فکر و نظر

کیا اسٹوڈنٹس یونین یونین انتخاب میں اے بی وی پی کو کامیاب بنانے کے لئے یوگی حکومت اقتدار کا غلط استعمال کر رہی ہے؟

گورکھ پور یونیورسٹی میں ا سٹوڈنٹس یونین انتخاب کے لیےکافی عرصے سے احتجاج اور مظاہرہ  جاری  ہے۔

gorakhpur_university

8 ستمبر کو دین دیال اپادھیائے گورکھ پور یونیورسٹی کے طلبا و طالبات پر بے رحمی سے  لاٹھی چارج اور 27 نامزد اور 100 نامعلوم طلبا کے خلاف قتل کی کوشش سمیت کئی مجرمانہ مقدمے درج کرنے کے واقعہ کے پیچھے کی جو کہانی اب سامنے آئی ہے، وہ بےحد چونکانے والی ہے۔

اس سے پتا چلتا ہے تعلیمی اداروں پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کی طلبا تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی)کو قابض کرانے کے لئے وزیر، اقتدار کا کھلے عام غلط استعمال کر رہے ہیں اور یونیورسٹیوں کی خودمختاری کو کچل رہے ہیں۔

گورکھ پور یونیورسٹی طلبا یونین انتخاب کو نائب وزیراعلی کے کہنے پر یونیورسٹی انتظامیہ نے ٹال دیا اور جب طلبا وطالبات نے اس کی مخالفت کی تو ایڈمنسٹریشن بلڈنگ سے لےکر ہاسٹل میں گھس‌کر ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔

پھر چن چن کر ان اسٹوڈنٹ لیڈر پر مقدمہ درج کر لیا گیا جن کے جیتنے کے امکان زیادہ تھے۔ ان کو انتخاب سے باہر کرنے کے بعد انتخاب کرانے کی تیاری چل رہی ہے۔

گزشتہ ایک دہائی کی تاریخ کی روشنی میں اس واقعہ کا تجزیہ کیا جائے تو صاف ہو جائے‌گا کہ یہ واقعہ اے  بی وی پی کو یونیورسٹی میں قائم کرنے اور دلت  پسماندہ طلبا تنظیموں اور لیڈروں کے بڑھتے قدم کو روکنے کے مقصد سے سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت کی گئی۔

گورکھ پور یونیورسٹی میں سال 2016 میں 10 سال بعد  یونین انتخاب ہوئے۔ اے بی وی پی تمام عہدوں پر انتخاب لڑی، لیکن نائب صدر عہدے پر ہی وہ کامیاب ہو سکی۔ دیگر عہدوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جس میں بیشتر دلت اور پسماندہ تھے۔ اس شکست نے اے بی وی پی کو ہلا کر رکھ دیا وہیں دلت اور پسماندہ طلبا رہنماؤں کو متحد کر دیا۔

 یونین انتخاب کے پہلے اور بعد میں روہت ویمولا، جے این یو سمیت تمام سوالوں کو لےکر دلت اور  پسماندہ طلبا نے زوردار احتجاج و مظاہرہ کیا۔ ان برسوں میں امبیڈکروادی طلبا یونین ابھر‌کر سامنے آئی۔ اس تنظیم نے 2016 کے انتخاب میں پون کمار کو جنرل سیکریٹری کا امیدوار بنایا تھا جو بہت کم ووٹوں کے فرق سے ہارے۔تنظیم نے صدر عہدے پر آزاد امیدوار امن یادو کو حمایت دی تھی جو بڑے فرق سے کامیاب ہوئے۔

دلت اور پسماندہ تنظیموں کے نمایاں ہونے اور اس کی مضبوطی کے پیچھے یونیورسٹی میں آئی تبدیلی بھی ہے۔ یونیورسٹی میں گورکھ پور اور آس پاس کے اضلاع سے بڑی تعداد میں غریب فیملی کے طلبا وطالبات پڑھنے آ رہے ہیں۔ ان میں دلت اور پسماندہ طلبا و طالبات کی تعداد زیادہ ہے۔

