خبریں

یہ اظہار رائے کی آزادی کے لئے مایوس کن دور ہے

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اظہاررائے  کی آزادی کو بچائے رکھنے والے ہر قانون کے ہونے کے باوجود اخباروں اور ٹیلی ویژن چینلوں نے بنا مزاحمت کے خود سپردگی کر دی ہے اور اوپر سے آرڈر لینا شروع کر دیا ہے۔

فائل فوٹو : رائٹرس

فائل فوٹو : رائٹرس

اب ہمیں بال کی کھال نکالنا بند کر دینا چاہیے۔  ہم آج کے ہندوستان میں جو دیکھ رہے ہیں وہ نظریاتی کسوٹی پر  فاشزم  ہے یا نہیں، اس کی باریکیوں میں پڑنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔  یہ دلیل کہ یہ 1975 کی ایمرجنسی جیسی نہیں ہے، پوری طرح سے غیر مناسب ہے۔اس طرح کا کتابی تصور سیمینار کے کمرے اور تعلیمی مباحثوں کی چیزیں ہیں، جہاں بڑے بڑے عالم، جو زمینی حقیقت سے زیادہ اصولوں کے متعلق سوچتےہیں، تعریفات کی باریکیوں پر گفتگو کر سکتے ہیں۔  لیکن، ایک ایسے وقت میں ایسا کرنا جب ہم مسلسل  مخالف آوازوں کو دبایا جاتا دیکھ رہے ہیں، ایک بےمعنی قواعد ہے۔

حقیقت میں مخالفت کی آوازوں کو ہی نہیں دبایا جا رہا ہے۔یہاں تک کہ حقیقتوں پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف کانوں میں مدھر رس گھولنے والے جھوٹوں کو ہی اجازت دی جائے‌گی۔میڈیا اہلکار ہونے کے ناطے میرے دوستوں اور میں نے سچائی کی اشاعت کرتے وقت دھمکیوں کے آگے ڈر اور گھبراہٹ کا تجربہ کیا ہے ؛ لیکن آپ میری باتوں پر مت جائیے۔  آپ پنیہ پرسون باجپئی کی ان کی ہی زبانی سنائی گئی آپ بیتی کو پڑھیے کہ کس طرح سے ان کے ٹی وی چینل کے پروپرائٹر نے ان کے شو میں وزیر اعظم نریندر مودی کا نام نہ لینے کی تاکید کی تھی۔

باجپئی اور ان کے شریک کار ملند کھانڈیکر کو اس وقت نوکری گنوانی پڑی جب حقیقتوں اور زمینی رپورٹنگ کے سہارے کی گئی حکومت کی تنقید کرنے والی خبریں طے کی گئیں’حدود کو پار کرنے لگیں’۔لیکن، اتناہی کافی نہیں تھا پچھلے کئی دنوں سے باجپئی کے پروگرام ماسٹراسٹروک، جس نے چینل کی شہرت اور ناظر ین کی تعداد، دونوں میں اضافہ کرنے کا کام کیا تھا، کو کیبل اور سیٹیلائٹ چینلوں سے غائب کر دیا گیا تھا۔نہ ہی یہ صرف میڈیا کے بارے میں ہے، حال کے سالوں میں، مزاحیہ فنکار کنال کامرا کے ایم ایس یونیورسٹی، وڈودرا میں ہونے والے شو کو رد کر دیا گیا۔  یہ کچھ سابق طالب علموں کی اس شکایت کے بعد کیا گیا کہ وہ ‘ غدار وطن ‘ ہیں۔

انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کا شو ‘ 2019 کے انتخابات سے پہلے وڈودرا کے نوجوانوں کے دماغ کو آلودہ کرنے کی ایک نظریاتی سازش ‘تھی۔  آڈیٹوریم کے کنوینر نے کہا کہ ‘ان کو یہ بتایا گیا کہ ان کے شو کا موضوع ملک مخالف اور متنازعہ ہے۔’یہ کسی پرانے طنزیہ ڈراما کی طرح (جب طنز ڈراما لکھے جاتے تھے) دوسری دنیا کا اور جھوٹا لگتا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے اور بےحد خطرناک ہے۔یا پھر مثال کے لئے’ڈائیلاگ آن فریڈم آف ایکسپریشن'(اظہار کی آزادی پر مکالمہ) عنوان سے اس پروگرام کو ہی لیجئے، جس کو اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے طالب علموں کی مخالفت کی وجہ سے دہلی یونیورسٹی نے رد کر دیا۔  سنگھ پریوار کا حصہ اے بی وی پی کے لئے یہ عنوان اپنے آپ میں بغاوت اور فساد کے لائق ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ اظہار کی آزادی کو لےکرہے، جو ان کی اپنی سیرت کے بالکل برعکس ہے۔  دوسری بات، یہ ایک ڈائیلاگ یعنی مکالمہ ہے، جو کہ ایک ایسی تنظیم کے لئے بالکل اجنبی چیز ہے، جہاں سرکاری رائےکے علاوہ کسی دیگر نقطہ نظر کو رکھنے کی کوئی اجازت ہی نہیں ہے۔اظہار کی آزادی پر کسی پروگرام کی اجازت نہ دینا کتنی ستم ظریفی ہے، اس کو وہ نہیں سمجھیں‌گے کیونکہ نہ تو اے بی وی پی اور نہ ہی اس کو منضبط کرنے والے طنز کرتے ہیں۔

ہماری آزادی اور انتہا پسند دانشور طبقے کو اس بات کا اس سے زیادہ کیا ثبوت چاہیے کہ یہ اظہار کی آزادی اور مخالفت کے لئے مشکل دور ہے؟  ہاں، ایمرجنسی کے دوران چیزیں مشکل تھیں اور صحافی جیل میں تھے اور اخبار ویسی خبروں کو چھاپنے سے گھبراتے تھے، جو حکومت کو ناراض کر سکتی تھی، لیکن تب ایک قانون نافذ تھا۔اب اخبار کا پروپرائٹر اپنے ایڈیٹروں کو زبان بند رکھنے یا باہر کا راستہ ناپ لینے کے لئے کہتے ہیں۔  ایڈیٹروں کے معاہدوں کو بیچ میں ہی ختم کر دیا جا رہا ہے۔  میڈیا کمپنیوں پر چھاپا مارا گیا ہے،ان کے چینلوں کے نشریات کو روکا گیا ہے (یا ایسی کوشش کی گئی ہے)، اور صحافیوں کو گولی ماری جا رہی ہے۔کیا یہ اصل میں اتنا الگ ہے؟  تب اور اب کے درمیان مقابلہ کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔  یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اظہار کی آزادی کو بچائے رکھنے والے ہر قانون کے اپنی جگہ پر ہونے کے باوجود اخباروں اور ٹیلی ویژن چینلوں نے بنا مزاحمت کے خود سپردگی کر دی ہے اور اوپر سے آرڈر لینا شروع کر دیا ہے۔

اے بی پی نیوز کے ایڈیٹر ان چیف ملند کھانڈیکراور صحافی پنیہ پرسون باجپئی(فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر)

اے بی پی نیوز کے ایڈیٹر ان چیف ملند کھانڈیکراور صحافی پنیہ پرسون باجپئی/فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر

آنے والا وقت کیسا ہونے والا ہے، اس کے اشارے پہلے سے ہی موجود تھے۔  گجرات میں اپنی مدت کے دوران نریندر مودی نے میڈیا سے دوری بناکر رکھا تھا اور کچھ مواقع پر جب انہوں نے ریاست سے باہر کے صحافیوں سے ملاقات کی، تب انہوں نے ایسے کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا، جو ان کو پسند نہیں آئے یا جو ان کی مخالفت میں جانے والے تھے۔ایک چنے ہوئے اہلکار سے سوال پوچھا جا سکتا ہے یا پوچھا جانا چاہیے،یہ ایک ایسی چیز ہے، جس کو وہ نہ تو سمجھتے ہیں اور نہ جس خیال سے اتفاق رکھتے ہیں۔

