Justice Arun Mishra

ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس ارون مشرا۔ (تصویر بہ شکریہ: این ایچ آر سی)

جسٹس ارون مشرا نے انٹرنیٹ پر ’غیر قانونی‘ برتاؤ کے خلاف سخت قوانین کا مطالبہ کیا

احمد آباد میں25 ویں آل انڈیا فارنسک سائنس کانفرنس میں این ایچ آر سی کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس ارون مشرا نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور سائبر اسپیس میں اظہار رائے کی آزادی– آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت دی گئی آزادی سے ‘بڑی’ نہیں ہے۔

جسٹس ارون مشرا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن  کے اگلے چیئرمین ہوں گے سابق جج جسٹس ارون مشرا

اس عہدے کے لیے تین سابق چیف جسٹس کو بھی شارٹ لسٹ کیا گیا تھا، لیکن ان سب کو درکنار کرکےسلیکشن کمیٹی نے جسٹس ارون مشرا کو ترجیح دیا۔ پچھلے سال فروری میں سپریم کورٹ میں جج کےعہدے پررہتے ہوئےانہوں نےوزیر اعظم مودی کی تعریف کی تھی، جس کی وجہ سے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ وہ کس حد تک سرکار کے قریبی ہیں۔

صحافی  راجدیپ سردیسائی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی/ٹوئٹر)

راجدیپ سردیسائی کے خلاف از خود نوٹس  لے کر ہتک کامعاملہ درج نہیں کیا: سپریم کورٹ کی وضاحت

سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب جانکاری کی بنیاد پرصحافی راجدیپ سردیسائی کے خلاف عدالت کی جانب سے ازخود نوٹس لےکر ہتک کا معاملہ درج کرنے کےسلسلے میں میڈیا میں خبر آئی تھی۔ حالانکہ عدلیہ نےوضاحت دی ہے کہ ایسا غلطی سے ہو گیا تھا۔

جسٹس ارون مشرا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ اس سطح پر آگئی ہے کہ جج بار سے خوف زدہ ہو نے لگے ہیں: بار ایسوسی ایشن صدر

بدھ کو ریٹائر ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس ارون مشرا کو ان کے ساتھیوں کی جانب سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے الوداعیہ دیا گیا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر دشینت دوے نے اس تقریب میں انہیں بولنے کا موقع نہیں دیے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے ملک کے چیف جسٹس کوخط لکھا ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

توہین عدالت معاملے میں سپریم کورٹ نے وکیل پرشانت بھوشن پر ایک روپے کا جرمانہ لگایا

ٹوئٹر پر کیے گئے دو تبصروں کے لیے توہین عدالت کے مجرم ٹھہرائے گئے سینئر وکیل پرشانت بھوشن کو سزا سناتے ہوئے جسٹس ارون مشرا کی بنچ نے ہدایت دی کہ 15 ستمبر تک جرمانہ نہ دینے پر انہیں تین مہینے جیل ہوگی اور تین سال تک وکالت کرنے سے روک دیا جائےگا۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

توہین عدالت معاملہ: سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھا، پوچھا-معافی مانگنے میں غلط کیا ہے

دو ٹوئٹ کے لیےتوہین عدالت کےقصوروار ٹھہرائے گئے سینئر وکیل پرشانت بھوشن کی جانب سے معافی مانگنے سے انکار کے بعد ان کی سزا کو لےکر ہوئی شنوائی میں جسٹس ارون مشرا نے کہا کہ اگر آپ معافی مانگتے ہیں تو گاندھی جی کی صف میں آئیں گے۔ ایسا کرنے میں چھوٹا محسوس کرنے جیسا کچھ نہیں ہے۔

سابق مرکزی وزیر ارون شوری۔ (فوٹو: دی  وائر)

عدالت کی توقیر ٹوئٹ سے نہیں، ججوں کے کام اور ان کے فیصلوں سے کم ہوتی ہے:ارون شوری

