فکر و نظر

قاتلوں کی بھیڑ اور علاقائی زبانوں کے جاں باز صحافی

انگریزی متاثر کن زبان ہے، مگر اس کی رسائی محدود ہے۔ علاقائی زبانوں کے صحافی اصلی اثر پیدا کر سکتے ہیں۔ چھوٹے شہروں کے ایسے کئی جاں باز صحافی ہیں، جنہوں نے اپنے حوصلے کی قیمت اپنی جان دےکر چکائی ہیں۔

صحافی رام چندر چھترپتی ، گوری لنکیش اور جوگیندر سنگھ

ہندوستان کا دایاں بازو محاذ طوطے کی طرح یہ بات رٹتا رہتا ہے کہ ‘اعتدال پسند بائیں بازو ‘بریگیڈ کو بدل رہے ہندوستان کے ساتھ، جو اپنی پرانی جلد کو چھوڑ‌کر نئی شکل اختیار کر رہی ہے، قدم تال ملانے میں پریشانی محسوس ہو رہی ہے۔

وہ اپنی منطق کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندوستان پر اب تک مغربی فکروالے، جڑ سے اکھڑے ہوئے لوگوں کا راج تھا۔ ان کے نظریات اور ترغیبات کی تعمیروتشکیل مغربی ذرائع نے کی تھی، اس لئے وہ خالص ہندوستانی سوچ سے کٹے ہوئے تھے۔اب ملکی صلاحیت خود کو قائم  کر رہی ہے اور نسلی سلطنت میں مالامال ہونے والے لوگ اس بدل رہے ہندوستان میں غیر مطمئن ہیں۔

ان جڑ سے اکھڑے ہوئے ہندوستانیوں کے طبقے کی نامزدگی  کے لئے کئی لفظ گڑھے گئے ہیں۔ اس میں سب سے بنیادی تھا نام نہاد سیکولر ازم ، جس کو ہندوتوا نظریات کے اصلی بانی لال کرشن اڈوانی نے مقبول عام بنایا۔تب سے لےکر ناموں کے ایجاد کرنے کے معاملے میں اہلیت کا ایک دھماکہ دکھائی دیتا ہے۔ سیکولرز، پریسیٹْیوٹ (کیونکہ انگریزی بولنے والے صحافی پرانی حکومت کے ستونوں میں سے ایک تھے)، لٹئینس میڈیا جیسے نام اس اہلیت کی ہی مثال ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ یہ الزام لگانے والوں میں بھی کئی اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن انہوں نے کافی آسانی کے ساتھ خود کو نئی سچّائیوں سے جوڑ لیا ہے اور کافی فائدے میں رہے ہیں۔

ان بڑے لوگوں کی ترغیب ،بددماغی اورموقع پرست ہو سکتی ہے (جبکہ ہندو توا خیمے کے پکےپکائے مفکر برسوں میں تیار ہوئے ہیں)، لیکن ان کا آخری مقصد ایک ہی ہے :یہ دکھانا کہ ماضی پر میکالے کی اولادوں کا ناجائز قبضہ تھا، جبکہ آنے والے مستقبل کی تعمیر بھیڑ کے ذریعے کیا جائے‌گا۔وہی بھیڑ جس کو ملک کے عام لوگوں کا نام دیا جا رہا ہے اور جن کے بارے میں کہا جا رہا کہ وہ پوری طرح سے اس ہندوستانیت کا  مجسمہ نریندر مودی کے پیچھے صف بستہ ہے۔

اس امرواقعہ کے مدنظر کہ انگریزی بولنے والا یہ اعلیٰ طبقہ (ان کے ہی لفظوں میں) بہت چھوٹا اقلیتی طبقہ ہے، یہ بات حیرت میں ڈالنے والی ہے کہ ہندوستانیت کے مبلغین کو اس طبقے سے کتنی زیادہ نفرت ہے۔ وہ بغیر رکے ان پر حملے کرتے رہتے ہیں۔اس میں انٹرنیٹ جنگجو (چاہے وہ انسان ہوں یا روبوٹ)لگاتار شور مچاکر ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ کسی صحافی کے کسی تبصرہ کو گالی گلوج اور اکثر دھمکیوں کے بغیر گزر نے نہیں دیا جاتا ہے۔

اس غصے کو پہچاننا مشکل نہیں ہے۔ یہ صرف ٹرولوں کے تبصرےمیں ہی نہیں دکھائی دیتا ہے، بلکہ لیڈروں میں بھی دکھتا ہے۔ ان کے تبصروں سے نسلوں سے اکٹّھا کر کے  رکھی گئی کڑواہٹ اور نفرت کا گرم پگھلا ہوا لاوالگاتار بہتا رہتا ہے۔ (اس کے بر عکس دوسری طرف بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے، جن میں اپنے’ اشراف ‘ ہونے کا بلا وجہ اقبال جرم ہے اور اس طرح سے وہ ہندتووا کے ذریعے بچھائے گئے جال میں پھنس جاتے ہیں۔)

