کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارمیا نے ریاست میں 23 دسمبر سے حجاب پر پابندی کے فیصلے کو واپس لینے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی لباس اور ذات پات کی بنیاد پر لوگوں اور سماج کو تقسیم کرنے کا کام کر رہی ہے۔ حجاب پر پابندی بسواراج بومئی کی قیادت والی پچھلی بی جے پی حکومت نے عائد کی تھی۔
ویڈیو: گزشتہ دنوں نیوز چینل آج تک کے نیوز اینکر سدھیر چودھری کے خلاف کرناٹک حکومت نے بدنیتی کے ساتھ غلط جانکاری دینے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی ہے۔ سدھیر چودھری نے چینل کے اپنے شو ‘بلیک اینڈ وہائٹ’ میں دعویٰ کیا تھا کہ کرناٹک حکومت کی سواولمبی سارتھی اسکیم کا فائدہ صرف مسلمانوں کو ملے گا۔ اس بارے میں مزیدجانکاری دے رہی ہیں دی ساؤتھ فرسٹ کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انوشا روی سود۔
کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سپریم کورٹ کے اختلاف رائے کے بعد ریاست کے پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے وزیر بی سی ناگیش نے کہا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا۔ ایسے میں ریاست کے تمام اسکولوں اور کالجوں میں کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ اور ضابطے میں کسی بھی مذہبی علامت کی گنجائش نہیں ہوگی۔
سپریم کورٹ کی بنچ میں شامل جسٹس ہیمنت گپتا نے حجاب پر پابندی کے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر عرضیوں کو خارج کر دیا، جبکہ جسٹس سدھانشو دھولیا نے کہا کہ ہائی کورٹ نے غلط راستہ اختیار کیا اور حجاب پہننا بالآخر اپنی پسند کا معاملہ ہے، اس سےکم یا زیادہ کچھ اور نہیں۔
پیپلز یونین فار سول لبرٹیز نے کرناٹک میں مسلم طالبات کے درمیان حجاب بین کے فیصلے کے اثرات پر ایک اسٹڈی کی ہے ، جس میں متعدد طالبات نے بتایاکہ انہیں کالج بدل کر مسلم اداروں میں داخلہ لیناپڑا، دوسری کمیونٹی کی طالبات کے ساتھ گفت وشنید محدود ہوگئی ، اور انہیں علیحدگی اور افسردگی کے احساس سے گزرنا پڑا۔
سپریم کورٹ کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی ہٹانے سے انکار کرنے کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ ہر کسی کو مذہب پر عمل کرنے کا حق ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ حق طے شدہ یونیفارم والے اسکول میں بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔
کرناٹک کے منگلورو واقع کالج میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کرنے والی دو مسلم طالبات کو دوسرے کالج میں داخلہ لینے کے لیے این او سی دیا گیا ہے، جبکہ ایک کو ٹرانسفر سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا ہے۔ تین میں سے دو طالبات نے پریس کانفرنس کی تھی اور یونیورسٹی کیمپس میں یکساں اصول کو سختی سے لاگو کرنے کے فیصلے پر سوال اٹھایا تھا۔
کرناٹک کے باگل کوٹ ضلع کے ٹیراڈل واقع گورنمنٹ ڈگری کالج کا معاملہ۔ یہ واقعہ اسی سال 18 فروری کو پیش آیا تھا۔ 19 سالہ طالبعلم نوید حسن صاب تھرتھاری نے الزام عائد کیا ہے کہ وہ ٹوپی پہن کر کالج گئے تھے، لیکن پرنسپل نے انہیں کالج میں داخل ہونے سے روک دیا۔ پولیس اہلکاروں نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی اور ان کے عقیدے کی توہین کی۔ مقامی عدالت کی ہدایت پر اس معاملے میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
دونوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انہیں حجاب پہن کر امتحان دینے کی اجازت دی جانی چاہیے، لیکن کالج انتظامیہ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں امتحان ہال میں داخل ہونے سے منع کردیا۔ اس کے بعد دونوں لڑکیاں گھر واپس آگئیں۔
ریاستی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات پر خصوصی بحث کے دوران سابق دیہی ترقیات کے وزیر اور کانگریس کے سینئر ایم ایل اے ایچ کے پاٹل نے اس معاملے پر الیکشن کمیشن سے وضاحت طلبی کے لیے اسپیکر پر دباؤ ڈالنے کی غرض سےآر ٹی آئی کے جوابات کا حوالہ دیا ہے۔
گزشتہ 15 مارچ کو کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب تنازعہ سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری مذہبی روایت کا حصہ نہیں ہے اور ریاست میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا تھا۔ اس کے بعد کرناٹک حکومت نے واضح کیا تھا کہ سب کو ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنا ہو گا، ورنہ امتحان دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ملک کے 28 سینئر صحافیوں اور میڈیا پرسن نے صدر جمہوریہ، سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹس کے ججوں، الیکشن کمیشن آف انڈیا اور دیگر قانونی اداروں سے ملک کی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ہورہےحملوں کو روکنے کی اپیل کی ہے۔
