کتاب کے مصنف کے بقول اصل دستاویزات کا معائنہ کرنے کے بعد ان کو ادراک ہوا کہ گاندھی اور دیگر کانگرسی لیڈروں نے صیہونیت کے ساتھ اپنی قربت صرف اس لیے چھپائی تھی کیونکہ وہ ایک طرف ہندوستان کی مسلم آبادی سے خائف تھے، دوسری طرف عربوں کو خوش رکھنا چاہتے تھے۔
وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کی طرف سے قدیم اور عہد وسطیٰ کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششیں تو ہو ہی رہی ہیں، تاکہ ایک طرف اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو برصغیر کے اصل وارثوں کے بطور تسلیم کروایا جائے، دوسری طرف 800سالہ مسلم دور حکومت کو ایک تاریک دور کے طور پر ریکارڈ کرایا جائے ، مگر اب جدید تاریخ کو بھی از سر نو مرتب کرنے کی سعی جاری ہے۔ اسکی تازہ مثال جنگ آزادی کے سرخیل اور بابائے قوم مہاتما گاندھی کو اسرائیل نواز اور صہیونیت کا حامی بتانے کی کوشش ہے۔ پچھلے 70سالوں سے سبھی حکومتوں نے عربوں کو رجھانے کےلئے گاندھی کے نومبر 1938کے اس خط کا بھر پور استعمال کیا، جس میں انہوں نے اسرائیل کے قیام کی مخالفت کی تھی اور لکھا تھا کہ” فلسطین پر عربوں کا حق بالکل اسی طرح ہے، جس طرح انگریزوں کا انگلینڈ پر اور فرانسیوں کا فرانس پر ہے“۔
حا ل ہی میں سبکدوش ہوئے صدر پرنب مکرجی نے 2015میں اردن اور فلسطین کے دورہ کے دوران گاندھی کے ہریجن اخبار میں چھپے اس خط کے اقتباسات کو اپنی تقریروں میں اور عرب لیڈروں کے ساتھ بات چیت کے دوران ہندوستان کی تاریخی قربت اور حمایت جتانے کےلئے خوب استعمال کیا۔ ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ رشتوں کی داستان1953سے ہی شروع ہوئی تھی، جب ممبئی میں اسکو کونصلیٹ کھولنے کی اجازت مل گئی تھی ۔ 1993میں باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہونے کے بعددونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی اور ملٹری تعاون میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا رہا، مگر بقول دہلی میں اسرائیلی سفیر ڈینیل کارمون کے اس میں سیاسی عنصر غائب تھا۔ جس کا اسرائیل کو شدید قلق تھا۔ شاید اس کی وجہ یہی رہی ہو چونکہ پارٹیوں کی سیاست سے بالاتر مہاتما گاندھی کو ایک طرح سے ملک میں ”پاسبان ضمیر“ کی حثیت حاصل ہے اس لیے ہندوستانی سیاستدان گاندھی کی تعلیمات سے قربت اور اپنی اخلاقی برتری جتانے کےلئے اسرائیل کے ساتھ اپنے رشتوں کو پس پردہ رکھنے او”ضرورت پر مبنی رفاقت“ تک ہی اسکو محدود رکھنے سے اپنے ضمیر کو مطمئن کرتے تھے۔ہندوستان کی حکومتوں نے گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفہ کو بین ا لاقوامی فورمز میں استعمال کرکے اسکو فارن پالیسی کا ایک جز بنایا ہوا ہے۔
مگر اب چند روز قبل اعلان بلفور(Balfour Declaration)کی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر ہندوستان کی موخر تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ اینالیسس (IDSA) میں سابق نائب صدر حامد انصاری کی موجودگی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پرفیسر پی آر کمار سوامی کی کتاب Squaring The Circle–Mahatma Gandhi and the Jewish National Home کا اجراءہوا۔ جس میں بتایا گیا، کہ عالمی جنگ عظیم دوم کے بعد گاندھی نے اسرائیل اور صیہونیت کے تئیں اپنا نظریہ تبدیل کیا تھا۔ اس میں گاندھی کے پرسنل سیکرٹری پیارے لال پر بھی الزام عائد کیا ہےکہ گاندھی کے مخطوطات اور ان کی مختلف میٹنگوں کے احوال پر مشتمل 100جلدوں پر محیط دستاویز میں اس نے ان واقعات کو یا تو قلمبند ہی نہیں کیا ہے یا ان ملاقاتوں کی تفصیلات غائب کر دی ہیں، جہاں گاندھی نے صیہونیت اور اسرائیل کے قیام کی حمایت کی تھی۔