شوگرکین کنٹرول آرڈر 1966 کہتا ہے کہ چینی ملیں کسان کو گنا فراہمی کے 14 دن کے اندر ادائیگی کریں گی،اگروہ ایسا نہ کریں تو انہیں بقایہ گنا قیمت پر 15فیصد سالانہ انٹریسٹ دینا ہوگا۔ یوپی سرکار اس ضابطے کی تعمیل نہ تو نجی چینی ملوں سے کروا پا رہی ہے نہ اس کی اپنی چینی ملیں اس کو مان رہی ہیں۔
ودھان سبھا پریشد میں شیوسینا رہنما نیلم گوہرے نے کہا کہ بیڈ ضلع میں گنا کے کھیت میں کام کرنے والی عورتوں کی بچہ دانی نکال لی گئی تاکہ ماہواری کی وجہ سے ان کے کام میں سستی نہ آئے اور جرمانہ نہ بھرنا پڑے، جس پر وزیر صحت ایکناتھ شندے نے بتایا کہ اس معاملے کی تفتیش کے لئے ایک کمیٹی کی تشکیل کی گئی ہے۔
گنا کسانوں کا10074.98کروڑ روپے میں سے4547.97 کروڑ روپے یعنی 45 فیصدی سے زیادہ اتر پردیش کے صرف 6 انتخابی حلقوں میرٹھ، باغپت، کیرانہ، مظفرنگر، بجنور اور سہارن پور کے کارخانوں پر بقایہ ہے۔
بی جے پی نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ فصل بیچنے کے 14 دن کے اندر گنا کسانوں کی ادائیگی یقینی بنائی جائےگی اور حکومت بننے کے 120 دنوں کے اندر گنا کسانوں کے بقایے کی ادائیگی کر دی جائےگی، لیکن اتر پردیش میں پارٹی کی حکومت بننے کے بعد بھی یہ وعدے کاغذوں سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔
انڈین شوگر مل ایسوسی ایشن نے کہا کہ وہ وقت پر کسانوں کو گنّا کی قیمت کی ادائیگی کرنے میں نااہل ہیں۔
ہندوستان کی سیاست جھوٹ سے گھر گئی ہے۔ جھوٹ کے حملے سے بچنا مشکل ہے، اس لئے سوال کرتے رہیے کہ 14 دنوں میں گنّا ادائیگی اور ایتھانول سے ڈیزل بنانے کے خواب کا سچ کیا ہے ورنہ صرف جھانسے میں ہی پھانسے جائیںگے۔