وہ حالات کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں اور جب ان کا اختیار کمزور پڑتا ہے،جیسا کہ تب ہوا جب کرن تھاپر ان کا انٹرویو لے رہے تھے، تب وہ اس کو سنبھال نہیں پاتے اور بات چیت بند کر دیتے ہیں۔یہ ایک ایسے وزیر اعظم کی قیادت والی حکومت ہے جو امیج سازی کو لے کر فکر مند ہے، سارے اشتہار، ساری تصویریں، ان کے وزرا کے ذریعے ان کے نام کا اعلان یہ سب ان کو ایک گڑھے گئے چمکتا ہوابھگوان کے طور پر پیش کرنے کے لئے ہوتا ہے، جس کی ہمیشہ تعریف ہونی چاہیے۔انہوں نے شاید ہی کبھی گجرات میں پریس کانفرنسوں کو خطاب کیا اور وزیر اعظم کے طور پر اپنے ساڑھے چار سال کی مدت میں انہوں نے ایک بھی پریس کانفرنس کو خطاب نہیں کیا ہے۔انہوں نے جو کچھ انٹرویو دئے بھی ہیں، وہ ان کے پیروں میں رینگنے والے چاپلوس اینکروں کے ذریعے لئے گئے ہیں۔

لندن میں اسٹیج پر دی گئی ایک سابقہ منصوبہ بند پیشکش، جس میں ایک شاعر ان کی تعریف میں قصیدے پڑھ رہا تھا، ایک شرم سار کرنے والا موضوع تھا۔  یہاں تک کہ ڈونالڈ ٹرمپ جن کا میڈیا کے ساتھ کافی کڑوا رشتہ ہے، باقاعدہ طور پر میڈیا سے گروپ میں بات کرتے ہیں اور ان کے سوالوں کا سامنا کرتے ہیں۔وہ ان کا مذاق بناتے ہیں، ان کا نام لےکر پکارتے ہیں، لیکن وہ کم سے کم ان کے سامنے حاضر تو ہوتے ہیں۔  نریندر مودی میڈیا کے متعلق بے عزتی کا تاثر رکھتے ہیں، لیکن وہ ان کے سامنے کھڑے ہونے کا خطرہ مول نہیں لیں‌گے، ایک غلط سوال ان کے ہوش کو  اڑا سکتا ہے اور ان کو پریشان کر سکتا ہے۔اس لئے یہ زیادہ حیرت انگیز نہیں ہے کہ وہ میڈیا سے دور رہے ہیں۔  لیکن یہ چھوئی موئی پن ہمیشہ نئی اونچائیاں چھو رہی ہیں۔  میڈیا پر کڑی نگرانی رکھی جا رہی ہے اور میڈیا گھرانوں کو باقاعدہ طور پر ہدایت دئے جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : اے بی پی نیوز سے استعفیٰ کی کہانی، پنیہ پرسون باجپئی کی زبانی

باجپئی نے 200 لوگوں کی مضبوط ٹیم کی بات کی ہے، جن کا کام چینلوں/اخباروں کےمواد پر نگرانی رکھنا اور یہ رپورٹ تیار کرنا ہے کہ کون کیا کہہ رہا ہے؟  اگر کوئی صحافی اپنی طےشدہ حدود کو پار‌کر رہا ہے، تو اس کے بارے میں اخباروں کے مالکوں کو جلد ہی پتا چل جاتا ہے۔

فوٹو بہ شکریہ:پی آئی ایکس اے وائی/ دی وائر

فوٹو بہ شکریہ:پی آئی ایکس اے وائی/ دی وائر

ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ان کو حد میں رہنے کے لئے کہیں‌گے اور ان کے پر کتر دیں‌گے۔صحافی لوگ کس طرح سے خود کو ناامید اور اپنے ہاتھ بندھے ہوئے محسوس‌کر رہے ہیں، اس کے ثبوت کے طور پر کہانیوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔مخالفت کرنے والوں کا کیا حشر کیا جا رہا ہے، یہ مالکوں کے احکام سے زیادہ ڈراونا پیغام دیتا ہے۔  نوکری گنوانا کافی مشکل ہو سکتا ہے اور کئی بار دوسری نوکری پانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔

کوئی بھی دوسرا مالک ایسے صحافی کو اپنے یہاں نہیں رکھنا چاہتا، جو سیاسی اقتدار کا شکار بن چکا ہے۔  ایسی کئی مثالیں ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ کیسے پختہ تجاویز کو بھی پیچھے لے لیا گیا ہے۔ایک بےروزگار صحافی ذریعہ معاش سے زیادہ گنوا دیتا / دیتی ہے۔  وہ ایک اسٹیج اور اپنی آواز بھی گنوا دیتا / دیتی ہے۔  یہ ڈر اچھے سے اچھے مستحکم اسٹار صحافیوں کو بھی اپنا سر جتنا ممکن ہو سکے جھکاکر اور بنا کوئی مصیبت مول لئے اپنی نوکری کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔باجپئی کے ساتھ جو ہوا ہے، اس کے بعد بھی ہم اس بات کو لےکر بےفکر رہ سکتے ہیں ہم پیشہ ور یکجہتی یا حکومت کے خلاف ذاتی یا اجتماعی مخالفت کی جوار کو اٹھتا ہوا نہیں دیکھیں‌گے۔  بہت ہوا تو ایک بھربھرا سا بیان جاری کر دیا جائے‌گا، لیکن چھوٹے اور بڑے، خاص طور پر بڑے صحافی اپنے قومی اور عالمی مسائل کی جانکاری دینے کے کام میں لگ جائیں‌گے۔

جب ایک پریس کانفرنس میں ڈونالڈ ٹرمپ نے سی این این کے نامہ نگار کا مذاق بنایا، تب فاکس نیوز سے ایک دوست صحافی نے کھڑے ہوکر اس کے خلاف صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے سامنے اپنا اعتراض ظاہر کیا۔ لیکن ایسا کچھ بھی یہاں ہونے کی امید نہیں ہے۔  ہندوستان میں روایتی طریقے سے میڈیا یونین کمزور رہے ہیں اور اب تو وہ کسی مذاق میں تبدیل ہو گئے ہیں۔اس لئے مسئلہ موجودہ حالت کے تجزیہ اور اس کو صحیح نام سے خطاب کرنے کا نہیں ہے ؛ یہ کام مستقبل کے مؤرخوں کے لئے چھوڑ دینا چاہیے۔  یہ وقت ہے کہ ہم کھڑے ہوں اور اپنی حاضری درج کرائیں اور یہ صاف کر دیں کہ اظہار کو اس طرح کچلنے کی کوششوں کو برداشت نہیں کیا جائے‌گا، کیونکہ یہ غیرہندوستانی اور غیر آئینی ہے۔ہمارے سامنے سب سے مشکل اور چیلنج بھرے حالات میں اپنا کام کرنے والے بہادر صحافیوں کی اچھی مثالیں ہیں۔یہاں تک کہ نوجوان نامہ نگاروں نے بھی اپنے پیشے کو پوری طرح سے چھوڑا نہیں ہے اور اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔  میں اکثر ایسے نئے نئے تیار پیشہ وروں کے رابطہ میں آتا رہتا ہوں، جن میں اپنے چاروں طرف دکھ رہی چیزوں کو لےکر غصہ ہے۔

انہوں نے ایمرجنسی کے بارے میں صرف مبہم طور پر سنا ہے اور فاشزم ان کے لئے ایک انجانا خیال ہے۔  وہ ماضی کی یا صحیح،  نظریاتی تعریفوں کی پرواہ نہیں کرتے۔  نہ ہی ہمیں اس کی زیادہ فکر کرنی چاہیے، جنہوں نے زیادہ وقت دیکھا ہے۔جیسا کہ ہمپٹی ڈمپٹی نے ایلس سے کہا تھا، جب وہ اس سوچ میں پڑی تھی کہ کیا دنیا کو ایسا بنایا جا سکتا ہے کہ اس کے کئی معنی نکلے:سوال ہے مالک کون ہوگا، بات بس اتنی ہی ہے۔  ‘ جو لوگ اطلاعات پر قابو کرنا چاہتے ہیں، وہ مالک بننا چاہتے ہیں ؛ لڑنے کا دارومدار ان کا ہے، جو جمہوریت میں یقین کرتے ہیں، مزاحمت میں یقین کرتے ہیں، نہ کہ خود سپردگی کرنے میں۔