بھلے انگریزی داں ،اعتدال پسندبایاں محاذ ، دایاں محاذکو غصہ دلائیں، مگر انھیں اصل ڈر ان کی مقامی دیسی زبانوں میں ہی بولنے اور لکھنے والے ترقی پسندوں سے لگتا ہے۔ انگریزی بولنے والوں کو آسانی سے اصلی ہندوستان سے کٹا ہوا قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن،نظریات کی تشہیر مراٹھی، کنّڑ، پنجابی یا کسی بھی دوسری ہندوستانی زبانوں میں کرنے والوں کو حقیقی خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔نریندر دابھولکر، گوبند پانسرے، ایم ایم کلبرگی،چار سالوں کے اندر کٹّر دائیں بازو تنظیموں کے ہاتھوں مارے گئے یہ سارے لوگ منطقی نظریات اور سیکولر روایات کے حامی تھے۔

انہوں نے اوہام پرستی اور ہندتووا گروپوں کے ذریعے پھیلائے جانے والے جھوٹ کے خلاف لڑائی لڑی۔ یہ سب اپنی مادری زبان میں لکھتے تھے۔ اس سے ان کے نظریات زیادہ دور تک اور زیادہ بڑے گروہ تک، گاؤں اور محلوں تک پہنچ پانے میں کامیاب ہوئے۔ ان نظریات نے عام لوگوں کے ان اوہام کو چیلنج دینے کا کام کیا جن کو فرقہ وارانہ طاقتوں کے ذریعے پالا پوسا جاتا ہے اور حوصلہ فزائی کی جاتی ہے۔پرانے اعتدال پسند پانسرے نے شیواجی پر ایک کتاب لکھی، جس نے فرقہ وارانہ طاقتوں کے ذریعے مشتہر اور بار بار دوہرائے جانے والے اس دعویٰ کو موثر طور پر نیست و نابود کرنے کا کام کیا کہ شیواجی مسلمانوں سے لڑائی لڑنے والے ایک ہندو ہیرو تھے۔

دابھولکر نے بھولی بھالی عوام کو بیوقوف بنانے والے مختلف باباکے ڈھونگ کے خلاف تاعمر جدو جہد کی۔ ساتھ ہی وہ دلتوں کے مساوات کی مہم کے مورچے پر ڈٹےرہے۔ انہوں نے مراٹھی زبان میں لکھا۔کلبرگی کنّڑ میں لکھنے والے دانشورتھے، جن کو اپنے قلم کی وجہ سے اپنے ہی ہم لنگایت کمیونٹی کے غصے کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ہندو مذہب کی اوہام پرستی کے خلاف بھی لکھا۔ہم پنجابی شاعر پاش کو بھی یاد کر سکتے ہیں، جن کو خالستانی انتہا پسندوں نے ان کے مضبوط اعتدال پسند نظریات کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ان تمام معاملات میں اور ایسی کئی اور مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ زیادہ لوگوں تک پہنچنے اور اس کے نتیجہ کے طور پر عام لوگوں کو زیادہ متاثر کرنے کی ان مصنفین اور مفکر ین کی قوت کی وجہ سے، یہ اپنےنظریاتی دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے۔دابھولکر اور پانسرے کی تحریر نے نفرت پھیلانے والےتشددپسند فرقہ وارانہ گروہوں کو کسی انگریزی مصنف کے مقابلے میں کہیں بڑا چیلنج پیش کیا۔

گوری لنکیش، دونوں دنیاؤں کے درمیان آمد ورفت کرتی رہیں۔ انہوں نے اپنے کیریئر کی شروعات انگریزی صحافی کے طور پر کی تھی۔ حالات کے مطالبے  پر وہ بینگلورو آ گئیں اور اپنے والد کے پرانے اخبار کی کمان سنبھالی۔ بعد میں انہوں نے اپنا خود کا اخبار جاری کیا۔ انہوں نے اس اخبار میں چھپنے والے لفظوں کی پوری ذمہ داری اور جوابدہی لی۔یہ اخبار سماجی اور سیاسی موضوعات پر ان کے مضبوط خیالات کا آئینہ بن گیا۔ وہ یائیں بازو نظریات سے متاثر تھیں۔ انہوں نےترقی پسند اور دلت سوالوں کو اٹھایا۔ کنہیّا کمار، شہلا رشید اور جگنیش میوانی جیسے ابھر رہے نوجوانوں کی قیادت کو انہوں نے حوصلہ بخشا۔

