عصمت کورک اولو نے کہا کہ ان کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ وہ ایک آزاد ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ فلسطین ابھی بھی اس سے کافی دور ہے۔ ہماری عمر تو بس چالیس سال ہے۔ ہم نہایت خوش قسمت ہیں کہ ترکیہ ہماری ضامن ریاست اور ہمارے پڑوس میں ہے۔ فلسطین کے لیے اگر کوئی بد قسمتی ہے، تو یہ ہے اس کی سرحد پر ترکیہ جیسا ملک نہیں ہے، جوان کی حفاظت کرسکتا تھا۔ ہماری بقا ہی ترکیہ کی وجہ سے ہے۔ ورنہ بہت سے طاقتیں ہمارے وجود کے درپے تھی۔
دیکھنا ہوگا کہ جب روس، یوکرین اور مغربی ممالک کے درمیان ترکیہ ایک ثالث اور مذاکرات کار کی شکل میں کردار ادا کر کے مغرب کی ضرورت بن چکا ہے، تو کیا ایسے وقت میں یورپی ممالک واقعی اس کو 27رکنی طاقتور اقتصادی اور سیاسی یونین کا حصہ بننے میں مدد کریں گے؟
مغرب کے لیے یہ انتخابات ایک اہم سبق ہیں۔ نہ صرف ان کی بے جا مداخلت نے ترکیہ میں قوم پرست جذبات کو ابھارابلکہ بیرون ملک ترکوں کے ووٹنگ کے انداز سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بیلجیم، فرانس، جرمنی، ڈنمارک اور ہالینڈ یعنی جو ممالک اسلامو فوبیا کا شکار ہیں، میں اردوان کو بھاری اکثریت حاصل ہوئی۔ اس کے برعکس برطانیہ، امریکہ، نیوزی لینڈ جیسے ممالک میں جہاں اسلاموفوبیا کے کم واقعات رونما ہوتے ہیں، کلیچ داراولو کو اکثریت ملی۔
رائے عامہ اور تجزیہ کاروں کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی کہ انتخابات دوسرے راؤنڈ میں چلے جائیں گے۔ مگر اکثر کا خیال تھا کہ کلیچ داراولو کو سبقت حاصل ہوگی، کیونکہ گرتی ہوئی معیشت اور اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سے عوام خاصے نالاں تھے۔اردو ان اور ان کے قریبی حریف کے درمیان تقریباً 25 لاکھ ووٹوں کا فرق ہے۔ اس کو پاٹنا اپوزیشن امیدوار کے لیے اب نہایت ہی مشکل امر ہے۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اردوان اور کلیچی داراولو کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ مگر ابھی تک ہوئے دس جائزوں میں دونوں میں کوئی بھی آئین کی طرف سے مقرر 50فیصد جمع ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو رہا ہے ۔ دونوں کلیدی امیدواروں کے ووٹوں کا تناسب 42 اور 43 فیصد کے آس پاس ہی گھوم رہا ہے۔
گراؤنڈ رپورٹ: اردوان نے انتخابات کو قبل از وقت یعنی مئی میں ہی منعقد کرانے کا اعلان کرکے سبھی کو چونکا دیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق زلزلہ سے چونکہ ایک بڑی آبادی اور وسیع علاقہ متاثر ہوا ہے، اس لیے باز آباد کاری کے لیے ضروری تھا کہ ایک مستحکم حکومت قائم ہو، تاکہ اس کو سخت فیصلے لینے میں آسانی ہو اوراس کے لیےعوام کا بھر پور منڈیٹ بھی حاصل ہو۔
زلزلہ کی وجہ سے مقامی آبادی پریشان حال تو تھی ہی کہ اسی دوران شامی حکومتی افواج اور باغی افواج کے درمیان حلب کے نواح میں معرکہ آرائی ہوئی، دونوں نے ایک دوسرے کے اوپر خوب گولہ باری کی۔ جس کی وجہ سے امدادی کارکنوں کو اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔
ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں خاص طور پر گنجان آباد شہروں دہلی اور لاہور کے حکام کو اس زلزلہ سے سبق حاصل کرنا چاہیے، کیونکہ ترکیہ کے شہروں کی طرح سرگودھا، لاہور اور دہلی کی پٹی زلزلہ کے لحاظ سے حساس زون میں شمار کی جاتی ہے۔ اس لیے ان علاقوں میں بلڈنگ کوڈ کو وضع کرنے اور اس کا سختی کے ساتھ اطلاق کرنے کی ضرورت ہے۔
ابھی بھی زندہ افراد کے ملبہ سے نکلنے کا سلسلہ جاری ہے، اس لیے بلڈوزر اور بھاری مشینری استعمال کرنے سے پرہیز کیا جا رہا ہے۔ ہاتھوں سے ملبہ اٹھانا اور اس میں زندہ وجود کا پتہ لگانا انتہائی صبر آزما کام ہے۔
ابھی تک رائے عامہ کے جوابتدائی جائزے شائع ہوئے ہیں، ان کے مطابق حکمراں اتحاد اور اپوزیشن کے درمیان کانٹے کامقابلہ ہونے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔
سرحدوں میں تبدیلی اور لوگوں کے درمیان رابطے کے کمزور ہونے کے ساتھ، ترک زبانوں نے مختلف لہجے اور بولیاں جمع کیں اور آہستہ آہستہ وہ اصل زبان سے الگ ہوگئے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ یہ تنظیم اس زبان کا ایک معیار تیار کرکے اس کو سبھی ممالک میں نافذ بھی کروائے۔
بڑا سوال ہے کہ کیا امریکی فوجوں کے انخلاء سے افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہوپائے گایا یہ بدنصیب ملک مزید گردآب میں گر جائےگا ۔
