Terror Cases

جمعیتہ علماء مہاراشٹر گلزار احمد اعظمی کے بعد

شکیل رشید لکھتے ہیں: گلزار اعظمی کی موت سے جو ‘خلا’پیدا ہو گیا ہے، بھرنے کا کام شروع ہوگیا، یا شروع کر دیا گیا، ذرا انتظار نہیں کیا گیا۔ لیکن ایک سوال یہ تو اٹھتا ہی ہے کہ کیا فوری طور پر تبدیلیاں ضروری تھیں ؟ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ گلزار صاحب نے جن افراد کو مامور کر رکھا تھا مرکز کو اُن پر اعتبار نہیں تھا، یا مرکز انہیں کام کا نہیں سمجھ رہا تھا ؟ یہ اہم سوال ہیں۔ ابھی مزید سوال سامنے آئیں گے جب جمعیتہ علماء مہاراشٹر کے صدر کا انتخاب ہوگا۔ایک بات یہ بھی کہ؛ مولانا محمود مدنی کا کوئی تعزیتی بیان یا مراسلہ میری نظر سے نہیں گزرا، کیوں؟

شاہد اعظمی؛ جو آج بھی حق اور انصاف کے لیے جدوجہد کر نے والوں کے لیے مشعل راہ ہیں…

مجھے پورا یقین ہے کہ شاہد یہ جان کر بہت خوش ہو ں گے کہ ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی ہے۔آج دس سال بعد بھی انہیں یاد رکھنے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ان سے متاثر ہوئے بنا رہنا ایک نہایت ہی مشکل کام تھا۔

بے گناہوں کی رہائی کے لیےجدوجہد ہی شاہد اعظمی کو سچی خراج عقیدت

شاہد اعظمی کے ماضی کے بارے میں بہت کچھ لکھا پڑھا جاچکا ہے لیکن ان کی خدمات کی اصل اہمیت وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کے مقدمات انہوں نے اس وقت لڑنا شروع کئے تھے جب ان کے اہل خانہ اور دوست احباب بھی ان سے دور ہوگئے تھے۔

شاہد زندہ ہے…

یہ حقیقت ہے کہ شاہد جیسا بننا مشکل ہے کیونکہ شاہد نے جو کارنامہ صرف سات سال کی مدت میں انجام دیا وہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ شاہد نے محض سات سال کی مدت میں 17 بےگناہ مسلم نوجوانوں کو آزاد کروایا، جن میں سے زیادہ تر لوگوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