سپریم کورٹ کےکالیجئم نے جسٹس وجیہ کے تہل رمانی کا تبادلہ میگھالیہ ہائی کورٹ میں ہونے پر از سر نوغور کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد 6 ستمبر کوانہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
10 دسمبر، 2018 کو دئے ایک فیصلے میں میگھالیہ ہائی کورٹ کے جسٹس سدیپ رنجن سین نے وزیر اعظم سے گزارش کی تھی کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، جین، بودھ، پارسی، عیسائی، کھاسی، جینتیا اور گارو لوگوں کو بنا کسی سوال یا دستاویزوں کے شہریت دی جائے۔
گزشتہ 8 مارچ کو میگھالیہ ہائی کورٹ نے دی شیلانگ ٹائمس کے مدیر پیٹریشیا موکھیم اور ناشر شوبھا چودھری کو ہتک عزت کا مجرم مانتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر دو لاکھ روپے جرمانہ جمع کرنے کو کہا تھا۔ ایسا نہ کرنے پر 6 مہینے کی قید اور اخبار پر پابندی لگانے کی بات کہی گئی تھی۔
دی شیلانگ ٹائمس کے مدیر پیٹرسیا موکھم اور ناشر شوبھا چودھری پر دو-دو لاکھ روپے کا جرمانہ لگایا گیا ہے۔ ایک ہفتے کے اندر جرمانے کی رقم ادا نہیں کرنے پر چھے مہینے کی جیل کا اہتمام ہے۔
میگھالیہ ہائی کورٹ کے جسٹس ایس آر سین نے دسمبر 2018 کے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ بٹوارے کے بعد ہندوستان کو ہندوراشٹر بنایا جانا چاہیے تھا۔ اس تبصرے کو ہٹانے کو عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے سی جے آئی رنجن گگوئی کی بنچ نے ہائی کورٹ سے جواب مانگا ہے۔
میگھالیہ ہائی کورٹ نے وزیر اعظم سے گزارش کی ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، جین، بدھ ، پارسی، عیسائی، کھاسی، جینتیا اور گارو لوگوں کو بنا کسی سوال یا دستاویز کےشہریت دی جائے۔