اتر پردیش ضمنی انتخاب میں منھ کی کھانے کے بعد بی جے پی کو لگنے لگا ہے کہ 2019 میں اس کی ناؤترقی سے نہیں بلکہ فسادات اور اس سے ہونے والے ووٹ کے پولرائزیشن سے پار لگےگی۔
مودی لہر اور’ سب کا ساتھ،سب کا وکاس ‘ کا ڈھول پیٹنے والی پارٹی اچانک ہندوتوکے ایجنڈے پر واپس لوٹ گئی ہے۔ بی جے پی نے دسہرے کے بہانے کا بھی انتظار نہ کر کے بہار اور بنگال میں رام نومی پر ہی مسلح جلوس نکال دیا۔اور، جیسا متوقع تھا! فسادات بھڑکے! اور ہندو و مسلم بحث ایک بار پھر ٹی وی ڈبیٹ کے سینٹر اسٹیج پر آ گئی اور مذہبی بنیاد پر پولرائزیشن کا عمل تیز ہو گیا۔اس سے یہ صاف ہو گیا ہے کہ اتر پردیش میں دلت اور پسماندہ کے ساتھ مسلم ووٹ کی بوآ بھتیجہ کی ہمنوائی نے شاہ و مودی کی جس چال کو شکست دی، اس کی کاٹ وکاس میں نہیں فسادات اور اس کے بعد ووٹوں کے مذہبی پولرائزیشن میں ہے!ان ووٹوں کے ایک بلاک میں آنے کا خمیازہ بی جے پی نے بہار اسمبلی انتخاب میں بھی بھگتا تھا۔ اور اس ہم نوائی نے ہمیشہ بی جے پی کا راستہ روکا ہے۔ ویسے بھی، کارپوریٹ لوٹ سے خالی پڑے بینکوں سے مودی حکومت کے بچے ہوئے ایک سال میں بھڑکے ہوئے کروڑوں بےروزگار نوجوانوں کو نوکری دینا تو ناممکن ہے! ہاں، ان کے غصے کو بھڑکاکر ووٹوں کا پولرائزیشن کرنا آسان ہے۔
اس کے علاوہ 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں رام مندرکی تعمیر کو لےکر وشو ہندو پریشد کے پروین توگڑیا جو مودی کی قیادت یا ہندو ایجنڈے کے تئیں ان کی نیت پر سوال اٹھا رہے ہیں، اس کے لئے بھی رام کو مندر تحریک تک محدود نہ رکھکر رام نومی کے روپ میں سڑک پر لانا ضروری تھا۔اگر فسادات کی تاریخ اٹھا کر دیکھا جائے تو بہار اور بنگال نے فسادات میں جتنا کھویا ہے، شاید پورے ملک کے کسی صوبے نے اتنا کھویا اور برداشت نہیں کیا ہوگا۔فساد متاثر ان دونوں ہی ریاستوں میں اس کو ہوا دینے کے لئے پرانے زخموں اور یادوں کی کھاد تو ہمیشہ رہتی ہے ؛ بس ضرورت ہوتی ہے، اس کو کریدنے کی۔
بہار میں اکیلے 1989 کے بھاگل پور فساد میں 1000 لوگ مارے گئے تھے۔ اس سے کانگریس بہار سے جو اکھڑی تو آج تک واپس نہیں آئی۔ اور اس سے سبق لےکر بہار میں لالو نے دلت، پچھڑوں اور مسلم ووٹوں کے اتحاد کے سہارے اقتدار کا راستہ بنایا جس کی وجہ سے بہار ررام جنم بھومی تحریک کے دور میں بھی فسادات سے محفوظ رہا۔اور اقتدار کا یہ توازن ابھی تک نتیش لالو جوڑی کے روپ میں بچا ہوا تھا لیکن نتیش کے اوپر اپنا دبدبہ قائم کرنے کے لئے اس اتحاد کو توڑنا بی جے پی کے لئے ضروری تھا۔اس لئے نتیش کے این ڈی اے میں واپس آنے کے بعد بہار میں فرقہ وارانہ تشدد کے 200 معاملے سامنے آئے ہے ؛ اس میں سے 64 تو صرف اس سال کے ہیں۔
اتناہی نہیں اس بار رام نومی پر بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کے ساتھ جلوس نکالا گیا ؛ اور آنے والے وقت میں بڑے موبلائزیشن کا اندیشہ بہار کے ڈی جی پی نے جتایا ہے۔اسی طرح، بنگال میں پہلے مارکس وادی اور اس کے بعد ممتا بنرجی کی جیت میں دلت، پچھڑوں اور مسلم ووٹوں کا یہ اتحاد اہم رہا ہے۔ وہاں بھی اس کو توڑنے کے لئے پچھلے دو سالوں سے لگاتار فرقہ پرستی کا ماحول تیار کیا جا رہا تھا۔
