سپریم کورٹ کے وکیلوں کے ایک گروپ کی طرف سے اتراکھنڈ کے گورنرگرمیت سنگھ کو لکھے گئے خط میں اپریل میں 12 دنوں کے اندر پیش آنے والے چار واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تمام واقعات ہندو قوم پرست تنظیموں کی طرف مسلمانوں کے خلاف انجام دیے گئے تھے۔ خط میں ایسے واقعات کے سلسلے میں اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت کی بے حسی پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے ہیٹ اسپیچ کے واقعات کے خلاف کارروائی کرنے میں ریاستوں کی عدم فعالیت سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ ریاستی حکومتوں کی کارروائی مذہب سے قطع نظر کی جانی چاہیے۔ کارروائی میں کسی بھی طرح کی ہچکچاہٹ کو توہین عدالت کے طور پر دیکھا جائے گا۔
اتوار کو کراول نگر میں منعقدہ ‘ہندو راشٹر پنچایت’ میں بی جے پی لیڈر اوریونائٹیڈ ہندو فرنٹ کے بین الاقوامی ورکنگ صدر جئے بھگوان گوئل نے علاقے میں مسلمانوں کو مکانات فروخت نہ کرنے اور ان کے ساتھ کوئی کاروبار نہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد شمال–مشرقی دہلی کو پہلا ‘ہندو راشٹر ضلع ‘ بنانا ہے۔ پولیس نے تقریب کی منظوری نہ لینےکے حوالے سے مقدمہ درج کر لیا ہے۔
غیر قانونی مزاروں کو منہدم کرنے کی بات کہتے ہوئے اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے کہا ہے کہ یہ نیا اتراکھنڈ ہے، یہاں تجاوزات کرنا تودور اس کے بارے میں اب کسی کوسوچنا بھی نہیں چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ کچھ مہینوں کے بعد ریاست میں یکساں سول کوڈ کا قانون بھی نافذ کریں گے۔
موربی ضلع انتظامیہ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے،جس میں علاقے میں کام کرنے والے تمام تارکین وطن مزدوروں کو مقامی پولیس میں رجسٹریشن کرانے کو کہا گیا ہے۔ عدم تعمیل کی صورت میں کارروائی کی بات کہی گئی ہے۔اس سلسلے میں اب تک کم از کم 50 معاملے درج بھی کیے جا چکے ہیں۔
اتراکھنڈ حکومت کا اندازہ ہے کہ ریاست میں تقریباً 400 ایسے مدرسے ہیں، جو رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ سماجی بہبود اور اقلیتی بہبود کے وزیر چندن رام داس نے کہا کہ اگر مدارس مقررہ وقت تک اپنا رجسٹریشن نہیں کراتے ہیں تو انہیں بند کرنے کے لیے قدم اٹھائے جائیں گے۔