سینئر وکیل پرشانت بھوشن کوتوہین عدالت کاقصوروار ٹھہرانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پرسابق مرکزی وزیر ارون شوری نے کہا کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت کا یہ ستون اتنا کھوکھلا ہو چکا ہے کہ محض دو ٹوئٹ سے اس کی بنیاد ہل سکتی ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

توہین عدالت معاملہ: پرشانت بھوشن نے کہا-معافی نہیں مانگوں گا، جو بھی سزا ملے قبول ہے

گزشتہ14اگست کو قصوروار ٹھہرائے گئے پرشانت بھوشن نے سپریم کورٹ میں اپنا بیان دائر کرتے ہوئے کہا کہ انہیں افسوس ہے کہ جس عدالت کی عظمت کو قائم رکھنے کے لیے وہ پچھلی تین دہائی سے کام کرتے آ رہے ہیں، اسی کورٹ کی ہتک کا مجرم ٹھہرایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ بھوشن اپنے بیان پر 2-3 دن نظرثانی کرکے جواب دیں۔

پرشانت بھوشن، فوٹو: پی ٹی آئی

توہین عدالت کے معاملے میں پرشانت بھوشن کا معافی سے انکار، کہا-افسوس ہے کہ بیان کو غلط سمجھا گیا

سینئر وکیل پرشانت بھوشن کی جانب سے2009 میں تہلکہ میگزین کو دیےانٹرویو میں سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف غلط تبصرہ کرنے کاالزام ہے، جس کے لیے سپریم کورٹ نے انہیں اور میگزین کے سابق مدیرترون تیج پال کو معافی نامہ جاری کرنے کو کہا تھا۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

توہین عدالت کے نوٹس پر پرشانت بھوشن نے کہا-چیف جسٹس کی تنقید سپریم کورٹ کی توہین نہیں ہے

سپریم کورٹ نےسینئر وکیل پرشانت بھوشن کےٹوئٹس کو لےکر انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔ بھوشن نے اس کے جواب میں دیے حلف نامے میں کہا کہ سی جےآئی کو سپریم کورٹ مان لینا اور کورٹ کو سی جی آئی مان لیناسپریم کورٹ کو کمزور کرنا ہے۔

پرشانت بھوشن۔ (فوٹو : رائٹرس)

سپریم کورٹ نے پرشانت بھوشن کے خلاف توہین عدالت کے 11 سال پرانے معاملے میں کارر وائی شروع کی

سال2009 میں پرشانت بھوشن نے تہلکہ میگزین کو دیے ایک انٹرویو میں مبینہ طور پر سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف غلط تبصرہ کیا تھا۔وہیں ایک مبینہ توہین آمیز ٹوئٹ کے الزام میں بھوشن کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی ایک اور کارروائی چل رہی ہے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

حصول اراضی قانون: سپریم کورٹ کا فیصلہ، اگر معاوضہ خزانے میں جمع ہے تو پھر سے کارروائی نہیں

بنچ کے سامنے یہ سوال تھا کہ حکومت کے ذریعے سرکاری خزانے میں جمع کرائے گئے معاوضے کو ’ معاوضہ ادا کیا گیا ‘مانا جائے‌گا یا نہیں۔ اس کو لےکر کورٹ کو حصول اراضی قانون، 2013 کی دفعہ 24 (2) کی وضاحت کرنی تھی۔

چیف جسٹس وجیہ کے تہل رمانی (فوٹو: پی ٹی آئی)

سی جے آئی رنجن گگوئی نے جسٹس تہل رمانی کے خلاف کارروائی کے لئے سی بی آئی کو اجازت دی

سپریم کورٹ کےکالیجئم نے جسٹس وجیہ کے تہل رمانی کا تبادلہ میگھالیہ ہائی کورٹ میں ہونے پر از سر نوغور کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد 6 ستمبر کوانہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔

جنگل سے آدیواسیوں کو بے دخل کرنے کے مدعے پر نئی دہلی میں مختلف آدیواسی تنظیموں کا مظاہرہ (فوٹو : سنتوشی مرکام / دی وائر)