حال ہی میں رام نومی پر آسنسول میں ہوئے فسادات سے یہ صاف ہو گیا ہے کہ بی جے پی اپنے مقصد میں کامیاب رہی ہے۔ لیکن ایسی کیا وجہ ہے کہ مودی لہر کا دعویٰ کرنے والی پارٹی واپس ہندوتوا پر لوٹ آئی ہے۔اصل میں شمال و مشرق کی ریاستوں کے انتخابی نتائج کے بعد چاروں طرف مودی لہر کی جیت کا جشن ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ راجستھان اور مدھیہ پردیش کے ضمنی انتخاب میں ہارکے بعد اتر پردیش میں وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور نائب وزیراعلی کیشو پرساد موریہ کے لوک سبھا حلقے سے آئی ہار کی خبر نے مودی اورشاہ کی جوڑی کوغور و فکر پر مجبورکر دیا۔
اس ہارکے بعد ایسا لگا رہا تھا کہ مودی اور شاہ کی ہم نوائی کچھ کڑے فیصلہ لیتے ہوئے، ہندوتوا کے ایجنڈےکو بازو میں رکھ کر یوگی کو باہر کا راستہ دکھائےگی اور ترقی کے ایجنڈے پر فوکس کرےگی لیکن ایسا نہیں ہوا! حالانکہ 2019 کا لوک سبھا انتخاب وکاس پُرشمودی کی نام نہاد لہر پر نہیں بلکہ ہندوتواکے مدعے پر لڑا جائےگا، یہ تبھی واضح ہو گیا تھا جب بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ نے اتر پردیش اسمبلی انتخاب کی تاریخی جیتکے باوجود مودی کے ترقی کے وعدوں اور دعووں کو عملی جامہ پہنانے والے رہنما کو کرسی پر بٹھانے کے بجائے گورکھ پیٹھ کے سربراہ اور ہندویووا واہنی کے بانی یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیراعلیٰ کے عہدے پر بٹھایا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ امت شاہ اور مودی کے درمیان یہ یوگی کا اتر پردیش کیوں ہوا؟ کیوں اتر پردیش لوک سبھا ضمنی انتخاب میں یوگی کے حلقے سے ہارکے بعد وہ اس عہدے پر بنے ہوئے ہیں؟صاف ہے تمام انتظامی کمزوریوں کے باوجود ملک میں لوک سبھا میں سب سے زیادہ رکن پارلیمان بھیجنے والی ریاست اتر پردیش میں یوگی جیسے کٹّر ہندووادی رہنما کو ہٹاکر مودی اورشاہ اپنے ہندووادی ایجنڈے کو کمزور نہیں کرنا چاہتے۔اصل میں امت شاہ یہ جانتے ہیں کہ اگر ملک میں صحیح معنوں میں مودی لہر ہوتی تو وہ بہار کے بعد پنجاب میں اتنی بری طرح نہیں ہارتے اور نہ ہی گووا میں عزت بچانے کے لئے اتنا سب لٹانا پڑتا۔مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سیاست میں بھی بازار کی ہی طرح وہی برانڈ بکتا ہے، جس کی مارکیٹنگ بہترین ہو اور لوگوں کو بار بار یہ احساس کرایا جانا ضروری ہوتا ہے کہ ان کی مصنوعات سب سے بہترین ہے۔