پچھلے 27 برسوں کے بعد پہلی بار اعدام اور دیگر شہروں کی مسجدوں کے منارے اور ممبر آباد ہوگئے، جہاں آذری افواج نے داخل ہوکر اذانیں دیں اور شکرانے کی نمازیں ادا کیں۔ پچھلی تین دہائیوں سے یہ مساجد جانوروں کے باڑوں یا موٹر گیراج کا کام دے رہے تھے۔پچھلے 27 برسوں کے بعد پہلی بار اعدام اور دیگر شہروں کی مسجدوں کے منارے اور منبر آباد ہوگئے، جہاں آذری افواج نے داخل ہوکر اذانیں دیں اور شکرانے کی نمازیں ادا کیں۔ پچھلی تین دہائیوں سے یہ مساجد جانوروں کے باڑوں یا موٹر گیراج کا کام دے رہے تھے۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس خطے میں یونان اور ترکی کے مابین کشیدگی کا کیا انجام ہوگا؟ خیر عالمی گریٹ گیم شروع ہوچکی ہے۔ بس انتظا ر ہے کہ امریکی انتخابات کے بعد اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
بیشتر اقوام نے، ماضی میں جب وہ غالب رہی، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کی جو کسی نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کا سبب بنی ہے۔ اگر ان تاریخی واقعات کا انتقام موجودہ دور میں لینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہےتو اس کا اختتام کہیں نہیں ہو گا۔
روسی مصالحت کار ماریہ کا ماننا ہے کہ ؛مصالحت کار چاہے کتنے ہی طاقتور ملک کی نمائند گی کیوں نہ کرتا ہو، کوئی حل مسلط نہیں کرنا چاہیے۔
مغربی ممالک اور امریکی اداروں نے ا یبٹ آباد کے آپریشن کے بعد جس طرح پاکستان کو ایک طرح سے احساس گناہ میں مبتلاکرکے رکھا اور اسامہ کی ایک فوجی مستقر میں موجودگی کو پوری دنیا میں موضوع بحث بنادیا، بالکل اسی طرح بارشہ کا آپریشن بھی ترکی کی سفارت کاری کے لیے اب ایک امتحان ہوگا۔ لگتا ہے کہ آپریشن کا وقت بھی سوچ سمجھ کر طے کیا گیا تھا، تاکہ یہ ترکی کی حالیہ فوجی و سفارتی کامیابی میں دودھ میں جیسے مینگنیاں ڈالنے کا کام کرے۔
ترکی کے اس فوجی اپریشن سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ اردگان دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس سے قبل اس نے ناٹو کا رکن ہوتے ہوئے بھی روس سے ایس۔400 میزائل ڈیفنس سسٹم خریدکر ایک بڑے سفارتی چیلنج کا سامنا کرکے، اس کو نہایت ہی زیرک طریقے سے سلجھا دیا۔ شاید اسی وجہ سے بشارالاسد کا حلیف ہوتے ہوئے بھی روس کا رد عمل کچھ زیادہ سخت نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ عالمی امور میں امریکہ پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس قتل کے حوالے سے ایسے شواہد ملے ہیں، جن کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ محمد بن سلمان کے ساتھ ساتھ دیگر سعودی اہلکار اس میں ملوث ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے […]
مدیر کی حیثیت سے جمال خاشقجی نے ایسی تحریریں شائع کیں جو سعودی حکام کی قدامت پسند سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔مگر ان کی اسی انقلابی سوچ کی وجہ سے مغرب میں ان کے بہت سارے مداح پیدا ہو گئے جو انھیں ایک آزاد خیال اور ترقی پسند صحافی کے طور پر دیکھنے لگے۔
بعض لوگوں کو یہ موازنہ کچھ عجیب لگ سکتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ دونوں ہی اپنے اپنے ملک میں مذہب کی بنیاد پر بنی پارٹیوں کے پروردہ ہیں۔ دونوں کا عروج لبرل اور سیکولر طاقتوں کے زوال کے ساتھ ہوا ہے۔
ترکی میں اپوزیشن کے مرکزی اخبار ’جمہوریت‘ کے چودہ صحافیوں کو دہشت گردوں کی مدد کرنے کے الزام میں قید کی سزائیں سنا دی گئی ہیں۔ کئی بین الاقوامی تنظیموں نے ترکی میں آزادی صحافت کی ابتر صورت حال پر شدید تنقید کی ہے۔
بازار میں اگرچہ کھانے پینے کی چیزیں دستیاب ہیں لیکن زیادہ تر یمنی باشندے انہیں خرید نہیں سکتے ہیں ، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت 22 ملین یمنیوں کو انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ غذائی قلت کی وجہ سے ہیضہ اور دیگر متعدی امراض نے آبادی کے ایک بڑے حصہ کواپنی چپیٹ میں لے لیاہے ۔
یاد رہے کہ سعودی ولی عہد نے مسئلہ قطر کو اپنے سہ روزہ مصری دورہ کے اختتام پر ایک چھوٹا سا ایشو قرار دیا تھا ۔ اس کا جواب قطرسے شائع ہونے والے اخبار “الرایہ” نےاپنے اداریہ میں دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے عربی میں شائع ہونے والے اخبار […]
انقرہ اور ماسکو کے مابین طے پانے والے ایک دفاعی معاہدے کے تحت ترکی روس سے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل خریدے گا۔ اس دفاعی معاہدے کے بعد ترکی اور نیٹو اتحادیوں کے تعلقات مزید بگڑنے کا خدشہ ہے۔ شامی علاقے عفرین میں امریکی حمایت […]
گزشتہ ہفتہ ترکی کی فوجی کاروائی، مسئلہ فلسطین، اور داووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں ہونے والے مباحثوں کوخلیجی اور مشرق وسطی کے اخبارات میں کوریج ملی۔