تعلیم کے تئیں آئی بیداری اور سڑک اور ریل گاڑی کی آمد و رفت کی سہولیات بڑھنے سے ان طلبا و طالبات کو بھی یونیورسٹی میں پڑھنے کا موقع دیا جو گورکھ پور میں رہ‌کر پڑھائی کا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔

مہراج گنج، دیوریا، کشی نگر ضلع کے گاؤں اور قصبوں سے طلبا و طالبات صبح بس، ٹیکسی اور ریل گاڑی سے چل‌کر یونیورسٹی آتے ہیں اور دوپہر بعد واپس اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ ایسے طلبا و طالبات کی تعداد گورکھ پور میں رہ‌کر پڑھائی کرنے والوں سے بہت زیادہ ہے۔

گورکھ پور یونیورسٹی میں 90 کی دہائی تک گورکھ پور، دیوریا، مہراج گنج، کشی نگر، بستی، سنت کبیرنگر، سدّارتھ نگر اضلاع کے بڑےکسانوں اور گورکھ پور شہر کے نوکری  پیشہ طبقے کے گھروں کے لڑکے لڑکیاں سب سے زیادہ تھے۔

اب اس طبقے کے نوجوان گورکھ پور یونیورسٹی کے بجائے دلّی اور بڑے شہروں میں نامی سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں میں پڑھنے جا رہے ہے۔ ان کی دلچسپی انجینئرنگ، میڈیکل اور مینیجمینٹ کی پڑھائی میں زیادہ ہے۔

یہ وہی دور تھا جب گورکھ پور کی سیاست دو باہوبلی رہنماؤں ہری شنکر تیواری اور ویریندر پرتاپ شاہی میں تقسیم ہوگئی تھی ،اور یونیورسٹی اس ذات پات گینگ وار کا مرکز بن گیا تھا۔ روندر سنگھ، رنگ نارائن پانڈے جیسے کئی روشن فکر اور باصلاحیت طلبا  اور نوجوان رہنماؤں کا قتل ہوا۔ اس دور کے تمام طلبا یونین انتخاب ٹھاکروں اور براہمنوں کے درمیان  شکتی پردرشن کے اکھاڑے تھے۔

اسی دور میں گورکھ پور یونیورسٹی میں ترقی پسند تنظیم پی ایس او(یہی تنظیم بعد میں آئسا بن گئی)اور دشا نام کی طلبا تنظیم بھی سرگرم تھی اور انہوں نے پڑھائی لکھائی کے ساتھ ساتھ ملک اور سماج کے سوالوں پر بحث چھیڑ کر ماحول بدلنے کی کوشش کی۔

طلبا یونین انتخاب میں حصہ لیا۔ اشوک چؤدھری 1989 میں پی ایس او سے نائب صدر کےعہدے پر کامیاب بھی ہوئے۔ وہ پہلے دلت طالب علم تھے جو طلبا یونین میں منتخب کیے گئے۔

1995 سے 2005 تک ایک دہائی کے دور میں گورکھ پور یونیورسٹی میں پسماندہ اور دلت طلبا کے کئی تنظیم بنے۔ اس میں سال 2000 میں بنا امبیڈکروادی یووا چھاتر پریشد اہم ہے۔ اسے شرون کمار نرالا نے بنایا تھا جو آج بسپا کے بڑے رہنما ہیں۔ اس تنظیم سے صدر، وزیر اور دیگر عہدوں کے لئے کئی بار دلت طالب علم انتخاب لڑے لیکن اچھی خاصی تعداد میں ووٹ ملنے کے باوجود کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

اس تنظیم نے یونیورسٹی میں دلت ادب پر پروگرام بھی منعقد کیا تھا۔ پسماندہ طلبا کی نمائندگی سماجوادی پارٹی کی طلبا تنظیم سماج وادی چھاتر سبھا کر رہی تھی۔ اس بینر سے کئی طلبا انتخاب لڑے لیکن کامیابی نہیں ملی، حالاں کہ  ان دونوں تنظیموں نے اپنی  بنیاد ضرور مضبوط کی ۔