اس لئے ریاستوں کے انتخابی نتیجوں کے سامنے آنے کے بعد سے کسی کمپنی کے سی ای او کی طرح وہ نریندر مودی کی برانڈ امیج کو چمکانے میں یکجا ہو جاتے ہیں۔اگر ہم 2014 کے بعد سے ملک میں ہوئے اسمبلی انتخابات کے نتیجوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ سمجھ آ جائےگا کہ زیادہ تر ریاستوں میں حکمراں پارٹی کے خلاف ایک اقتدار مخالف لہرکی وجہ سے بی جے پی نے حکومت ضرور بنائی لیکن کئی جگہ اپنا ووٹ فیصد پہلے کے مقابلے بہتر بھی کیا لیکن وہ مودی لہر اور مرکز میں مضبوط اور مقبول عام حکومت کی وجہ سے کہیں بھی کوئی ایسا بڑا عوامی فرمان نہیں حاصل کر پائی، جس سے ہم یہ کہہ سکیں جیسا امت شاہ نے کہا تھا، ‘ پورے ملک میں مودی لہر ہے اور وہ آزادی کے بعدکے ملک کے سب سے بڑے رہنما ہیں۔ ‘
لوک سبھا میں مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سب سے پہلے اکتوبر،نومبر 2014 میں مہاراشٹر، ہریانہ، جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخاب ہوئے تھے۔ہم پہلے مہاراشٹر کے نتیجوں کو دیکھیں یہاں بڑے ووٹوں سے انتخاب جیتنے کے لئے بی جے پی کے لئے ہر طرح سے سازگار ماحول تھا۔ جیسے، گزشتہ 15 سالوں سے کانگریس اور رنیشنل کانگریس پارٹی کی حکومت اقتدار میں تھی، اس لئے وہاں ایک اقتدار مخالف لہر تھی۔
دوسرا، کانگریس اور نیشنل کانگریس پارٹی الگ الگ انتخاب لڑ رہے تھے۔ تیسرا، مرکز کی کانگریس حکومت سے ناراضگی تازہ تھی اور بی جے پی کو مرکز میں مقبول عام حکومت اور رہنما ہونے کا فائدہ بھی تھا۔کروڑوں روپے کی لاگت سے مہاراشٹر کے ہر اخبار میں خصوصی صفحے پر پورے پیج کےمودی کی اپیل والا اشتہار تک دیا گیا تھا۔ اتناہی نہیں، بی جے پی کے 261 امیدواروں میں سے 50 دیگر پارٹیوں کو چھوڑکر آئے رہنما تھے۔ کانگریس اور نیشنل کانگریس پارٹی کے الگ الگ انتخاب لڑنے کے باوجود بی جے پی کو 288 میں سے 122 سیٹیں ہی ملیں۔
اسی طرح سے ہریانہ میں بھی پچھلے 10 سالوں سے بھوپیندر سنگھ ہڈا کی قیادت میں کانگریس حکومت ہونے سے ایک اقتدار مخالف لہر تھی۔ جس کی وجہ سے یہاں بی جے پی کا ضرور ووٹ فیصد 9 سے بڑھکر 33 ہوا ؛ لیکن اس کو 90 میں سے 47 سیٹیں ہی ملیں۔جھارکھنڈ میں بی جے پی کا ووٹ فیصد 2009 میں 24.44 تھا جو آل انڈیا جھارکھنڈ اسٹوڈنٹس یونین کے ساتھ انتخاب سابقہ اتحاد اور اقتدار مخالف لہرکی وجہ سے2014 میں یہ بڑھکر 35.16 ہو گیا۔ جموں و کشمیر میں بی جے پی نے ضرور جموںحلقے میں تمام سیٹیں جیتیں لیکن اس کے پیچھے کے اسباب اور بھی ہیں۔
اب اگر ہم اس کے بعد فروری 2015 میں ہوئے دہلی اسمبلی انتخاب کے نتیجے دیکھیں تو یہ نکلکر آئےگا کہ مودی لہر کی اروند کیجریوال کے سامنے بری طرح شکست ہو گئی۔اتنی بھاری اکثریتتو مودی جی کو اتر پردیش میں بھی نہیں ملی۔ یہاں بھی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے نام پر ووٹ مانگے تھے ؛ ووٹ مانگتے ہوئے ہر اخبار میں ان کا خصوصی پیج پر اشتہار بھی تھا۔ اور ساتھ ہی سارے مرکزی کابینہ انتخابی تشہیر میں اترےتھے۔ یہاں 2013 میں 70 سیٹ کی اسمبلی میں بی جے پی کی 31 سیٹیں تھیں ؛ وہ 2015 میں گھٹکر محض 3 رہ گئیں۔
