ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نے حال ہی میں ہوئے لوک سبھا انتخابات کے تناظر میں ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ 538 انتخابی حلقوں میں کل 589691 ووٹوں میں فرق پایا گیا۔ 362 سیٹوں پر ڈالے گئے ووٹوں کے مقابلے میں گنے گئے ووٹوں کی تعداد کم تھی، جبکہ 176 سیٹوں پر یہ تعداد زیادہ تھی۔
مہاراشٹر واقع تنظیم ووٹ فار ڈیموکریسی نے انتخابی عمل میں کچھ واضح خامیوں کی نشاندہی کرنے کے علاوہ تین اہم دعوے کیے ہیں، جو الیکشن کمیشن کے طریقہ کارپر سوال قائم کرتے ہیں۔
اترپردیش میں سماج وادی پارٹی سے لے کر گجرات میں کانگریس تک نے بھارتیہ جنتا پارٹی پر ووٹنگ کو متاثر کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ایس پی کا کہنا ہے کہ یوپی کے سنبھل سمیت کئی علاقوں میں مسلم ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا یا ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔
موجودہ لوک سبھا انتخابات کے دوران مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں اور رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے درمیان تین سابق چیف الیکشن کمشنروں نے کہا ہے کہ اس طرح کے اقدامات آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں مداخلت ہیں۔ الیکشن کمیشن کو ایجنسیوں سے بات کرنی چاہیے کہ وہ الیکشن ختم ہونے تک انتظار کیوں نہیں کر سکتے۔
بی جے پی کی اینٹی کرپشن والی امیج دھیرے دھیرے ٹوٹ رہی ہے اور 2024 تک حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ دوسر لفظوں میں کہیں تو، اگر کانگریس کرناٹک میں اچھی جیت درج کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو 2024 کے انتخابی موسم کی شروعات سے پہلےکرناٹک قومی اپوزیشن کے لیےامکانات کی راہیں کھول سکتا ہے۔
بی جے پی ایم ایل اے نے اپنے بیان پر وضاحت دی ہے کہ ، میری مسلم کمیونٹی کو گائے کہنے کی کوئی منشا نہیں تھی ۔ میں نے کہا تھا کہ ان سے ووٹ مانگنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