کانگریس کے کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ 9 بار ممبر آف پارلیامنٹ رہ چکے نئے وزیر اعلیٰ کمل ناتھ صوبے کی سیاست میں بھی نئے ہیں۔انہیں کئی معاملوں میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
اپنے والد اور دادی کے برخلاف بطور کانگریس صدر راہل گاندھی نے تمام مدعیان کی باتیں سنیں، جس کی امید قدیم اورتاریخی پارٹی کے ہائی کمانڈ جیسے عہدےدار سے کم ہی رہتی ہے۔
ریاستی حکومت کے اس منصوبے کا فائدہ تقریباً 10 لاکھ کسانوں کو ملے گا۔ وہیں اس منصوبے میں 1200 کروڑ روپے کا سالانہ خرچ آئے گا۔
تیرہ سال تک حکومت کرنے کے بعد شیوراج کو ایسے سلوک کی امید نہیں رہی ہوگی۔ان کو جب بالکل سامنے کی نشست دی گئی جہاں ملک کے کونے کونے سے آئے بڑے یو پی اے لیڈر تھے،تو شروعات میں کچھ پریشان نظر آئے۔
اس قرض معافی کی وجہ سے مدھیہ پردیش حکومت پر56 ہزار کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔
گزشتہ 25 سالوں میں پہلی بار ہوگا کہ راجستھان اسمبلی میں بی جے پی کا کوئی مسلم ایم ایل اے نہیں ہے۔ وسندھرا راجے حکومت میں وزیر یونس خان جن کو ٹونک سے ٹکٹ دیا گیا وہ بھی کانگریس کے سچن پائلٹ سے ہار گئے ہیں۔
گزشتہ 5 سالوں میں راجستھان کے ایم ایل اے کے تنخواہ – الاؤنس پر 90.79 کروڑ روپے خرچ کیا گیا۔وہیں سابق ایم ایل اے کو ملنے والی پینشن تقریباً تین گنا بڑھ گئی ہے۔
اگریکلچر منسٹری نے 20نومبر کو پارلیامانی کمیٹی کو دی گئی وہ رپورٹ واپس لے لی ، جس میں کہا گیا تھا کہ نوٹ بندی کی وجہ سے کسان کھاد اور بیج نہیں خرید سکے تھے ۔ کمیٹی کو دی گئی نئی رپورٹ میں وزارت نے کہا کہ نوٹ بندی کا زراعتی شعبے میں اچھا اثر پڑا۔
وزارت زراعت نے قبول کیا ہے کہ نوٹ بندی کی وجہ سے کسانوں کو کھاد اور بیج خریدنے میں سخت مسائل کا سا منا کر نا پڑا تھا۔
وزیر اعظم نے کہا ؛آج مودی کی طاقت دیکھیے کہ پائی پائی بینک میں جمع کرنے کو مجبور کردیا ۔ کانگریس کے راج سے اس طرح بدعنوانی پھیلی کہ مجھے نوٹ بندی جیسی کڑوی دوا کا استعمال کرنا پڑا، تاکہ غریبوں کو لوٹ کر لے جایا گیا پیسہ ملک کے خزانے میں واپس آئے ۔
صوبائی صدر کو ان کارکنان سے ہمدردی ہے، لیکن پارٹی باہر سے آنے والے بہت سارے لوگوں کی امیدوں کو پورا نہیں کر سکتی۔وہیں ناراض لوگوں سے اب یہ وعدہ کیا جا رہا ہے کہ صوبے میں کانگریس کی سرکار بننے پر انہیں مختلف بورڈس اور کارپوریشن میں موقعہ دیا جائے گا۔
آر ٹی آئی سے ملی جانکاری کے مطابق ریاست میں ہرایک ایم ایل اے کی کمائی صوبے کا تخمینہ فی شخص آمدنی کے مقابلے تقریباً 18گنا زیادہ تھی۔
ماضی میں مدھیہ پردیش کے مختلف حلقوں سے مسلم امیدوار جیتا کرتے تھے، ان علاقوں سے بھی جہاں مسلم آبادی پانچ یا دو فیصد سے کم ہے ۔ مگر 1992 کے بعد حالات بالکل بدل گئے۔
بی جے پی اور کانگریس دونوں نے ہی مدھیہ پردیش کوہندوتوا کے لیب میں تبدیل کر دیا ہے۔ نقل مکانی، آدیواسی حقوق، غذائی قلت، بھوک مری،کھیتی کسانی جیسے مدعوں پر کوئی بھی بات نہیں کر رہا ہے۔
بی جے پی کی مدھیہ پردیش اکائی نے انتخابی ماحول میں’سمردھ مدھیہ پردیش’مہم کی شروعات کی ہے جس کے تحت ریاست کی عوام سے حکومت بننے پر حکومت کیسے چلایا جائے، اس کو لے کر مشورہ مانگے جا رہے ہیں۔
وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ عوام میں بےچینی ہے کیوں کہ چوہان نے وعدے تو خوب کیے لیکن پورے بہت کم کیےویاپم کی وجہ سے نوجوان خاص طور پرمایوس ہیں اور کسانوں میں حکومت کے خلاف بہت غم اور غصّہ ہے۔
گراؤنڈ رپورٹ : سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2016 سے جنوری2018 کے درمیان ریاست میں 57،000 بچوں نے غذائی قلت کی وجہ سے دم توڑ دیا تھا۔ غذائی قلت کی وجہ سے ہی شیوپور ضلع کو ہندوستان کا ایتھوپیا کہا جاتا ہے۔
مدھیہ پردیش کی آدیواسی اکثریت والےجھابوا ضلع میں انتظامیہ نے بٹوائے تھے اسٹیکر۔اسٹیکر پرآدیواسی زبان میں لکھا تھا ہنگلا ووٹ ضروری سے، بٹن دباوا نوں،ووٹ ناکھوا نوں،یعنی سب کا ووٹ ضروری ہے ،بٹن دبانا ہے ،ووٹ ڈالنا ہے۔
مدھیہ پردیش میں شیوراج کو اکثر ‘گھوشنا ویر’ کہا جاتا ہے یعنی ایک ایسا شخص جو اعلانات تو خوب کرتا ہے مگر اس پر عمل نہیں ہوتے۔وعدے کس حد تک پورے ہوتے ہیں یہ الگ بات ہے مگر ظاہر ہے شیوراج کو اندازہ ہے کہ ایسے اعلانات کا فائدہ تو ہوتا ہے۔
مدھیہ پردیش میں سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہیں اور ریاست کے مکھیا شیوراج سنگھ چوہان دھارمک یاتراؤں کے سہارے انتخابی کشتی پار لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