حقوق انسانی

ہندوستان کے سب سے اونچے باندھ کی تعمیرکی مخالفت کیوں؟

اتراکھنڈ میں بن رہے پنچیشور باندھ سے قریب 80ہزار سے زیادہ لوگ متاثر ہوں گے،جس میں خاص طور سے کسان،مزدوراور ماہی گیرہیں۔

فوٹو:سمیت مہار

فوٹو:سمیت مہار

اتراکھنڈ میں بی جے پی کی حکومت بننے سے پہلےہی  پنچیشور باندھ پروجیکٹ  کی تعریف شروع  ہو گئی تھی اور وزیر اعظم نے پتھورا گڑھ میں اپنے انتخابی مہم کے دوران  اس منصوبہ کے تحت ہونے والے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی دل کھول کر تعریف کی تھی۔ پچھلے ایک سال میں منصوبہ کے آغاز کو انجام دینے میں، ریاستی حکومت نے، مقامی عوام کی مخالفت کے باوجود، کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پر کچھ تو کمی رہ گئی کہ پچھلےایک ڈیڑھ مہینے سے اخباروں میں پنچیشور کو لےکر قریب قریب کوئی نئی اطلاع نہیں۔ اس خاموشی کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس منصوبہ سے جڑی تاریخ اور کچھ بنیادی مدعوں پر غور کریں۔

پنچیشور  کثیرمقاصد منصوبہ، جس میں مہاکالی ندی پر ملک کا سب سے اونچا اور دنیا کا دوسرا سب سے اونچا باندھ بنانے کی تجویزہے۔اس کی بنیاد ہندوستان اور نیپال مہاکالی آبی معاہدہ میں 1996 میں پڑی، کیوں کہ یہ ندی دونوں ممالک کی سرحد پر ہے۔ لیکن اس منصوبہ کی تجویز 5 دہائی پرانی ہے اور معاہدہ کو 20 سال ہو جانے کے باوجود یہ منصوبہ اسی لئے لٹکا پڑا تھا کیوں کہ نیپال میں اس معاہدہ کو لےکر حمایت نہیں تھی۔ آخر میں جب 2014 میں دونوں ممالک کی حکومتوں نے منصوبہ پر عمل درآمد کے لئے پنچیشور ترقیاتی اتھارٹی بنائی تب یہ طے ہوا تھا کہ متنازع مدعوں پر DPR بننے کے بعد وضاحت آئے‌گی۔ واپکوس کمپنی کے ذریعے بنائی گئی آدھی ادھوری DPR کو دیکھتے ہوئے یہ تو صاف ہے کہ منصوبہ سے جڑے کئی بنیادی مدعوں پر کوئی جانکاری نہیں ہے، دو نوں ممالک میں آپسی سمجھ بننا تو دور کی بات ہے۔ ایسے میں ریاستی حکومت بازآبادکاری پالیسی بنانے میں جلدبازی کر رہی ہے، افرا تفری میں ماحولیاتی منظوری کے لئے جن شنوائی  بھی کروا دی اور متاثرہ علاقے سے جنگل منظوری کے لئے NOC لینے کا کام بھی شروع کر دیا جس کی لوگ مخالفت کر رہے ہیں۔ یہی نہیں متاثرہ علاقے کے سارے مقامی ترقیاتی منصوبوں کو بھی غیر اعلانیہ طریقے سے روک‌کر رکھا ہوا ہے جب کہ مہاکالی معاہدہ پر ہی سوالیہ  نشان بنا ہوا ہے۔

فوٹو: سمیت مہار

فوٹو: سمیت مہار

حال میں آئی بازآبادکاری پالیسی پر اترااکھنڈ وزارت کے مشوروں اور بیانات کو دیکھ‌کر  یہ تو واضح ہے کہ پنچیشور تقریباً  کثیرمقاصد منصوبہ کے لئے بنی ڈٹیلڈ پروجیکٹ رپورٹ پوری ہونے سے کئی کوس دور ہے۔  وزارت نے خود کچھ بنیادی سوال اٹھائیں ہیں جن کا جواب نہیں ہونے تک بازآبادکاری پالیسی بنانے کا کام آگے بڑھانا ناممکن ہے۔  مثال کے طور پر وزارت نے واپکوس کمپنی کو یہ جانکاری دینے کے لئے کہا ہے کہ منصوبہ سے موجودہ سرکاری اور عوامی جائیدادوں پر کتنا اثر پڑےگا۔  یہ سوال بنیادی ہے اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اس کا اندازہ کئے بنا منصوبہ کی لاگت و منافع تجزیہ آخر واپکوس نے کیسے کیا؟  لاگت و منافع تجزیے میں جو 13700 ہیکٹیر جنگل اور زراعت کی زمین ڈوبنے سے ہونے والا نقصان ہے اس کا بھی کہیں کوئی اندازہ نہیں ہے۔  ماحولیاتی اثرات کی قیمت کا اندازہ بھی اس میں نہیں جڑا ہے۔  اگر ماحولیاتی اور سماجی قیمت کی بات کریں تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ باندھ، جس کی اونچائی 315 میٹر ہے، کا عظیم آبی ذخیرہ، جغرافیائی طورپر سب سے حساس علاقے میں بنے‌گاجہاں زلزلہ کی ہلچل ہوتی رہتی ہے۔

