ادبستان

انورجلال پوری: میرا ہر شعر حقیقت کی ہے زندہ تصویر

اترپردیش حکومت کی جانب سے2015میں اردو شاعری میں گیتا کے لیے انورجلال پوری کو یش بھارتی  ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

AnwarJalalpuri_Rekhta

Photo Credit : Rekhta.org

بھگوت گیتا کا  منظوم ترجمہ کرنے والے مشہور شاعر اور ناظم مشاعرہ انور جلال پوری ہمارے درمیان نہیں رہے۔ ان کا  علاج لکھنؤ میں کنگ جارج میڈیکل کالج (کے جی ایم ایم یو) میں چل رہا تھا۔ برین ہیمریج کے بعد ان کواسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔آج صبح تقریبا 10 بجے انہوں نے آخری سانس لی۔انور جلالپوری کو کل دوپہر کی نماز کے بعد امبیڈکر نگر کے جلالپور میں سپرد خاک کیا جائےگا۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے ہیں۔

انور جلال پوری مشاعروں میں اپنی  نظامت کے لیے مشہورتھے ۔ابھیشیک چوبے کی فلم  ڈیڑھ عشقیہ  میں بھی وہ ناظم مشاعرہ کے رول میں نظر آئے تھے ۔انہوں نے مشہور ٹی وی سیریل اکبر دی گریٹ کا مکالمہ بھی لکھاتھا۔1982میں انہوں کے بھگوت گیتا کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کے لیے اودھ یونیورسٹی فیض آباد میں رجسٹریشن کروایا تھا ،لیکن وہ یہ کام موضوع کی طوالت کی وجہ سے مکمل نہیں کر سکے۔2015میں اردو شاعری میں گیتا کے لیے ان کو یش بھارتی  ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ان کی شاعری کا رنگ جداگانہ تھا وہ عصری مسائلپر براہ راست خوش اسلوبی کے ساتھ شعر کہتے تھے؛

جلائے ہیں دیے تو پھر ہواؤں پر نظر رکھو

یہ جھونکے ایک پل میں سب چراغوں کو بجھا دیں گے

تم پیار کی سوغات لیے گھر سے تو نکلو

 رستے میں تمہیں کوئی بھی دشمن نہ ملے گا

انور جلا پوری نے بھگوت گیتا  کا منظوم ترجمہ اردو اور ہندی میں کیا تھا۔انھوں نے اپنے اس ترجمے کواردو شاعری میں ’گیتا‘ کا نام دیا ہے۔ انور جلال پوری کا کہنا تھاکہ انھوں نے یہ ترجمہ دونوں زبانوں ہندی اور اردو جاننے والوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا ۔ ان کے انتقال پراردو کے معروف نقاد شارب ردولوی نے کہا ہے کہ انور جلال پوری بہترین شاعر اورناظم کے علاوہ ایک لاجواب انسان تھے۔ ان کا جانا اردو کے ساتھ ساتھ انسانیت کا بھی نقصان ہے ، شارب ردولوي نے یو این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انور جلال پوري کا گیتا کا ترجمہ اب تک کا سب سے  بہترین ترجمہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ انگریزی، اردو، فارسی اور ہندی زبان اچھی طرح جانتے تھے۔

(یواین آئی اردو کے ان پٹ کے ساتھ)