اگر یہ واقعی سچ ہے تو یہ گاندھی کی پیچیدہ شخصیت کی ایک اور عکاسی ہے۔ اس سے ان محقیقین کو بھی تقویت ملتی ہے ، جن کا الزام ہے کہ ایک سنت اور مہا تما کے بھیس میں گاندھی کے اند ر ایک متکبرً ہندو چھپا ہوا تھا، جو دیگر قوموں کو جھوٹے خواب دکھا کر ایسے حالات پیدا کرنے کے فراق میں تھا، جہاں ان کےلئے ہندو اعلیٰ ذاتوں کی غلامی کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔
کتاب کے مصنف کے بقول اصل دستاویزات کا معائنہ کرنے کے بعد ان کو ادراک ہوا کہ گاندھی اور دیگر کانگرسی لیڈروں نے صیہونیت کے ساتھ اپنی قربت صرف اس لیے چھپائی تھی کیونکہ وہ ایک طرف ہندوستان کی مسلم آبادی سے خائف تھے، دوسری طرف عربوں کو خوش رکھنا چاہتے تھے، جن سے ہندوستان کے وسیع تر اقتصادی اور انرجی مفادات منسلک تھے۔ 1937کی ایک میٹنگ کا حوالہ دیکر پروفیسر کمار سوامی کہتے ہیں کہ جنوبی افریقہ میں گاندھی کے دوست رہے ایک یہودی ہرمین کالینباچ 23سال بعد جب ان سے ملے تو ایک لمبی گفتگو کے بعد گاندھی نے صیہونیت کے بارے میں ایک بغیر دستخط شدہ بیان ان کے سپرد کیا۔ کالینباچ نے یہ بیان عالمی صیہونی آرگنائزیشن کے صدر چیم ویزمین کے حوالے اس ہدایت کے ساتھ کیا، کہ گاندھی اسکی تشہیر نہیں چاہتے ہیں۔ کیونکہ اس سے عرب بھڑک جائیں گے۔ گاندھی کے ہاتھ کے لکھے اس بیان کی کاپی دہلی کے نیشنل آرکائیوز میں موجود نہیں ہے، مگریہ من و عن یروشلم کے سنٹرل صیہونی آر کائیوز کا حصہ ہے۔بتایا جاتا ہے کہ رابندر ناتھ ٹیگور نے بھی ان سے ملاقات کےلئے آئے ایک یہودی ڈیلی گیشن کو بتایا کہ ان کی میٹنگ کی تفصیلات کو افشانہ کیا جائے، جس میں انہوں نے یہودی قوم پرستی کی حمایت کی تھی۔
ہندوستان کے ایک مقتدر سفارت کار اور جواہر لال نہرو کے دست راست کے ایم پانیکر ، جو علی گڑھ یونیورسٹی میں پروفیسر بھی رہے ہیں نے اپریل 1947 میں ’ہندو ۔صیہونی تعلقات ‘ کے عنوان سے ایک خفیہ میمورنڈم تحریر کیا تھا۔ پانیکر بعد میں چین اور مصر میں ہندوستان کے سفیر رہے۔تاہم کتاب کا اہم انکشاف عالمی جنگ کے خاتمہ کے بعد 8 مارچ 1946 کو گاندھی کی ورلڈ یہودی کانگریس کے رکن ہونیک اور برطانوی پارلیامنٹ کے لیبر پارٹی کے رکن سڈنی سلورمین کے ساتھ ہوئی میٹنگ کے مندرجات ہیں۔ گاندھی کے سیکریٹری پیارے لال اس میٹنگ میں شامل تھے اور وہ نوٹس لے رہے تھے۔ان نوٹس کے مطابق گاندھی نے ان دونوں یہودی لیڈروں کو بتایا’کہ ان (گاندھی) کے کام کی کچھ حدیں مقرر ہیں۔ جب تک آپ لوگ ہندوستان میں مسلمانوں کی ہمدردیا ں حاصل نہیں کر پائیں گے۔ مجھے ڈرہے کہ آپ لوگوں کی حمایت کےلئے ہندوستا ن میں کچھ نہیں کیا جاسکتا۔‘ میٹنگ کے اختتام پر گاندھی نے دوبار ہ کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ عرب اسرائیل تنازعہ کا کوئی پر امن اور منصفانہ حل تلاش کیا جاسکے۔ اس نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ کانگریس کے صدر ابو الکلام آزاد اورمحمد علی جناح سے ملاقات کریں اور ان کی ہمدردی بٹورنے کی کوشش کریں۔دونوں نے کہا کہ یہ ایک ناممکن کام ہے۔ گاندھی نے کہا:
’ہاں اس میں مشکلات ہیں، مگر ناممکنات میں نہیں ہے‘۔ یہودی لیڈروں نے سوال کیا کہ ’کیا آپ کے خیال میں جناح ہماری بات سننے پر راضی ہونگے؟‘ گاندھی نے جواب دیا ’ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ بھی مسلمانوں کےلئے ایک علیٰحدہ وطن کا مطالبہ مذہب کی بنیاد پرہی کر رہے ہیں۔‘ اسکے بعد انہوں نے پوچھا کہ’ کیا اس بات چیت سے وہ یہ نتیجہ اخذ کریں کہ گاندھی یہودیوں کےلئے ایک علیٰحدہ وطن کے حامی ہیں؟‘