2010 میں ایک بین الاقوامی ادارہ انسٹی ٹیوٹ فار انوائرنمینٹل سائنسیز (IES) کے لئے سائنس دانوں مارک ایورارڈ اور گوروکٹاریہ کی اسٹڈی کے مطابق ؛ اگر صرف مہاکالی گھاٹی  کے موجودہ ماحولیاتی نظام کی خدمات کا اندازہ کیا جائے تو اس منصوبہ کی لاگت، منافع سے کئی گنا زیادہ ہوگی۔  اس مطالعے کے مطابق ہندوستان اور نیپال کو ملاکر وادی کے 80 ہزار سے زیادہ لوگ، جس میں خصوصاً کسان، مزدور، ماہی گیر ہیں، متاثر ہوں‌گے۔اگر باندھ‌کے نیچے کے علاقوں کو جوڑا جائے تو اترپردیش اور بہار کے ان علاقوں کو بھی قیمت چکانی پڑے‌گی جو شاردا کے کنارے بسے ہیں۔  اندازے کے مطابق ندی میں سیلاب آنے سے جائیداد کو ضرور کچھ حد تک نقصان ہوتا ہے لیکن ندی کی روانی رک جانے سے بیش قیمت مٹی ریت جو پلینس کے کھیتوں کو زرخیز بناتی ہے وہ بھی باندھ میں پھنس جائے‌گی۔  سائنس داں یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ خوفناک مقدار میں ریت جمع ہونے سے ڈیم کی عمر بھی کم ہوگی۔  اس مطالعے کے مطابق کل ملاکر دونوں ممالک کی حکومتیں اس باندھ‌کے فائدوں کو بڑھاچڑھاکر بتا رہی ہیں اور اس باندھ سے جڑے نقصانات کا کم اندازہ کر رہی ہیں۔

منافع کے ساتھ ایک بڑا مدعا جس پر کسی کا دھیان نہیں جا رہا ہے۔فائدے کے بٹوارے کا مدعا ہے۔  ہمیں اس بات سے منھ نہیں پھیرنا چاہیےکہ پنچیشور منصوبہ ہندوستان اور نیپال مہاکالی آبی معاہدہ 1996 کا حصہ ہے اور نیپال میں پچھلے 20 سالوں سے معاہدہ پر مکمل سیاسی اتفاق نہیں بن پایا ہے۔  عدم اتفاق کے پیچھے کے کئی وجہیں ہیں جن میں سے خاص وجہ تو ہندوستان اور نیپال کے سیاسی تعلقات میں ہندوستان کا حاوی ہونا ہے، خاص کر مہاکالی / شاردا کے پانی کے استعمال میں۔  اس کے علاوہ مہاکالی معاہدہ کے آرٹیکل 3 کے اہتماموں پر وضاحت نہ ہونا ایک بڑی وجہ ہے۔  اس آرٹیکل میں یہ طے تھا کہ پنچیشور باندھ سے بننے والی (اضافی) بجلی نیپال ، ہندوستان کو بیچے‌گا۔  پر کس قیمت پر بیچے‌گا اور ہندوستان کو اس قیمت پر ہی خریدنا ضروری ہوگا یہ واضح نہیں تھا۔  ساتھ ہی مہاکالی ندی کےOrigin اور پانی کے بٹوارے پر بھی نہیں تھا۔  کئی سالوں کے تعطل کے بعد اس معاہدہ کو 2012 میں دونوںممالک کے ذریعے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش  کی گئی حالانکہ آرٹیکل 3 کو لےکر دھندلاپن بنا رہا۔  2014 میں مودی حکومت نے نیپال کی توانائی اور انفراسٹرکچر تعمیر کے لئے ہزار کروڑ کا قرض کی رقم اعلان کیا۔ اس کے بعد پنچیشور باندھ پر نیپال کا رخ کچھ بدلا۔  لیکن 2014 میں جب دونوں ممالک نے پنچیشور ترقیاتی اتھارٹی کی تشکیل کی،  تب یہ طے کیا کی متنازع مدعا، DPR بننے کے عمل میں سلجھائے جائیں‌گے۔  نہ صرف نیپال بلکہ ہندوستان میں بھی دانشوروں اور ماہرینِ ماحولیات نے مہاکالی معاہدہ کے مستقبل کو لےکر سوال اٹھائیں ہیں۔