دلت  پسماندہ طلبا تنظیم خود کو مضبوط کر ہی رہے تھی کہ طلبا یونین انتخاب پر روک لگ گئی۔ ایک دہائی بعد یہ روک 2016 میں ہٹی تو بغیر کسی تنظیم کے  دلت نے اپنی طاقت دکھا دی۔

اس سال انتخاب کا اعلان ہونے سے پہلے ہی امبیڈکروادی  چھاتر سبھا  نے انّو پرساد کو صدر عہدے کا امیدوار بنا دیا اور انتخابی تشہیر شروع کر دی۔اسی طرح نائب صدرکے لیے  پون کمار، شوشنکر گوڑ اور دیگر عہدوں پر دلت اور پچھڑے طبقے کے امیدوار مضبوط دعویداری پیش کرنے لگے۔

ادھر اے بی وی پی کی تنظیمی  حیثیت کافی کمزور ہو گئی۔ اس کے پاس تمام سیٹوں پر امیدوار تک نہیں مل رہے تھے۔ تب وہ دلت پسماندہ طبقے کے کچھ امیدوار کو اے بی وی پی میں شامل ہونے کا لالچ دینے لگے۔

نائب صدرعہدے کے امیدوار پون کمار نے بتایا کہ اے بی وی پی والوں نے ان کو بلایا اور مٹھائی کا ڈبہ دیتے ہوئے تنظیم میں شامل ہونے کی پیشکش کی۔ ساتھ میں یہ بھی یقین دلایا کہ ان کو نائب صدر عہدے پر انتخاب لڑایا جائے‌گا۔ پون نے صاف انکار کر دیا۔

انّو پرساد، پون کمار کا الزام ہے کہ اے بی وی پی کے ہی دباؤ میں یونیورسٹی انتخاب کرانے میں بہانے بازی کر رہی تھی۔ تب طلبا نے تحریک شروع کی۔ ایک دن دھرنا دینے کے بعد طلبا بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے۔

گزشتہ 8 ستمبر کو پولس کے ظالمانہ لاٹھی چارج میں زخمی طالب علم۔ فوٹو : منوج سنگھ

گزشتہ 8 ستمبر کو پولس کے ظالمانہ لاٹھی چارج میں زخمی طالب علم۔ فوٹو : منوج سنگھ

مجبور ہوکر انتخابی افسرکا اعلان کیا گیا اور کہا گیا کہ جلد انتخاب کی تاریخ اعلان کر دیا جائے‌گا۔ تقریباً یہ طے ہو گیا کہ 18ستمبر کو انتخاب ہوگا لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے تاریخ اس لئے اعلان نہیں کیا کیوں کہ  ڈپٹی سی ایم اوروزیر تعلیم ڈاکٹر دنیش شرما نے کہا کہ وہ خود تاریخوں کا اعلان کریں‌گے۔ ان کو 8 ستمبر کو گورکھ پور یونیورسٹی میں نئے بنے کمیٹی ہال کا افتتاح اور ڈیجیٹل پیمنٹ منصوبہ کا آغاز کرنا تھا۔

اسی بیچ الیکشن افسر پروفیسر سنجے بیجل نے ریاست کے سولیسٹرجنرل (اعلیٰ مشیرقانون) سے صلاح لینے کے بعد یہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا کہ گزشتہ سال کسی عہدے پر انتخاب لڑنے والے اس عہدے پر انتخاب نہیں لڑ سکتے لیکن دوسرے عہدے پر انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ یہ موقع صرف اس انتخاب کے لئے ملے‌گا۔

الیکشن افسر کے اس فیصلے سے ایک بڑے بی جےپی رہنما بہت ناراض ہوئے۔ ان کے قریب کے  رشتہ دار صدر عہدے پر انتخاب لڑنے کی تیاری کیے ہوئے تھا۔ اس کی راہ میں ایک رکاوٹ اے بی وی پی سے پچھلے انتخاب میں نائب صدر بنا لیڈرتھا، جو اس بار صدر عہدے کی دعوےداری کر رہا تھا۔

