ان انتخابات کے نتائج نے ترکیہ کے مستقبل کی ممکنہ سمت کی ایک جھلک پیش کی ہے۔ یہ انتخابات اقتصادی پالیسی میں تبدیلی اور عالمی سطح پر ترکیہ کے ایک نئے کردار کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کا بیانیہ صرف قیادت میں تبدیلی سے متعلق نہیں ہے۔ یہ ملک کے سیاسی اور سماجی تانے بانے میں ایک گہری تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔
یونان کے ساتھ دفاعی شراکت داری کا اعلان ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ترکی کے صدر رجب طیب اردوان جی–20کے سربراہی اجلاس کے لیے ہندوستان جا رہے ہیں۔ اگرچہ ترکیہ اور یونان دونوں ناٹو کے رکن ممالک ہیں، مگر یہ کئی دہائیوں سے مختلف دوطرفہ مسائل پر تنازعات کا شکار رہے ہیں۔
بعض لوگوں کو یہ موازنہ کچھ عجیب لگ سکتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ دونوں ہی اپنے اپنے ملک میں مذہب کی بنیاد پر بنی پارٹیوں کے پروردہ ہیں۔ دونوں کا عروج لبرل اور سیکولر طاقتوں کے زوال کے ساتھ ہوا ہے۔