ہندو توکے وسعت کو دیکھ‌کر انہوں نے اس کے خلاف متنبہ کیا۔ جلدہی ان کا اخبار اور ان کے نظریات کرناٹک کے کونےکونے تک پہنچ گئے اور وہ مقامی لیڈروں کو کھٹکنے لگے۔ ان میں سے دو انہیں کورٹ لے گئے اور ایک معاملے میں ان کو قصوروار ثابت کرنے میں کامیاب رہے۔انہوں نے کہا تھا، ‘ وہ مجھے جیل میں بند کرنا چاہتے ہیں۔ ‘ ان کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ جن لوگوں کے خلاف وہ لکھ رہی تھیں، وہ ان کے پیچھے پڑ جائیں‌گے۔بی جے پی کی آئی ٹی سیل کا ایک چونکانے والا ٹوئٹ ان کو ملزم ثابت ہونے  پر ایک طرح سے اطمینان جتانے والا  اورپارٹی اور ا س کے رہنماؤں کے خلاف لکھنے کے انجام کے لئے تیار رہنے کو لے کر خبردار کرنے والا تھا۔

ہمیں یہ پتا نہیں ہے کہ ان کا قتل کس نے کیا؟ ہم امید کر سکتے ہیں کہ حکومت جلد مجرموں کو پکڑنے میں کامیاب ہوگی، لیکن حقیقت یہی ہے کہ جنہوں نے گولی چلائی، وہ بس پیدل فوجی تھے۔ جو لوگ ان کے پیچھے ہیں، ان کی شناخت کرنی ہوگی۔قیاس لگانے کا کوئی مطلب نہیں ہے، لیکن ملک کے  موجودہ سیاسی منظر نامےکو نظر انداز نہیں کیا جا سکتاہے۔ جس نے بھی ان کے قتل کا حکم دیا، وہ ان کی تحریرسےخوفزدہ اورمتنفر تھا۔ خاص کر، اس امرواقعہ کی وجہ سے کہ وہ اثر پیدا کرنے والی زبان میں لکھتی، بولتی تھیں۔

انگریزی متاثرکن زبان ہے، مگر اس کی رسائی محدود ہے۔ علاقائی زبانوں کے صحافی اصلی اثر پیدا کر سکتے ہیں۔ چھوٹے شہروں کے ایسے کئی جاں بازصحافی ہیں، جنہوں نے اپنے حوصلےکی قمیت اپنی جان دےکر چکائی ہے۔اپنے اخبار پورا سچ میں ریپ کے قصوروار قرار دئے گئے گرمیت رام رحیم کے خلاف گمنام خط شائع کرنےوالے رام چندر چھترپتی کا قتل قریب سے گولی مار‌کر کر دیا گیا تھا۔ شاہ جہاں پور ٹائمس کے جوگیندر سنگھ کو ان کی تحریر کے لئے زندہ جلا دیاگیا تھا۔ ان میں سے کسی بھی صحافی کا واسطہ لٹین دلّی سے نہیں تھا۔

واضح طور پر لٹین والا اصول ایک بھلاوا ہے۔ یہ لڑائی نام نہاردانگریزی داں طبقہ اور ہندوستانیت کے نام نہاد اصلی جھنڈابرداروں، جس کی نمائندگی ہندتووادی لیڈر کرتے ہیں، کے درمیان نہیں ہے۔ کیونکہ آخری تجزیے میں دونوں ہی خصوصی اختیارات حاصل شدہ  طبقہ ہیں۔اصلی لڑائی میں ایک طرف آئینی قدروں  اور ملک کے سیکولر اور تنوع پسندکردار کے تحفظ کا بیڑا اٹھانے والے لوگ ہیں، تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ملک کو ایک ایسی متنوع صفرہندو راشٹرمیں تبدیل کرنے پر آمادہ ہیں جہاں اقلیتوں کو دوئم درجے کی زندگی جینے پر مجبور کیا جائے‌گا اور آزادخیالات پر پابندی ہوگی۔اس ہندو راشٹر کی حمایت میں کھڑا گروہ آج مضبوط ہوتا دکھ رہا ہے، لیکن اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ احتجاج کی چنگاری بجھ گئی ہے۔

ایک دابھولکر، پانسرے، کلبرگی یا پھر گوری لنکیش کے قتل سے سیکڑوں ہزاروں لوگوں کو چپ نہیں کرایا جا سکے‌گا، جو ہندوستانی افکار کو بربادکرکے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے خطرناک ارادوں کے درمیان دیوار بن‌کر کھڑے ہیں۔بھیڑ کا گروہی نظام  اور قاتل خود کو اصلی ہندوستانی سمجھ سکتے ہیں، لیکن وہ کسی بھی طرح سے اس ملک کی عظیم وراثت کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