اس معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ کےحتمی فیصلے کے انتظار میں متعدد طالبات نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ نہ تو کلاس جائیں گی اور نہ ہی پریکٹیکل امتحانات دیں گی۔ اب اس معاملے پر وزیر تعلیم بی سی ناگیش کا کہنا ہے کہ وہ غیر حاضر طالبات کے لیے دوبارہ امتحان نہیں لیں گے، طالبات اگر چاہیں تو سپلیمنٹری امتحانات میں شامل ہو سکتی ہیں۔
بی جے پی او بی سی مورچہ کے قومی جنرل سکریٹری اور اُڈپی گورنمنٹ پی یو کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کے نائب صدر یشپال سورنا نے کہا کہ لڑکیوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ طالبعلم نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیم کی ممبر ہیں۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف بیان دے کر وہ ججوں کی توہین کر رہی ہیں۔
کرناٹک ہائی کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے اُڈپی کے ‘گورنمنٹ پری یونیورسٹی گرلز کالج’ کی مسلم طالبات کی ان عرضیوں کو خارج کر دیا ہے جن میں حجاب پہننے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔عدالت نے کہا کہ یونیفارم کا اصول ایک معقول پابندی ہے اور آئینی طور پر قابل قبول ہے۔ جس پر لڑکیاں اعتراض نہیں کر سکتیں۔
معاملہ اُڈپی کےگورنمنٹ ویمنس پی یو کالج کا ہے۔ چھ مسلم طالبات نے الزام لگایا ہےکہ پرنسپل انہیں کلاس میں حجاب پہننے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں اُردو، عربی اور بیری زبان میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ پرنسپل کا کہنا ہے کہ طالبات کیمپس میں حجاب پہن سکتی ہیں،لیکن کلاس روم میں اس کی اجازت نہیں ہے۔
ریاستی حکومت نے کووڈ 19 کا حوالہ دیتے ہوئے پہلی سے 10ویں جماعت کےنصاب کو محدود کرنے کے لیے اسلام، عیسائی مذہب اورٹیپو سلطان سے متعلق ابواب ہٹانےکی تجویز رکھی تھی۔ اس پر اپوزیشن پارٹیوں کا کہنا تھا کہ سرکار اپنے رائٹ ونگ ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کے لیے ایسا کر رہی ہے۔
بی جے پی کرناٹک نے کہا ہے کہ ، ‘ٹیپو جینتی’ کی عوامی تقریبات کا خاتمہ کرکے ، ہمارے وزیر اعلی نے ریاست کی عزت بحال کی ہے۔اب اگلے قدم کے طو رپرہمارے بچوں کے سامنے اصلی ٹیپو سلطان کو سامنے لانے کے لیے درسی کتاب کوپھر سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ان کو آگاہ کرنا ضروری ہے کہ ٹیپو نے ہندوؤں کے خلاف ظلم کیا اور وہ کنڑ مخالف تھا۔
وزیر تعلیم نے افسروں سے کہا ہے کہ وہ متنازعہ حکمراں ٹیپو سلطان پر مشتمل باب کو تاریخ کی نصابی کتابوں سے ہٹانے کے بی جے پی ایم ایل کے مطالبے پر غور کریں اور تین دن میں رپورٹ دیں ۔
ایم ایم کلبرگی کے قتل کی جانچکر رہی ایس آئی ٹی نے کرناٹک کی مقامی عدالت میں داخل چارج شیٹ میں کہا ہے کہ کلبرگی کا قتل کرنے والے مبینہ طور پر ہندو انتہا پسند تنظیم سناتن سنستھا کی کتاب سے متاثر تھے۔
اگست 2015 میں کرناٹک کے دھارواڑ میں ایم ایم کلبرگی کو ان کے گھر کے دروازے پر گولی مارکر قتل کر دیا گیا تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ پولیس کی شناخت پریڈ میں ان کی بیوی نے سناتن سنستھا سے جڑے ایک ملزم کو پہچان لیا ہے۔
سپریم کورٹ نے کرناٹک حکومت کو اسٹیسس رپورٹ داخل کر کے یہ بتانے کو کہا ہے کہ جانچ کب تک پوری ہوگی؟ کورٹ نے کہا کہ اب تک جانچ میں کچھ نہیں ہوا ہے۔
مرکزی حکومت کی طرف سے دلیل دی گئی ہے کہ این آئی اے اس لئے تفتیش نہیں کر سکتی کیونکہ یہ نیشنل اور انٹر اسٹیٹ دہشت گردی کے معاملوں کی تفتیش کرنے والی خاص ایجنسی ہے۔
وزیر داخلہ راما لنگا ریڈّی نے حزب مخالف کے ذریعے خوشامدانہ الزامات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سرکلر سچر کمیٹی کی سفارشوں پر مبنی تھا۔ نئی دہلی:بےقصور اقلیتوں کے خلاف تشدد کے معاملوں کو واپس لینے کے متعلق ایک سرکلر جاری کرنے کے کچھ دنوں بعد کرناٹک […]
چونکہ ٹیپو مذہب سے ایک مسلم حکمراں تھا، سامراجی مؤرخ کی یہ وضاحت فرقہ وارانہ تاریخی تحریر کی روایت میں زندہ رہی کیونکہ آر ایس ایس جیسی تنظیم نے اس کو آگے بڑھایا۔ انگریزی حکومتکے شروعاتی دنوں سے ہی ٹیپو سلطان کو لےکر ایک فرضی کہانی کی تشکیل […]
جس ٹیپو سلطان کی پہچان بہادر حکمراں کے طور پر ہوتی رہی ہے اس کو اب ایک گروپ کے ذریعے ظالم، فرقہ پرست اور ہندو مخالف بتایا جا رہا ہے۔