ساتھ ہی امبیڈکر چھاتر پریشد کی امیدوار انّو پرساد کے لیے بھی چیلنج بنا ہوا تھا۔ اس بی جے پی رہنما نے وائس چانسلر سے مل‌کر کہا کہ وہ الیکشن افسر کی نوٹیفکیشن کو منسوخ کر دے اور اس کی جگہ یہ نوٹیفکیشن جاری کر دیں کہ پچھلے انتخاب میں لڑنے والے امیدوار اس بار انتخاب نہیں لڑ پائیں‌گے۔ وائس چانسلر نے ایسا نہ کرنے کی اپنی مجبوری بیان کردی۔

بس یہیں سے ایک بڑی سازش بُن دی گئی۔ گورکھ پور آئے ڈپٹی سی ایم ڈاکٹر دنیش شرما کو یونیورسٹی پہنچنے کے پہلے بتایا گیا کہ وائس چانسلر من مانی کر رہے ہیں اور انتخاب میں اے بی وی پی کی بُری شکست ہوگی۔ یونیورسٹی پہنچ‌کر انتخاب کا اعلان کرنے والے ڈپٹی سی ایم کا رخ ایک دم بدل گیا اور وہ بھری محفل میں وائس چانسلر وی کے سنگھ کو ہدایت دینے لگے۔

انہوں نے کہا کہ انتخاب کرانے کے لئے حکومت سے اجازت لینی ہوگی۔ انہوں نے سرعام وائس چانسلر پر استاد کی تقرری، شودھ گنگا پورٹل، دین دیال شودھ پیٹھ کو لےکر کچھ نہیں کرنے کا الزام لگایا۔ محفل میں بیٹھے لوگ حیران تھے کیونکہ وائس چانسلر وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے کافی نزدیکی ہیں پھر بھی ڈپٹی سی ایم ان کو خوب سنا رہے تھے۔ خود وائس چانسلر بہت پریشان ہو گئے۔ بعد میں کچھ لوگوں سے انہوں نے کہا کہ ڈپٹی سی ایم ان سے یہ بات اکیلے میں کر سکتے تھے۔ سب کے سامنے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔

ڈپٹی سی ایم نے یہی بات پریس کانفرنس میں بھی کہی۔ اس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے انتخاب کو منسوخ کر دیا۔ جب اس کی خبر اسٹوڈنٹ لیڈروں کو لگی  تو طلبا بڑی تعداد میں انتظامیہ کے سامنےحتجاج کرنے لگے۔

اسی دوران ایک اہلکار سے طلبا کی کہاسنی ہوئی اور پولس نے فوراً لاٹھی چارج کر دی۔ طالبات پر بھی لاٹھی چلائی گئی۔ طلبا بھاگ‌کر ہاسٹل پہنچے تو پولس وہاں بھی پہنچ گئی اور چینل گیٹ دروازہ توڑ کر انھیں پیٹنے لگی۔ لیپ ٹاپ، بائک، کرسی میز توڑ دئے گئے۔

اس واردات میں جن طلبا وطالبات کو نامزد کیا گیا ہے ان میں بیشتر انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہے تھے۔ ان میں چار اے بی وی پی کے بھی لیڈر ہیں جن کے اوپر سے مقدمہ ہٹانے کے لئے بی جےپی رہنما لگے ہوئے ہیں۔

لاٹھی چارج کی واردات کے ایک دن بعد ہی یونیورسٹی کی طرف سے انتخاب کرانے کے لئے پیشکش حکومت کے پاس بھیج دی گئی۔ اے بی وی پی نے انتخاب کی تیاری تیز کر دی ہے۔ اس کے رہنما 22 یا 23 ستمبر کو انتخاب ہونے کے دعوے بھی کر رہے ہیں۔

تمام اہم دعویدار کو انتخابی میدان سے ہٹاکر اے بی وی پی کے لئے راستہ تیار کر دیا گیا ہے لیکن لاٹھی چارج کی واردات کے بعد عام طلبا کی حکومت اور حکمراں جماعت اور اس کی تنظیموں کے خلاف جو غصہ دیکھا جا رہا ہے، وہ ہر داؤ کو پلٹ بھی سکتا ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اور گورکھ پور فلم فیسٹیول کے منتظمین میں سے ایک ہیں۔)