نیشنل فاؤنڈیشن فار انڈیا کی ایک تحقیق میں کوئلے کی کان کنی کے شعبے میں کام کرنے والے لوگوں میں صحت سے متعلق خدشات، اقتصادی اور ذات پات کی بنیاد پر عدم مساوات جیسے سنگین پہلوؤں کا انکشاف ہوا ہے۔
کورونا نے بچوں کا تعلیمی حق پوری طرح سے چھین لیا۔حالاں کہ کورونا کے دوران آن لائن کلاسز کا اہتمام کیا گیاتھا، لیکن بدقسمتی سےعلاقے میں موبائل ٹاور نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے بچوں کو آن لائن کلاسز لگانے کا موقع میسر نہیں آیا۔
گراؤنڈ رپورٹ : آرٹیکل 370 کے ہٹائے جانے کے بعد مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر میں ایک نئی صبح کے آغاز کا دعویٰ کیا تھا اور یہاں کی عوام پر امید تھی کہ اب ترقی کا نیا سورج طلوع ہوگا، مگر تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہےاور لوگ آج بھی بنیادی طبی سہولیات سے محروم ہیں۔سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتال پہنچنے کی کوشش میں ہی متعدد لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
اعظم گڑھ گرچہ اپنی علمی اور ادبی حیثیت کے لیے ملک اوربیرون ملک مشہور ہے، پھر بھی نئی نسل کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے یہاں بہت سارے مسائل برسوں سے حل طلب ہیں۔ابتدائی تعلیم توکسی طرح ہوجاتی ہے، لیکن اس کے بعد سیکنڈری، سینئرسیکنڈری اور اس سے آگے معیار ی تعلیم کا حصول آسان نہیں ہے۔
لوگوں کے مطابق، حیدرآباد میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت اتنی بہتر نہیں ہے ۔ حکومت اپنی اسکیموں کے ذریعے عوام کو سہولت فراہم کراتی ہے، لیکن ان اسکیموں تک عوام کی خاطر خواہ رسائی نہیں ہو پاتی۔ایسے میں غیر سرکاری تنظیمیں بلا تفریق مذہب و ملت عوام کو طبی امداد فراہم کرا رہی ہیں۔
خصوصی رپورٹ: ملک اور بیرونِ ملک بہار کو مزدوروں کی ریاست کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔بہار کی اسی شناخت کو بدلنے کے لیے ریاستی حکومت نے کئی اسکیموں کا اعلان کیا ہے، اور بہار میں ادیوگ – دھندے لگانے کے لیے کئی خوش آئند اقدام کیے ہیں، لیکن ان کے نفاذ کے لیے جن ایجنسیوں کو ذمہ داری دی گئی ہے، وہ اپنے لال فیتہ شاہی والے رویے کو بدلنے میں ناکام ہیں۔
لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ،انتخاب آتے ہیں اور ہمیں وعدوں کی پوٹلی تھمادی جاتی ہے۔ مسلم اکثریتی علاقوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ کم وبیش تمام جگہوں پر آبی جماؤ کامسئلہ ہے۔
خصوصی رپورٹ: ایک دعوے کے مطابق، حکومت نے ان بچوں کی تعلیم کو یقینی بنانے میں آج تک کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور نہ ہی کسی غیر سرکاری تنظیم نے ان بچوں کی تعلیم کے لیے کوئی کوشش کی۔