڈیاگروپ دینک بھاسکرنے دہلی ہائی کورٹ کی پناہ لے لی۔
ترکی میں اپوزیشن کے مرکزی اخبار ’جمہوریت‘ کے چودہ صحافیوں کو دہشت گردوں کی مدد کرنے کے الزام میں قید کی سزائیں سنا دی گئی ہیں۔ کئی بین الاقوامی تنظیموں نے ترکی میں آزادی صحافت کی ابتر صورت حال پر شدید تنقید کی ہے۔
خفیہ کیمرے کی مدد سے کئے گئے کوبراپوسٹ کے ’آپریشن 136 ‘میں ملک کے کئی مشہور میڈیا ہاؤس حکمراں جماعت کے لئے انتخابی ہوا تیار کرنے کو راضی ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے دور کو پورا ہونے میں تقریباً16 مہینے کا وقت باقی رہ گیا ہے۔ لیکن انہیں خود کو اور اپنی حکومت کو آزاد پریس کےتئیں جواب دہ بنانے کی ضرورت آج تک محسوس نہیں ہوئی ہے۔
کیا مودی سپر مین ہیں ،جن سے سوال نہیں کیا جاسکتا؟ جمہوریت کے چوتھے ستون کے ممبروں سے اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے ساتھ یاری گانٹھنے کی امید نہیں کی جاتی۔ ان سے یہ امید بھی نہیں کی جاتی کہ وہ وزیر اعظم کو دلاسا دیتے رہیں کہ […]