آدیواسی اور جنگل میں رہنے والوں کو  جنگل سے بے دخل کرنا ان کو قتل کرنے جیسا ہے

جنگل کے حقوق سے متلق قانون – Forest Rights Act 2006کے تحت خارج دعوے کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے آدیواسیوں کو جنگل سے بے دخل کرنے کا حکم دیا تھا، جس پر بعد میں روک لگا دی گئی۔لیکن دعویٰ خارج کیوں ہوا؟ مرکزی حکومت نے عدالت سے کہا کہ دعوے سے متعلق فارم صحیح سے پرنہیں کیےگئے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومتوں کی ملی بھگت سے ان کو خارج کیا گیا ہے تاکہ جنگلات میں معدنیاتی جائیداد کے استحصال کے لئے لیز پردینے میں کسی طرح کی پریشانی نہ ہو۔

جنگل سے آدیواسیوں کو بے دخل کرنے کے مدعے پر نئی دہلی میں مختلف آدیواسی تنظیموں کا مظاہرہ (فوٹو : سنتوشی مرکام / دی وائر)

کیا ملک کے ڈسکورس  سے آدیواسیوں کو سرکاری طور پر باہر کر دیا گیا ہے؟

آدیواسیوں کی جنگل سے بے دخلی کا جو سلسلہ آزادی کے بعد سے کبھی وکاس تو کبھی ماحولیات کے نام پر چلا آ رہا ہے، کیا وہ کسی منطقی نتیجے کی طرف بڑھ رہا ہے؟ حالانکہ جیسےجیسےآدیواسی تباہ ہو رہے ہیں،پریڈوں،عجائب گھر،آرٹ میلہ اور شہری تہواروں میں ان کی نمائش میں اضافہ ہو رہا ہے۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

آدیواسیوں کو زمین سے بےدخل کرنے کے اپنے حکم پر سپریم کورٹ نے لگائی روک

سپریم کورٹ میں داخل اپنے حلف نامہ میں مرکزی حکومت نے کہا کہ قانون کے تحت اصل میں دعووں کا خارج ہونا آدیواسیوں کو بےدخل کرنے کی بنیاد نہیں ہے۔ قانون میں ایسا کوئی اہتمام نہیں ہے جس کی بنیاد پر دعویٰ کے خارج ہونے کے بعد کسی کو بےدخل کیا جائے۔

ہندوستان میں چھتیس گڑھ کے دھارباگڑا میں ایک کیمپ میں بیٹھے آدیواسی۔ (فائل فوٹو : رائٹرس)

سپریم کورٹ کے حکم سے 10 نہیں، تقریباً20 لاکھ آدیواسی ہو سکتے ہیں زمین سے بےدخل

قبائلی معاملات کی وزارت کے ذریعے جمع اعداد و شمار کے مطابق 30 نومبر، 2018 تک ملک بھر میں 19.39 لاکھ دعووں کو خارج کر دیا گیا تھا۔ اس طرح سپریم کورٹ کے حکم کے بعد تقریباً20 لاکھ آدیواسی اور جنگل واسیوں کو جنگل کی زمین سے بےدخل کیا جا سکتا ہے۔

)علامتی تصویر : رائٹرس(

کیا سپریم کورٹ کے حالیہ حکم کی وجہ سے 10 لاکھ سے زیادہ آدیواسی اپنی زمین سے بےدخل ہو جائیں گے؟

سپریم کورٹ کے اس حکم سے 16 ریاستوں کے آدیواسی متاثر ہوں‌گے۔عدالت نے کہا، ریاستی حکومتیں یہ یقینی بنائیں ‌گی کہ جہاں دعوے خارج کرنے کے حکم پاس کر دئے گئے ہیں، وہاں سماعت کی اگلی تاریخ کو یا اس سے پہلے نکالا جانا شروع کر دیا جائے‌گا۔