بجنور کے ایس پی سنجیو تیاگی کا کہنا ہے کہ سلیمان کے بدن سے ایک کارتوس ملا ہے۔ بیلسٹک رپورٹ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ گولی کانسٹبل موہت کمار کی پستول سے چلائی گئی تھی۔
ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا کا یہ بیان اترپردیش اور کرناٹک میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہروں کی رپورٹنگ کر رہے کئی صحافیوں کو حراست میں لینے کے بعد آیا ہے۔
متنازعہ شہریت قانون کے خلاف چل رہے مظاہرے میں اب تک ملک بھر میں 25 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ 18 لوگوں کی موت اکیلے اتر پردیش میں ہوئی ہے، جس میں ایک آٹھ سال کا بچہ بھی شامل ہے۔ وہیں،آسام میں پانچ لوگوں کی موت ہوئی ہے جبکہ منگلور میں دو لوگوں کی موت ہوئی ہے۔
تمل ناڈو کی راجدھانی چنئی میں شہریت قانون کی مخالفت میں سخت سکیورٹی کے درمیان ڈی ایم کے نے ریلی کا انعقاد کیا۔ پارٹی چیف نے سوال اٹھایا کہ شہریت ترمیم قانون کے تحت مسلمانوں کو پناہ گزین اور سری لنکا کو پڑوسی ملک کا درجہ کیوں نہیں دیا گیا ہے۔
اتر پردیش میں گزشتہ چار دنوں میں شہریت قانون کی مخالفت میں ہوئے مظاہرہ میں اب تک کل 16 لوگوں کی موت ہوئی ہیں۔ آٹھ ضلعوں کےسینئر پولیس افسروں نے اس کی تصدیق کی ہے۔
شہریت ترمیم قانون کےخلاف تمل ناڈو کی اہم حزب مخالف پارٹی اور اس کے اتحاد میں شامل پارٹیوں کی آج چنئی میں ہو رہی مہاریلی پر روک لگانے کے لئے مدراس ہائی کورٹ میں پی آئی ایل داخل کی گئی تھی۔ حالانکہ، ہائی کورٹ نے ریلی پر روک لگانے سے انکار کر دیا۔ ہائی کورٹ نے پولیس کو ریلی کا ویڈیو بنانے کا حکم دیا ہے۔
شہریت قانون کو لےکر ملک بھر میں ہو رہے احتجاج اور مظاہروں کے بیچ وزیر اعظم نریندر مودی نے اتوار کو دہلی کے رام لیلا میدان میں کہا کہ میرے مخالف اگر مجھ سے نفرت کرتے ہیں تو مجھےنشانہ بنا لیں لیکن پبلک پراپرٹی کو آگ نہ لگائیں۔
شہریت ترمیم قانون کی مخالفت میں گزشتہ جمعہ کو اترپردیش کے گورکھپور، بہرائچ، فیروز آباد، کانپور، بھدوہی، بلند شہر، میرٹھ، فرخ آباد، سنبھل وغیرہ شہروں میں بڑے پیمانے پر تشدد ہوا تھا۔
جمعہ کوشہریت ترمیم قانون کے خلاف میں ہوئے مظاہروں میں اتر پردیش کے مختلف شہروں میں کم سے کم 15 لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ میرٹھ میں پانچ لوگوں کی موت ہوئی، کانپور، بجنور اور فیروزآباد میں دودو لوگوں کی موت اورمظفرنگر، سنبھل اور وارانسی میں ایک ایک شخص کی موت ہوئی تھی۔
‘دی ہندو’کے صحافی عمر راشد کو لکھنؤ میں گزشتہ جمعہ کو پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ صحافی کے مطابق، پولیس نے ان پر شہریت قانون کے خلاف لکھنؤ میں ہوئے تشدد کی سازش کرنے کا الزام لگایا اور ان پر فرقہ وارانہ تبصرے بھی کیے۔
عدالت کے حکم کے بعد حراست میں لئے گئے 8 نابالغوں کو سنیچر کی صبح کو رہا کیا گیا۔ دریاگنج میں جمعہ کو شہریت ترمیم قانون کے خلاف ہوئے پرتشدد مظاہرہ کے تعلق سے بھیم فوج چیف چندرشیکھر سمیت اب تک 16 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر ہوا مظاہرہ۔
ہر بار یہ کہنا کہ باہری لوگوں نے تشدد کیا پولیس کے جواب پر شک پیدا کرتا ہے۔ کیا پولیس کے اس تشدد کو نہیں دکھایا جانا چاہیے؟ ایسے کئی ویڈیو وائرل ہو رہے ہیں ۔ ہر جگہ سے پولیس کے تشدد سے جڑے سوالوں اور ویڈیو کوصاف کر دیا گیا ہے۔ چینلوں پر صرف لوگوں کے تشدد کے ویڈیو ہیں یا خبروں کی پٹی میں لکھا ہے کہ بھیڑ نے تشدد کیا۔
شہریت ترمیم قانون کی مخالفت میں جمعہ کو دہلی کے دریا گنج میں ہوئے تشدد سے متعلق معاملے میں پولیس نے 15 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔
کورٹ نے کہا، کیا کوئی قلمکار یاآرٹسٹ پرامن مظاہرہ نہیں کر سکتا، اگر وہ سرکار کے کسی فیصلے سے متفق نہیں ہے۔
کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بی ایس یدورپا نے کہا ہے کہ ریاست میں شہریت ترمیم قانون نافذ کیا جائے گا۔وہیں اترپردیش کے ڈی جی پی کا کہنا ہے کہ لکھنؤ میں ہوئی اس موت کا مظاہرہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
چنئی پولیس کا کہنا ہے کہ ولور کوٹم میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہرہ کی اجازت نہیں دی گئی تھی،اس کےباوجود مظاہرہ اور احتجاج ہوا۔