ان دنوں غیر اعلانیہ ایمر جنسی نے ہمارے معاشرے میں فرقہ واریت، منافرت اور عدم رواداری کا زہر اس طرح گھول دیا ہے کہ ملک کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب اور قدریں پامال ہو رہی ہیں۔ ملک کے ادیب و شاعر اور دانشوران بھی سراسیمگی کے عالم میں جی رہے ہیں۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیے معروف فکشن نویس اور ممتاز صحافی سید احمد قادری کو۔
چند بڑی طاقتیں احساس دلانا چاہتی ہیں کہ عام انسانوں کی محنت اور کوشش انہی کی طرح حقیر ہیں۔ انہیں اندیشہ لگا رہتا ہے کہ اگر پیاسے انسان کو آبیاژوں سے بہلایا نہ گیا تو پیاس کی شدت صبرو تحمل کا بند توڑ سکتی ہے اور اگر بند ٹوٹا تو ان کے پاؤں کے نیچے سے پانی کھسک سکتا ہے۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیے شاعر،ناقد اورمعروف فکشن نویس غضنفر کو۔
مذہب، رنگ ونسل اور خون کے سوداگر زندگی کو کس سمت لے جا رہے ہیں؟ اس نئے نظام میں اُن تہذیبی قدروں کے لیے جگہ نہیں ہے، جن کے سائے میں امن وعافیت کے خواب پلتے تھے، جن کی روشنی میں آرزو اور جستجو کے معرکے سَر ہوتے تھے۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیے ممتاز شاعرہ ملکہ نسیم کو۔
سیاست کی پیدا کی گئی خلیج ایک بھیانک مستقبل کا اشارہ ہے۔ اس صورتحال کا سبب ہندوتوا کی سیاست ہے۔ افسوس ہے کہ مجھے آج کے ہندوستان میں جرمنی کا ماضی نظر آتا ہے۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیےمعروف فکشن نویس رحمٰن عباس کو۔
میں اپنے عہد کے مسائل سے آنکھیں ملاکر بات کرتا ہوں۔ ان مسائل میں محبت بھی ہے اور نفرت بھی۔ مجھے یقین ہے کہ نفرت کا انجام محبت ہوگا۔ ہاں، موجودہ سیاست میں سچ بولنے والوں کے لیے جگہ نہیں ہے۔ مذہب کے نام پر مثبت سروکاروں کو رسوا کیا جارہا ہے۔ بھیڑ کسی کو بھی اپنا نوالہ بنالیتی ہے۔ اقلیت ہونا جیسے گالی ہو۔ میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی اس قسط میں پڑھیے نئی نسل کے شاعر اور تخلیق کار معید رشیدی کو۔
ادب میرے لیے محض لفظوں کا ہنر نہیں، ایک اخلاقی ذمہ داری ہے — وقت سے آنکھیں ملانے اور خاموشی کو آواز دینے کی۔ ایسے قلم کا کیا کرنا جو دیکھے سب کچھ ، مگر لکھے کچھ نہیں۔ میرے نزدیک، ایسا قلم مردہ ہے — اور میں اسے اٹھانے کا روادار نہیں۔میں اور میرے عہد کی تخلیقی سرگزشت کی پہلی قسط میں پڑھیے معروف فکشن نویس شبیر احمد کو۔