پیارے لال کے ریکارڈزاور ہندوستان کے نیشنل آرکاوئز میں اس سوال کا جواب درج نہیں ہے۔ پیار ے لال کے پیپرز کے مطابق دونوں لیڈروں اور گاندھی نے قہقہہ کے ساتھ میٹنگ ختم کی۔ مگر کتاب کے مصنف پروفیسر پی آر کمار سوامی نے گاندھی کے امریکن تذکرہ نویس لوئیس فشر کے کاغذات کا جائزہ لیکر پایا کہ گاندھی نے یہودی لیڈروں کے سوال کا خاصا مدلل جواب دیا ہے۔ فشر کے مطابق گاندھی نے اس کی تصدیق بھی کی ، مگر اسکی تشہیر سے منع کیا۔ گاندھی نے فشر کو کہا
یہودیوں کا مقدمہ مضبوط ہے۔ میں نے سڈنی سلورمین کو کہا کہ یہودیوں کا فلسطین پر دعویٰ مضبو ط ہے۔ اگر عرب فلسطین پر دعویٰ کرتے ہیں، تو یہودیوں کا دعویٰ تو اس سے بھی پرانا ہے“۔
:بعد میں 14جولائی 1946کے ہریجن کے شمارہ میں گاندھی نے لکھا کہ
’ اگر یورپ میں یہودیوں پر ظلم و ستم نہ ڈھائے گئے ہوتے تو شاید ان کے فلسطین واپس جانے کا سوال ہی کھڑا نہیں ہوتا ۔ انکی ممتاز خدمات کے عوض پوری دنیا انکا گھر ہوسکتا تھا۔‘
مگر گاندھی یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ اگر ظلم و ستم یورپ میں عیسائیوں نے کیا، تو فلسطین کے مسلمانوں اور عربوں سے اسکا بدلہ کیسے لیا جاسکتا تھا؟ یورپ کے عیسائیوں کے گناہوں کے عوض 5000 سالوں سے فلسطین میں رہنے والے مکینوں کو گھروں سے بے گھر کرکے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر کیسے مجبور کرایا جاسکتا تھا؟
میں ایک واقعہ کا چشم دید گواہ ہوں۔2010میں چنندہ ہندوستانی صحافیوں کی معیت میں ، میں اسرائیل اور فلسطین کے دورہ کے دوران جب یروشلم پہنچا تو اسی دن اخبار میں ایک پرانے یروشلم شہرکے مسکین ایک فلسطینی خاندان کی ایک تصویر دیکھی جو اپنے گھر کے باہر سڑک پر بے آسرا پڑا تھا ۔ معلوم ہواکہ یہ خاندان مع خواتین اور بچوں کے اپنے کسی رشتہ دار کی شادی میں شرکت کی غرض سے شہر کے باہر گئے ہوئے تھے۔ ایک ہفتے کے بعد جب وہ خو ش وہ خرم واپس اپنے گھر پہنچے تو دیکھا کہ تالا ٹوٹا ہوا ہے اور کسی یہودی خاندان نے وہاں ڈیرا ڈالا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ ان کی عدم موجودگی میں حکومت نے ان کا گھرقبضے میں لیکر اسکو کسی یہودی خاندان کو تفویض کیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو اسرائیلی سیکورٹی دستے انکو مغربی کنارہ میں ریفوجیوں کی بستی میں دھکیلنے کےلئے لاو لشکر سمیت ٹرک وغیرہ لیکر پہنچے تھے۔
بھلا ہو سابق نائب صدر حامد انصاری کا، جنہوں نے اس کتاب کے اجرا ء کے دوران واضع کیا کہ وہ یہودیت اور اسکے سیاسی بازو صیہونیت میں تفریق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا گو کہ وہ یہودیت کو ایک قدیمی مذہب کے رو سے تسلیم کرتے ہیں، مگر صیہونیت موجودہ دور کی دہشت گردی کی مادر ہے۔ انصاری جو خود بھی سفارت کار رہے ہیں اور ہندوستان میں مغربی ایشیا اور خلیج کے معاملوں کے تئیں ایک ایکسپرٹ کا درجہ رکھتے ہیں نے کہا کہ جس طرح صیہونیت نے مذہب کا سہار الیکر اور اسکی تشریح کرکے تشدد کو ہوا دی، کچھ اسی کی پیروی کرکے آج دنیا کے مختلف خطوں میں مذہب کی تشریح کرکے دیگر افراد اور تنظیمیں دہشت گردی اور تشدد کو جائز قراد دے رہی ہیں۔مورخ پال جانسن کا حوالہ دیکر انصار ی نے کہا کہ اسرائیل کے چھٹے وزیر اعظم میناخم بیگن موجودہ دور اور ماڈرن دہشت گردی کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کے موجد ہیں۔اور ابھی بھی مواخذہ سے دور ہیں۔
( مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر