ویڈیو: وزیر اعظم نریندر مودی نے 25 دسمبر 2021 کو ٹی وی پر اعلان کیا تھاکہ ہندوستان 10 جنوری 2022 سے کووڈ ویکسین کی تیسری خوراک یعنی بوسٹر ڈوز شروع کرے گا۔اس وقت تک اومیکرون ویرینٹ متعارف ہو چکی تھی۔ لیکن 24 دسمبر کو منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کووڈ مینجمنٹ کی اعلیٰ قیادت نے تیسری خوراک کے سوال سے کنی کاٹ لی تھی۔
توآخر 24 گھنٹوں میں سائنس کیسے بدل گئی؟ ہندوستان کے کس سائنسی ادارے نے اسے راتوں رات منظوری دے دی ہے؟اس پیچیدہ سوال کا جواب جاننے کے لیے دی وائر نے کئی آر ٹی آئی درخواستیں دائر کیں۔ ہماری تحقیقات میں جو حقائق سامنے آئے وہ بے حد پریشان کن تھے۔ دیکھیے ہماری خصوصی رپورٹ۔
کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے ‘نیویارک ٹائمز’ اخبار کی ایک رپورٹ ٹوئٹر پر شیئر کی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندوستان دنیا بھر میں کووڈ-19 سے ہوئی موت کے اعداد وشمار عام کرنے کی عالمی ادارہ صحت کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہے۔ گاندھی نے کہا کہ مودی جی نہ تو سچ بولتے ہیں اور نہ ہی بولنے دیتے ہیں۔ وہ آج بھی جھوٹ بولتے ہیں کہ آکسیجن کی کمی سے کوئی نہیں مرا۔
ایک مئی سے ملک کے نجی اسپتالوں میں کووی شیلڈ ویکسین600 روپے فی خوراک کی قیمت پر ملے گی، جبکہ ویکسین پونے واقع سیرم انسٹی ٹیوٹ میں تیار کی جارہی ہے، جس کے سی ای او ادار پوناوالا نے کہا تھا کہ 150روپے فی خوراک کی قیمت پر بھی ان کی کمپنی منافع کما رہی ہے۔
کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجےوالا نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ کورونا بحران سے نمٹنے کے بجائے وزیر اعظم انتخاب میں مصروف ہیں۔ مہاراشٹر کانگریس کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم مودی لوگوں کی جان کے بجائے بنگال انتخاب کو اہمیت دے رہے ہیں۔
پچھلے سال کورونا وائرس کی وجہ سےگجرات کے اسپتالوں کے باہر نفسانفسی کا عالم تھا، اس کی خبریں ملک کو کم پتہ چلیں۔ اس سال بھی وہی عالم ہے۔ جس صوبے کی عوام نے نریندر مودی کو اتنا پیار کیا وہ تڑپ رہی ہے اور وزیر اعظم بنگال میں گجرات ماڈل بیچ رہے ہیں۔
ملک میں بےحد تیزی سے بڑھ رہے کورونا انفیکشن کے معاملوں کے مدنظر اب تک ویکسین کی پیداواری صلاحیت کو بڑھا دیا جانا چاہیے تھا۔ ظاہر ہے کہ اس سمت میں مرکزی حکومت کی پلاننگ پوری طرح ناکام رہی ہے۔
ایک آر ٹی آئی کارکن کی جانب سےکیے گئے سوالوں کے جواب میں مرکزی حکومت نے ویکسین ایکسپرٹ گروپ، سیفٹی کو یقینی بنانے اور ویکسین کو منظوری دینے کےپروسیس اور کو ون ایپ کے صارفین کے ڈیٹا کی سکیورٹی کےمعاملے پر جانکاری شیئر کرنے سے انکار کر دیا۔
ہریانہ کےگڑگاؤں ضلع کے بھانگرولا کے پرائمری ہیلتھ سینٹر میں55سالہ خاتون ہیلتھ ورکر کام کر رہی تھیں۔ انہیں 16 جنوری کو کووی شیلڈ کا ٹیکہ لگا تھا۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں شک ہے کہ ان کی موت ٹیکہ لگنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔
معاملہ بردھمان درگاپور علاقے کا ہے،جہاں کورونا کا ٹیکہ لگائے جانے کے بعد کچھ لوگوں کی طبیعت بگڑی۔ ریاستی محکمہ صحت کی جانب سے اب تک لوگوں کے بیمار ہونے کی وجوہات اور ٹیکہ کاری سے اس کے تعلق کی تصدیق نہیں کی گئی ہے، لیکن ٹیکہ کاری مہم کو روک دیا گیا ہے۔
تلنگانہ میں ابھی تک 69625 لوگوں کو ٹیکہ لگایا جا چکا ہے۔ پبلک ہیلتھ کےڈائریکٹر کے مطابق، ابھی تک ریاست کے 77 لوگوں میں ٹیکہ لگنے کے بعدمنفی اثرات کے معاملے سامنے آئے ہیں، جس میں سے تین کو اسپتال میں بھرتی کرنا پڑا تھا ۔
کورونا وائرس کے خلاف 16 جنوری کو ٹیکہ کاری مہم کی شروعات کے بعد بھارت بایوٹیک نے اس سلسلے میں ایک فیکٹ شیٹ جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ کن لوگوں کویہ ویکسین نہیں لگوانی چاہیے۔ کمپنی کے اس قدم پر کانگریس نے سوال اٹھایا ہے۔
کو ویکسین سے متعلق معلومات/اعدادوشمار پر رازداری کا پردہ پڑا ہوا ہے اور ہم ایک ایسی ناگفتہ بہ حالت میں ہیں، جس میں کم سے کم کچھ لوگوں کے پاس ویکسین لینے کے علاوہ شایداور کوئی راستہ نہیں ہے، خواہ ان کے دل میں اپنی سلامتی کو لے کر کتنا ہی شبہ کیوں نہ ہو۔
گزشتہ دنوں ڈرگ کنٹرولر آف انڈیایعنی ڈی سی جی آئی نے سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی تیارکردہ آکسفورڈ کے کووڈ 19ٹیکے کووی شیلڈ اور بھارت بایوٹیک کے خودساختہ ملکی ٹیکے کو ویکسین کو ملک میں محدود پیمانے پر ایمرجنسی میں استعمال کی منظوری دی ہے۔ حالانکہ ان کو لےکر اٹھے سوالوں کے جواب نہیں دیے گئے ہیں۔