فوٹو: سمیت مہار

فوٹو: سمیت مہار

DPR اور EIA کے مطابق اس منصوبہ سے 9116 ملین یونٹ بجلی کی پیداوار کی جائے‌گی 90 فیصد انحصار پر۔  قدامت پسند اندازہ بھی لگائیں تو اس منصوبہ سے جو بجلی پیدا ہوگی اس کی شرح 6 سے 8 روپے کے بیچ میں ہوگی۔  ” آج کے دن بجلی بازار میں 3 روپے فی یونٹ سے زیادہ شرح پر کوئی خریدار نہیں ہیں جس کے سبب کئی زیرِتعمیر آبی بجلی منصوبہ ٹھپ پڑے ہیں “، باندھوں اور پانی کے ماہر ہمانشو ٹھکّر کہتے ہیں۔ اگر نیپال کی یہ سمجھ ہے کہ پوری اضافی بجلی جو کے نیپال کے خرچ سے کہیں زیادہ ہے، ہندوستان خریدنے والا ہے-تو یہ مانناشاید غلط  ہوگا۔  اگر شرح طے کرنے کا حق ہندوستان کو ملتا ہے تو نیپال کے لئے پنچیشور منصوبہ بڑے نقصان کا معاہدہ ہوگا۔  آخر جب باندھوں کی بجلی اور آبی بجلی اتنی مہنگی ہے تو ہماری حکومت یہ منصوبہ کیوں بنا رہی ہے۔

ہمارے رہنما معاوضے اور بازآبادکاری کی بات کرکے عوام کا دھیان بھٹکا رہے ہیں جب کہ اصلی سوال تو یہ ہے کہ پنچیشور منصوبہ جیسی تعمیر کی جب بنیاد ہی غلط ہے اور تنازعات میں گھری ہے، یہ بھی  واضح نہیں کہ اس کا مقصد پورا ہوگا یا نہیں، کہ بجلی کتنے میں بنے‌گی اور کون کس دام میں خریدے‌گا تو مہاکالی وادی میں بسے دونوں طرف کے لوگوں کو خوف زدہ کیوں کیا جا رہا ہے؟  کیوں حکومت سماجی ترقیاتی کاموں کی طرف دھیان نہیں دے رہی؟  اور آخر اس منصوبہ کے بننے سے  کس کو فائدہ ہوگا؟  اس میں اتراکھنڈ کے تین ضلعوں (الموڑا، چمپاوت اور پتھورا گڑھ) کے 31023 فیملی متاثر ہوں‌گے۔  کئی حالیہ اخبار رپورٹوں کے مطابق، منصوبہ سے متاثرین  فیملیوں کو زمین کو بازار یا سرکل دام کا 4 گنا (مجوزہ) نہیں بلکہ 6 گنا معاوضہ ملے‌گا۔

فوٹو:پی ٹی آئی

فوٹو:پی ٹی آئی

مہاکالی لوک سنگھٹن کے پرکاش بھنڈاری کے مطابق، ” اس جُھن جھنے کو منصوبہ متاثروں کے سامنے ہلایا جا رہا ہے اور اس کو تمام مسائل کے حل‌کی  شکل میں پیش کیا جا رہا ہے، لیکن حقیقت میں اگر ہم معاوضے کے اعداد و شمار کو باریکی سے دیکھیں تو اس سے دو حقیقت واضح طور پر سامنے آتی ہیں۔  پہلے صرف ایک ہی گاؤں میں نجی زمین کے کل معاوضے کی 65 فیصدرقم خرچ ہونی ہے۔  دوسرا، کل متاثر فیملیوں میں سے 80 فیصدحاصل  ہونے والی زرخیز اور مکمل زمین کے بدلے بہت ہی کم معاوضہ ملے‌گا۔  اس سے واضح ہے کہ یہ منصوبہ منتقل ہونے والی ہزاروں فیملی کو غریبی اور اقتصادی بحران کی طرف دھکیلے‌گا “۔  اس عدم مساوات کی ابتدائی وجہ یہ دکھائی دیتی ہے کہ الگ الگ گاؤں کی حالت اور سڑک اور بازاروں سے نزدیکی کی بنیاد پر، ذاتی زمین کا سرکل داموں میں بہت بڑا فرق ہے۔

متاثرہ علاقے میں ایسے کئی گاؤں ہیں جو آج بھی سڑک، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات کے انتظار میں ہیں۔  کئی پشتوں کی سخت محنت سے دیہاتیوں نے اپنی زمین اور جنگلات سے ذریعہ معاش کے وسائل پیدا کئے ہیں-وہ انتظار میں ہیں کہ ان ذرائع کو اور مضبوط کیا جائے-نقل مکانی تو انہوں نے کبھی مانگی ہی نہیں تھی،اور جس کی مانگ سالوں سے ہے اس کی کوئی شنوائی نہیں۔  ذریعہ معاش کے بنیادی سوال کے ساتھ ہی جڑا ہے وادی کے دونوں طرف بسے مقامی لوگوں کےمذہبی عقیدہ کا سوال اور پنچیشور، تالیشور، اور کئی دیگر دیوی دیوتا مقامات کی تہذیبی وراثت جو اس باندھ میں آبدوز ہو جائے‌گی۔  انہی مدعوں کو لےکر مہاکالی وادی میں مخالفت کی آواز آہستہ آہستہ اونچی ہو رہی ہیں، اور جلدبازی میں جن سوالوں سے دونوں حکومتیں بچنے کی کوشش میں ہیں-ان کے جواب دینا وقت کے ساتھ اور بھی مشکل ہوگا۔

(مضمون نگار ہم دھرا ماحولیات گروپ سے وابستہ ہیں)