Partition of India

وزیر دفاع راجناتھ سنگھ (فوٹو : پی ٹی آئی)

مذہبی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم ایک تاریخی غلطی تھی: راجناتھ سنگھ

وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 1971 کی جنگ میں پاکستان پر ہندوستان کی فتح اور بنگلہ دیش کی آزادی کے 50سال مکمل ہونے پر ایک پروگرام میں کہا کہ تاریخ میں ایسامشکل سے ہی دیکھنے کو ملےگا کہ جنگ میں کسی ملک کو شکست دینےکےبعدہندوستان نے اس پر اپنی بالادستی کا اظہار نہیں کیا، بلکہ اسے وہاں کی سیاسی طاقتوں کے حوالے کر دیا۔

میگھالیہ ہائی کورٹ (فوٹو: وکی پیڈیا)

میگھالیہ ہائی کورٹ نے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنائے جانے والےاپنے متنازعہ فیصلے کو خارج کیا

10 دسمبر، 2018 کو دئے ایک فیصلے میں میگھالیہ ہائی کورٹ کے جسٹس سدیپ رنجن سین نے وزیر اعظم سے گزارش کی تھی کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، جین، بودھ، پارسی، عیسائی، کھاسی، جینتیا اور گارو لوگوں کو بنا کسی سوال یا دستاویزوں کے شہریت دی جائے۔

indian_muslim_jama-masjid

قیام پاکستان میں ہندوستانی مسلمانوں نے کیا رول ادا کیا تھا؟

کانگریس کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ اس نے ملک و آزادی سے جڑے معاملات میں مسلم لیگ کو ایسی توجہ دی گویا وہی ملک کے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔ مہاتما گاندھی تک اتنی بڑی نادانی کر بیٹھے کہ محمد علی جناح سے خط و کتابت میں انہیں- قائداعظم -کا خطاب دے ڈالا۔

سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)

ملک کو ہندو راشٹر بنائے جانے سے متعلق تبصرہ پر میگھالیہ ہائی کورٹ کو سپریم کورٹ کا نوٹس

میگھالیہ ہائی کورٹ کے جسٹس ایس آر سین نے دسمبر 2018 کے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ بٹوارے کے بعد ہندوستان کو ہندوراشٹر بنایا جانا چاہیے تھا۔ اس تبصرے کو ہٹانے کو عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے سی جے آئی رنجن گگوئی کی بنچ نے ہائی کورٹ سے جواب مانگا ہے۔

میگھالیہ ہائی کورٹ۔  (فوٹو بشکریہ: وکیپیڈیا)

میگھالیہ ہائی کورٹ کے جج نے اپنے ایک فیصلے میں کہا؛ ہندوستان کو ہندو راشٹر ہونا چاہیے تھا

میگھالیہ ہائی کورٹ نے وزیر اعظم سے گزارش کی ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، جین، بدھ ، پارسی، عیسائی، کھاسی، جینتیا اور گارو لوگوں کو بنا کسی سوال یا دستاویز کےشہریت دی جائے۔

book cover

بک ریویو :سقوط حیدر آباد کے تاریخی حقائق کو نئے نتاظر میں پیش کرتی کتاب

مصنف نے سقوط حیدرآباد کے واقعات سے جو نتیجہ اخذکیا ہے کہ’یہ حملہ ناقابل گریزتھا ‘اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگرانہوں نے اپنی بات جس سنجیدگی کے ساتھ پیش کی ہے اس کا تقاضاہے کہ یہ کتاب سنجیدگی سے پڑھی جائے۔