سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ کل 52 عورتوں اور تین مردوں کو صبح پونے گیارہ بجے حراست میں لیا گیا ہے اور پولیس نے بتایا ہے کہ ان کو اوپر سے آرڈر آنے کے بعد رہا کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے جنرل سکریٹری کے ذریعے جاری ریلیز میں کہا گیا ہے کہ، ‘انٹرنل کمیٹی نے پایا کہ 19 اپریل 2019 کو سپریم کورٹ کی ایک سابق اسٹاف کے ذریعے لگائے جنسی استحصال کے الزاموں میں کوئی دم نہیں ہے۔’
جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے جانچ کمیٹی کا دائرہ بڑھانے کے لئے ایک باہری ممبر کو بھی شامل کرنے کی مانگ کی ہے۔ اس کے لئے انہوں نے سپریم کورٹ کی تین ریٹائرڈ خاتون ججوں کا نام بھی دیا ہے۔
دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس راجندر مینن کی صدارت والی بنچ نے کہا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چل رہا ہے اور ہائی کورٹ اس میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا ہے۔
سی جے آئی رنجن گگوئی پر سپریم کورٹ کی ایک سابق جونیئر کورٹ اسسٹنٹ نے جنسی استحصال کا الزام لگایا ہے۔ایک وکیل نے اس الزام کے پیچھے سازش ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ جسٹس پٹنایک کا کہنا ہے کہ جب تک انٹرنل جانچ پوری نہیں ہو جاتی ،وہ سازش کے دعووں کی جانچ شروع نہیں کریں گے۔
سی جے آئی رنجن گگوئی کے خلاف جنسی استحصال کے الزامات کی جانچکر رہی کمیٹی کو لکھے خط میں شکایت گزار نے کہا کہ مجھے صرف تبھی انصاف مل سکتا ہے جب غیرجانبدارانہ اور شفافیت کے ساتھ سماعت کا موقع دیا جائے۔
سپریم کورٹ نے سی جے آئی کے خلاف جنسی استحصال کے الزامات کو’سازش ‘ بتانے والے وکیل اتسو بینس کے دعووں کی تفتیش کی ذمہ داری ریٹائر ڈ جج اے کے پٹنایک کو دی ہے۔ بنچ نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ جنسی استحصال کے الزامات سے متعلق شکایت پر غور نہیں کرےگی۔
چیف جسٹس رنجن گگوئی پر سپریم کورٹ کی سابق جونیئر کورٹ اسسٹنٹ کے ذریعے لگائے گئے جنسی استحصال کے الزامات پر 250 سے زیادہ خاتون وکیلوں، سماجی کارکنوں وغیرہ نے خط لکھکر کہا ہے کہ اس معاملے میں سی جے آئی اور سپریم کورٹ نے سیدھے سیدھے وشاکھا گائڈلائنس کی خلاف ورزی کی ہے۔
سی جے آئی رنجن گگوئی کے خلاف سپریم کورٹ کی سابق ملازمہ کے جنسی استحصال کے الزامات کو وکیل اتسو بینس نے سازش کہا تھا ۔ جسٹس ارو ن مشرا، جسٹس آر ایف نریمن اور جسٹس دیپک گپتا کی بنچ نے اس سلسلے میں تینوں اداروں کے چیف کو بلایا ہے۔
سی جے آئی رنجن گگوئی پر لگے جنسی استحصال کے الزام کی جانچ کے لئے بنائی گئی اس کمیٹی میں جسٹس ایس اے بوبڈے کے علاوہ جسٹس این وی رمن اور جسٹس اندرا بنرجی بھی ہیں۔
وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے اپنے بلاگ میں کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف غیر مصدقہ الزامات کی حمایت کرکے چیف جسٹس کے ادارہ کو متزلزل کرنے کی کوشش کرنے والے ایسے لوگوں کا کام رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے۔
سپریم کورٹ کے 22 ججوں کو بھیجے گئے حلف نامہ میں سپریم کورٹ کی سابق جونیئر کورٹ اسسٹنٹ نے الزام لگایا ہے کہ اکتوبر 2018 میں سی جے آئی جسٹس رنجن گگوئی نے اپنے گھر پر بنے آفس میں اس کے ساتھ بد سلوکی کی تھی، جس کی مخالفت کرنے کے بعد ان کو اور ان کی فیملی کو ٹارچر کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے سکریٹری جنرل نے کیا الزامات سے انکار۔
چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑہ نے حکومت کے کنٹرول سے پوری آزادی کی مانگ کرتے ہوئے دو دوسرے الیکن کمشنروں کو بھی آئینی تحفظ دینے اور مالی آزادی دینے کی مانگ رکھی۔
سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے ’ دی گریٹ مارچ آف ڈیموکریسی : سیوین ڈیکیڈس آف انڈیاز الیکشنس ‘کے پیش لفظ میں کہا کہ جتنے بھی انتخابی اصلاحات ہوئے ہیں، وہ تمام عدلیہ کی مداخلت سے ہوئے ہیں۔
لاء منسٹر روی شنکر پرساد نے کہا کہ یو پی ایس سی کے ذریعے ایک آل انڈیا جوڈیشیل سروس اگزام کے تحت ایس سی اور ایس ٹی کمیونٹی کے لوگوں کی بھرتی کی جاسکتی ہے۔
گزشتہ 30 نومبر کو ریٹائر ہوئے جسٹس جوزف نے 12 جنوری کو کیے پریس کانفرنس کے سیاق میں کہا کہ انھوں نے کورٹ کے مسائل کے بارے میں سابق چیف جسٹس دیپک مشرا کو بتایا تھا۔ لیکن جب کوئی حل نہیں نکلا تو میڈیا کے سامنے آنا پڑا۔
ہندوستان میں زیادہ تر لوگ جب ووٹ دینے جاتے ہیں، تو صرف امیدوار کی ذات اور مذہب دیکھتے ہیں نہ کہ اس کا مجرمانہ پس منظر۔
ایک معاملے کی سماعت کے دوران جسٹس ارون مشرا اور جسٹس یویو للت کی بنچ نے کہا کہ وکیل ججوں کو نشانہ بناکر اس ادارہ کو ہی ختم کر رہے ہیں۔
جسٹس کرین جوزف نے کہا کہ ایسی کوئی مثال نہیں ہے جب کالیجئم کی سفارش والے ناموں کو مرکز کے ذریعے واپس بھیجا گیا ہو۔ اس لئے معاملے پر اور زیادہ بات چیت کئے جانے کی ضرورت ہے۔
دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ نے خصوصی سی بی آئی جج بی ایچ لویا کی موت کے معاملے میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو ‘ عدالتی طور سے غلط ‘ بتایا۔
کمل شکلا بستر میں فرضی انکاؤنٹر ، صحافیوں کی حفاظت، انسانی حقوق اور آدیواسیوں کے کے لئے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
یہ حکومت اس لئے نہیں ہے کہ کانگریس کے گناہوں کو دوہراتی رہے۔ کیا ججوں کی تقرری کے معاملے میں مودی حکومت نے کوئی الگ اخلاقی پیمانہ قائم کیا ہے؟
جسٹس کے ایم جوزف کے سپریم کورٹ جج بنائے جانے پر تذبذب برقرار،کانگریس نے لگایا بدلے کی سیاست کا الزام۔
آج جن لوگوں کو ارون جیٹلی “ادارے میں رکاوٹ ”بتا رہے ہیں، ان کو یو پی اے2 کے دورحکومت کے وقت بد عنوانی کے خلاف آواز اٹھانے پر بی جے پی نے سرآنکھوں پر بٹھایا تھا۔
پچھلے مہینے عدالت کے چار سینئر ججوں نے پریس کانفرنس میں اہم پی آئی ایل اور مقدمےکو لے کر جونیئر ججوں کو دیے جانے پر سوال اٹھائے تھے۔
چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی بنچ نے کہا کہ اس معاملے کی سماعت تبھی ہوگی، جب سپریم کورٹ کی رجسٹری عرضی درج کرکے سماعت کے لئے فہرست میں شامل کرےگی۔
انسانی وسائل و ترقی کے وزیر مملکت اپیندر کشواہا نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے 80 فیصد جج کسی نہ کسی فیملی سے آتے ہیں، جو عدلیہ سے منسلک ہے۔
کیا رویش کمار کی اس جن شنوائی کی مہم سے سسٹم کے بہرے کانوں پر کوئی اثر ہوگا؟ کیا سسٹم کے ستائے لوگوں کو انصاف ملے گا ؟ یہ کیسالوک تنترہے جہاں ْلوکٗ یعنی عوام انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہےاور ْتنتر’پوری طرح فیل […]