اس کے بعد نومبر 2015 میں بہار انتخاب ہوئے۔ یہاں بھی مودی جی نے اپنے نام پر ہی ووٹ مانگے اور انتخاب میں گئوکشی سے لےکر ووٹ کا پولرائزیشن کرنے کے لئے کے سارے مدعے اٹھائے۔اقتدار مخالف لہر بھنائی جا سکتی تھی لیکن وہاں ان کی سیٹ 91 سے گرکر 53 رہ گئی۔ وہیں، اس کےمقابلے جدیو، راجد اور کانگریس کے اتحاد نے تقریباً تین چوتھائی سیٹیں پائیں۔ کیونکہ وہاں بی جے پی کی مذہبی تقسیم کو نتیش، لالو اور کانگریس کے اتحاد نے شکست دے دی تھی۔
اس کے بعد اپریل-مئی 2016 میں مغربی بنگال، تمل ناڈو، پانڈی چیری، آسام، کیرل میں ہوئے انتخابی نتیجوں پر ایک نظر ڈالیں۔ اس میں بی جے پی کو ہندووادی اور اقتدار مخالف لہر کے علاوہ سی بی آئی کے ذریعے ترنمول کانگریس کے رہنماؤں کی تفتیش سے بھی فائدے کی امید تھی۔لیکن مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کے کام کا ڈنکا تھا اس لئے اقتدار مخالف اور مودی لہر وہاں بھی کام نہیں کر پائی اور ترنمول کانگریس نے تین چوتھائی سیٹوں پر جیت پائی-293 میں سے 211۔
یہاں بی جے پی نے تین سیٹیں ضرور جیتی اور ووٹ میں اس کی حصےداری 4.14 سے بڑھکر 10.28 فیصد ہو گئی۔ تمل ناڈو میں جئے للتا کی اے آئی اے ڈی ایم کے نے پھر سے اقتدار حاصل کیا ؛ یہاں بھاجپا کی ووٹ حصےداری 2.55 سے بڑھکر 3.57 فیصد بھر ہوئی۔کیرل میں اقتدار مخالف لہر بی جے پی نے نہیں بلکہ لیفٹ اتحاد نے بھنائی ؛ حالانکہ بی جے پی نے پہلی بار ایک سیٹ جیتی۔ 2009 میں اس نے 140 میں سے 138 پر انتخاب لڑا تھا۔ تب اس کا ووٹ فیصد چھ تھا ؛ 2016 میں اس نے این ڈی اے اتحاد میں صرف 90 سیٹوں پر انتخاب لڑا تو اس کا ووٹ فیصد بڑھکر 15 ہو گیا۔
پانڈی چیری میں وہ کوئی سیٹ نہیں جیت پائی۔ آسام میں بی جے پی اتحاد نے ضرور 126 میں سے 86 سیٹیں پائیں لیکن یہ جیت بھی مودی لہر نہیں بلکہ : ایک تو کانگریس کے ذریعے آل انڈیا ڈیموکریٹک فرنٹ کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کر پانے کی وجہ سے ؛ اور دوسری بی جے پی کے ذریعے آسام گن پریشد اور بوڈو پیپلس فرنٹ کے ساتھ سمجھوتہ تھا۔بوڈو پیپلس فرنٹ پہلے کانگریس کے ساتھ تھی لیکن 2014 میں دہلی میں حکومت بدلنے کے ساتھ بی جے پی نے بوڈو ٹرائبل کاؤنسل کو 1000 کروڑ روپے کے پیکیج کے ساتھ سب الٹا پلٹا کر دیا۔ہم امت شاہ کے دعوے کو شمال مشرقی ریاستوں کے پہلے دیگر پانچ ریاستوں کے نتیجوں کے تناظر میں دیکھیں۔ ان پانچ ریاستوں میں نتیجوں پر اگر کوئی ایک معیار نافذ ہوتا ہے تو وہ ہے، حکمراں جماعت کے خلاف بھاری عدم اطمینان۔
اس عدم اطمینان کی وجہ سے اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں اہم حزب مخالف جماعت کے طور پر بی جے پی نے اور پنجاب میں کانگریس نے بی جے پی اتحاد کے خلاف تقریباً تین چوتھائی سیٹیں حاصل کی۔گووا میں تو بھاجپا کے نتیجے کافی برے رہے ہیں۔ یہاں وزیراعلیٰ لکشمی کانت پارسیکر سمیت آٹھ میں سے چھ وزیر انتخاب ہار گئے اور یہ تب ہوا جب وزیر دفاع منوہر پریکر پچھلے دو مہینے سے گووا میں انتخاب کی کمان سنبھالے ہوئے تھے۔
اگر وہاں کانگریس انتخاب سے قبل اتحاد کر لیتی تو شاید وہاں بی جے پیدو تین سیٹوں پر ہی سمٹ جاتی۔ یہ الگ بات ہے، انہوں نے ہر طرح کا کھیل کھیلا اوروزیر دفاع منوہر پریکر کو دوبارہ وزیراعلیٰ بنوا دیا۔اب اگر ہم شمال مشرق کے انتخابات کی بات کریں تو ایک تو وہاں اقتدار مخالف لہر اور نارتھ ایسٹرن ڈیموکریٹک الائنز کے نام پر جتنے بھی ماضی کے اور موجودہ علیحدگی پسند تحریکیں تھیں ان کے ساتھ اتحاد بنگلہ دیشی مداخلت کے مدعے نے بی جے پی کو کامیابی دلائی۔ اس میں مودی لہر کا سہارا نہیں تھا۔
اوپر کے اعداد و شمار ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ملک میں مودی لہر نہیں ہے۔ ہاں، ہندوتوا کے ساتھ ہر ریاست میں مختلف مخالف پارٹیوں سے نکالے گئے رہنماؤں اور پوری حکمت عملی کے ساتھ بی جے پی کی سوچ سے میل نہ کھانے والی پارٹیوں سے بھی اتحاد نے ان کو کامیابی ضرور دی ہے۔لیکن وہ خصوصاً ریاستوں میں اقتدار مخالف لہر کا فائدہ لےکر بڑےبڑے وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے۔ بی جے پی کو اقتدار میں لے جانے والے پورے کاؤ-بیلٹ میں بھی 2019 کے انتخاب میں اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ میں ریاست کی بی جے پی حکومت کے تئیں اقتدار مخالف لہر تیز ہے ؛ اور اب تو بہار میں بھی ریاستی حکومت مخالف لہر اس کے خلاف ہی جائےگی۔
اس کے علاوہ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان جیسے قبائلی اکثریتی ریاستوں میں جو سنگھ نے پکڑ بنائی تھی، وہ ان کے ریزرویشن مخالف رویے نے کافی ڈھیلی کر دی ہے ؛ یہاں کا پڑھالکھا آدیواسی نوجوان، دلت نوجوانوں کے ساتھ ملکر کافی حد تک بھاجپا کی اس ریزرویشن مخالف پالیسی کے خلاف فعال ہیں۔حالانکہ، جیسا دی وائر میں لکھے اپنے مضمون میں محمدسجاد نے کہنے کی کوشش کی ہے کہ ہندتواکا مدعا نہ صرف اتر پردیش اور بہار میں مخالف اتحاد کو شکست دینے کے لئے ہے بلکہ ذات برادری والے ووٹ کی تقسیم سے بی جے پی کو ہر ریاست میں نقصان ہوگا۔
یہ ہم پٹیل مخالفت میں گجرات میں دیکھ چکے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور بڑی وجہ ہے، 22 ریاستوں میں اپنی حکومت ہونے کا جو روحانی سکون وہ ابھی بھوگ رہے ہیں 2019 میں اقتدار مخالف لہرکی وجہ سے وہ ان کو نقصان ہی دےگا۔ یہ بات بی جے پی کی حکمتِ عملی بنانے والے آج کے چانکیہ اور مودی کو آزادی کے بعد کے سب سے بڑے رہنما بتانے والے امت شاہ اچھی طرح جانتے ہیں۔اس لئے، ووٹ کا مذہبی بنیاد پر تقسیم کر کے وہ نہ صرف دلت-پچھڑے اور مسلم ووٹوں کو ایک ساتھ آنے سے روک سکتے ہیں بلکہ مرکز ی اور ریاستی حکومت کے خلاف اقتدار مخالف لہر کو بھی بےسمت کر پائیںگے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنے آپ کو مذہبی رواداری کا ترجمان کہنے والی پارٹیاں کس طرح سے اپنے اختلاف کو بھلا کر بی جے پی کی اس پرانی اور آزمائی ہوئی چال کا جواب دیتی ہے۔اور کس طرح سے اپنی پرانی غلطیوں سے سبق لیتی ہے اور ملک کو 2019 کے انتخاب کے پہلے ملک کو فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھوکنے سے بچا پاتی ہے۔
(مضمون سماجوادی جن پریشدسے جڑے ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر