ادبستان

اسلام اور سوشل ازم کے علمبردار تھے فخر الدین بیننور

 فخرالدین نے پوری زندگی سوشل ازم، گاندھی ازم اور بائیں بازو کے نظریات کو آگے لےکر جانے کا کام کیا۔ وہ اس نظریہ کے اندھے بھکت نہیں تھے، بلکہ انہوں نے اس کا سخت تجزیہ بھی کیا۔

Fakhruddin Bennur

فوٹو : کلیم عظیم

اقلیتی کمیونٹی کے متعلق  بڑھتی نفرت، ان پر ہندوتوا  کے نام پر ہوتے حملے، بی جے پی مخالف جماعت کو غدار وطن ثابت کرنے کی کوشش، گائے کے نام پر مسلمانوں  پر ہو رہے جان لیوا حملے، مذہب کے نام پر دلت، پسماندہ  اور مسلمانوں  کو نشانہ بنایا جانا وغیرہ دہشت بھرے وقت میں مظلوم  فیملی کے لئے سطح پر آکر لڑنے والے شخص کا دنیا سے جانا پوری اصلاح پسند تحریک کا نقصان ہے۔

80 کی دہائی میں رام جنم بھومی تحریک اپنی انتہا پر تھی، رام کے نام پر مسلمانوں کو دھمکایا جا رہا تھا، مسلمان اور کانگریس کے خلاف نفرت کی سیاست کی بوائی چل رہی تھی، تب معین شاکر اچانک دنیا سے چلے گئے۔  2005 میں نفرت کی سیاست اپنی انتہا پر تھی، پوری دنیا میں اسلامو فوبیا اپنی انتہا پر تھا، ہندوستان اور مہاراشٹر میں دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانون جیل میں ڈالے جا رہے تھے، تب یکجہتی کے علمبردار  رفیق ذکریا چل بسے، 2013 میں گجرات فسادات میں مسلمانوں  کے قتل کے ملزم اور ہندوتوا  کے کٹر شبیہ والے نریندر مودی کو بطور پی ایم پروجکٹ کیا جا رہا تھا، مسلمانوں  سے بدلہ لینے کی کوشش کی جا رہی تھی، تب اصغر علی انجینئر دنیا سے رخصت ہوئے اور اب مودی اور بی جے پی کی مذہبی شدت پسندی،اور2014 میں ملے اقتدار کے دم پر مسلمانوں اور دلتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تب فخرالدین بینور اس دنیائے فانی سے اچانک رخصت ہو گئے۔  مہاراشٹر کی پولیٹکل سائنس کے یہ دھرندھر چوکڑی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔  ان کا یکے بعددیگرےجانا مسلمانوں  کا نہیں بلکہ پوری اصلاح پسند تحریک کا نقصان ہے۔

17 اگست 2018 کو رات نو بجے فخرالدین بینور  نے اپنے آبائی شہر سولاپور میں آخری سانس لی وہ پچھلے کئی مہینوں سے بیمار چل رہے تھے، آخری وقت ان کی دونو ں کڈنی ناکام ہو گئی تھیں، ڈاکٹرکے علاج سےکسی بھی قسم کا فائدہ نہیں ہونے پر ان کو ہسپتال سے چھٹی دے دی گئی تھی۔  ان کی بیماری کی خبر سنتے ہی ان کے قدرت واقع رہائش گاہ پر ملنے والو ں کی قطار لگی رہی۔ آخری دنو تک وہ لوگوں سے ملتے رہے، لوگوں سے دعا کی گزارش کرتے رہے۔  پر افسوس دعا ان کے کسی کام نہیں آئی۔ 20 اگست کو ان کی تین نئی کتابوں کارسم اجرا  تھا، اسی تقریب میں ان کو سماجی خدمات کے  80 سال مکمل کرنے کےموقع پر  مان پتر دیا جانا تھا، پر ہماری ساری کوششیں دھری کی دھری رہ گئیں۔  اس تقریب سے  پہلے وہ اس دنیا سے چلے گئے۔

25 نومبر 1938 میں مہاراشٹر کے ساتارا میں پیدا ہوئے  فخرالدین   جمہوری‎ سیاست کے غیر جانبدار ڈاکٹر مانے جاتے تھے۔  فخرالدین   نے پوری زندگی سوشل ازم، گاندھی ازم، بائیں بازو کے نظریات کو آگے لےکر جانے کا کام کیا۔  وہ اس نظریہ کے اندھے بھکت نہیں تھے، بلکہ انہوں نے اس کا سخت تجزیہ بھی کیا ہے۔  انہوں نے شروع کے دنوں  میں سینا بھون میں بطور کلرک نوکری کی، اس کے بعد وہ سولاپور ضلع عدالت میں بابو بنے۔  اس وقت کورٹ میں مہاراشٹر کے سابق سی ایم اور مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے ان کےمعاون تھے۔  (سشیل کمار شندے ان کے قریبی دوستوں میں گنے جاتے ہیں۔  ) 1966 میں وہ پولیٹکل سائنس کے پروفیسر بنے۔  بطور پروفیسر لاتور کے دیانند کالج میں تدریسی کام شروع کیا جس کے ایک سال بعد وہ سولاپور لوٹ آئے وہاں پر سنگمیشور کالج میں وہ پولیٹکل سائنس کے استاد بن گئے۔

1970 کی دہائی میں انہوں نے لکھنا شروع کیا۔  شروع سے وہ مسلم سیاست، ہندو مسلم یکجہتی، صوفی وارکری روایت، مسلمانوں  کے رواج اور روایت پر لکھتے رہے ہیں۔  مسلمانوں  میں پنپتی دقیانوسی خیالات وہ  سخت ناقد رہے ہیں۔  اسلام کی رواداری کو فروغ دینے کا کام انہوں نے آخری سانس تک کیا۔  ان کے لکھے کئی مضامین انسانیت، انصاف ، امن اور سماجی ترقی کا پیغام دیتے ہیں۔  اسی طرح سماجی انصاف کو بھی واضح کرتے ہیں۔  اسلام کا پیغام، خواتین کے حقوق، ہندوستانی مسلمانوں  کا رہن سہن، ان کے ذات پات، ہندوستانی جمہوریت، رجعت پسند سیاست کی عالمی وضاحت ان کے کئی مضامین میں پائی جاتی ہیں۔

اسلام اور قرآنی احکامات کو انہوں نے اپنے مضامین میں پیش کیا۔  قرآن میں خواتین کو دئے گئے مقام اور حقوق کو لےکر انہوں نے کافی بحث کی ۔  فخرالدین   کے اسلامی مطالعے پر اصغرعلی انجینئر کا کافی اثر رہا ہے۔  اسلام کا انہوں نے بہت گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔  اسلام میں خواتین اور مرد وں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔  رب کے سامنے دونوں ہی یکساں ہیں، وہ کہتے تھے کہ اسلام تو تمام مذاہب کی طرح برابری، اخلاص، یکجہتی اور بھائی چارہ کا پیغام دیتا ہے۔  ان کے مطابق سبھی کی خوشحالی، مساوات، انسانیت، محبت اور یکجہتی کے لئے کام کرنا ہر انسان کا آخری  فرض ہونا چاہیئے۔

ہندوستان کے مسلمان ہوموجنائیز ہیں اس غلط فہمی کو لےکر انہوں نے سخت وار کیا ہے، ان کا ماننا تھا کہ، ‘ ہندوستان کے مسلمان کسی صورت میں ایک جیسے نہیں ہیں، ان کے متفرق صوبوں اور ریاست کی علاقائیت بھری ہیں، وہ کسی بھی صورت میں عربوں جیسے نہیں ہیں۔  ہندوستانی مسلمانوں کا  مذہب تو عربی ہے، پر ان کا رہن سہن اور زندگی خالص ہندوستانی ہیں۔  وہ کبھی گجراتی ہیں، تو کبھی اسمی تو کبھی مراٹھی ہیں۔  ہندوستان میں رہے متفرق صوبوں میں بسے مسلمانوں  کی علاقائیت ہی ان کی ایک الگ پہچان ہے۔  ‘

سامراجی  حکومت، استعماریت، عالم کاری، عرب ورلڈ اور اسلام کے موضوعات پر ان کا گہرا مطالعہ تھا۔  ان کے ذاتی کتب خانہ میں پوری دنیا سے جمع کی گئی کئی ہزار کتابیں موجود ہیں، اردو، انگریزی کی ہندی، مراٹھی کی کئی اہم حوالہ جات کتابیں ان کے پاس ہیں۔

Bennur_Books

فوٹو : کلیم عظیم

فخرالدین  70 کی دہائی میں حمید دلوائی کے رابطہ میں آئے، جس کے بعد ان کو مسلمانوں  کے بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا۔  ان کو اپنی ‘مسلم مراٹھی ساہتیہ ایک درشٹی کشیپ ‘ نام کی کتاب میں دلوائی کا کئی بار ذکر کیا ہے۔  ہر بار انہوں نے دلوائی کی کم علمی کی تنقید کی ۔  ان کی تنظیم اور ہندوتوادی لوگوں کے لنک کو اجاگر کیا ہے۔  فخرالدین   کا دعویٰ تھا کہ حمید دلوائی کو اسلام کا علم زیرو تھا پھر بھی وہ ملّا اور مولویوں سے مذہبی معاملات میں بحث کرتے، حدیثوں کو کھلے عام بتاتے، قرآن کو بدلنے کی کوشش کرتے، اسلامی عالموں کی بے عزتی کرتے۔  جس کو لےکر ان کی دلوائی سے کافی بحث ہوتی۔  اپنی بات رکھنے کے لئے فخرالدین بینّور  نے کئی بار دلوائی کی تنظیم کا استعمال کیا۔  پر جب دلوائی نہیں بدلے تب انہوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔

1977 میں دلوائی کے انتقال کے بعد فخرالدین بینّور  نے ان کی تنظیم سے بھی ہمیشہ کے لئے دوری بنا لی۔ فخرالدین بینّور  نے کئی بار دلوائی اور ان کی تنظیم کے نظریات کی تنقید کی۔ پر مسلمانوں نے ان کو دلوائی کے ساتھ جوڑ‌کر کئی سالوں تک بدنام کیا۔  فخرالدین بینّور  مہادیہ نے اس کے لئے کئی بار مسلمانوں  سے معافی بھی مانگی پر کمیونٹی نے ان کوقبول نہیں کیا۔فخرالدین بینّور  ایک ناقداور مفکر رہے ہیں۔  مسلم کمیونٹی کے سماجی مسئلہ کو لےکر انہوں نے کئی مضامین لکھے۔  زیادہ تر انہوں نے مراٹھی میں ہی لکھے ہیں، اس کے علاوہ ان کے کئی مضامین انگریزی میں ترجمہ کئے جا چکے ہیں۔  اسی طرح ان کے مضامین ہندی اور اردو میں شائع ہوئے ہیں۔

 فخرالدین بینور  نے کل سات کتابیں لکھی ہیں۔  اور ایک ہزار سے بھی زیادہ مضامین لکھے ہیں۔  مراٹھی کے کئی مشہور رسالے جیسے سماج پربودھن پتریکا، پرورتناچا واٹسرو، آجچا سدھارک، پرتشٹھان، ستیہ گرہی وچاردھارا وغیرہ مشہور رسالوں میں وہ ہمیشہ لکھتے تھے۔  اسی طرح  سولاپور سماچار، دینک سنچار، لوک مت، سکال، لوکستا، دویہ مراٹھی وغیرہ اخباروں میں انہوں نے لکھا ہے۔  پولیٹکل سائنس کے ساتھ وہ تاریخ کے بھی مفکر رہے ہیں۔  انہوں نے نوآبادیاتی تاریخ کی سفارتکاری پر بہت کچھ لکھا ہے۔ قرون وسطیٰ کی تاریخ، مغل سلطنت، عرب دنیا، وسط مشرق کی اسلامی حکومت ان کے پسندیدہ موضوع رہے ہیں۔

زمیندارانہ نظام، عالم کای، استعماریت، تقسیم، ہندوتوا  کی سیاست پر بھی انہوں نے کئی مضامین لکھے ہیں۔  ان کی شائع سات کتابیں صوفی ازم، گاندھی ازم، سامنتی ویوستھا، مسلم مراٹھی ساہتیہ، مسلم وچارک، مسلمانوں  کی سیاست پر بھی انہوں نے کافی کچھ لکھا ہے۔  1998 میں شائع ان کی کتاب ‘  بھارتیہ مسلمانو ں کی مانسکتا اور ساماجک سنرچنا ‘ کافی پسند کی گئی۔  اس کتاب کو لےکر شمال، وسط ہندوستان سے لےکر جنوبی ہندوستان تک گفتگو ہوئی۔  اسی کتاب کے لئے 2003 میں ہندی کے مشہور ادیب ادے پرکاش نے ان کا سمان کیا تھا۔  کملیشور نے بھی اس کتاب کو کافی سراہا تھا۔اس کتاب میں فخرالدین بینّورنے غیر مسلموں  سے درخواست کی ہیں کہ اسلام کو لےکر نہیں بلکہ ایک سماج کے طور پر مسلمانوں  کے بارے سوچنا ہوگا۔ہندوستانی مسلمان  ہوموجنیس یعنی یکسانیت پر سخت حملہ کیا۔ہندوستانی مسلمان عربوں  سے الگ ہے، مراٹھی مسلمانوں  کی تاریخ، صوفی اور صوفی روایت کو نئے طریقے سے پیش کیا۔

ان کی ایک دیگر کتاب  ہند سوراجیہ گاندھیوادی وام پنتھ کی گفتگو کرتے ہیں۔  گاندھی جی کے مسلمانوں  کے متعلق نظریہ ، اسلام اور تاریخ پر بحث کرتی یہ کتاب 2010 میں شائع ہوئی۔  جس کا اصلاح شدہ ایڈیشن پچھلے ہفتے شائع ہوا۔  دوسری دیگر کتاب مسلم سیاسی سوچ پر لکھی ہیں۔  جس میں، عالم خوندمری، مولانا حسرت موہانی، ایم۔ اے۔ انصاری کی کانگریس کی سیاست کی گفتگو کی ہیں۔  ساتھ ہی مولانا حسین مدنی، طفیل احمد منگلوری، کے۔ ایم۔ اشرف، رفیق ذکریا، اصغر علی انجینئر کی بہترین قلمی تصویر اس کتاب میں پیش کی ہیں۔  مسلمانوں  کی سیاست اور اس کی مجبوری کو سمجھنے کے لئے یہ کتاب کافی مناسب ہے۔  ان کے دیگر کتابوں میں  ہندتوا، مسلم آنی واستو، آدھونک بھارتاتیل مسلم وچارونت، صوفی سمپردائے آنی وانڈمیہ پرواہ، گلموہروغیرہ۔

FakhruddinBennurUdayPrakash

ہندی کے مشہور ادیب ادے پرکاش کے ساتھ فخر الدین بیننور / فوٹو : فیس بک /ادے پرکاش

1989 میں انہوں نے  مسلم مراٹھی ساہتیہ پریشد کی بنیاد رکھی۔  جس میں مراٹھی مسلمانوں  کی طرز زندگی کو سب کے سامنے لایا۔  قرون وسطی کے مسلم مراٹھی صوفیوں کو اجاگر کیا۔  مراٹھی اور دکھنی زبانوں میں مسلمانوں  کی سماجی ساخت، ان کا اسلام، رہن سہن، لباس وغیرہ کی تنوع سب کے سامنے لائے۔  اسّی کی دہائی میں رام جنم بھومی تحریک اور بابری مسجد کے انہدام کے بعد  ہندوستان کے مسلمانوں  کی حالت بدتر ہوتی جا رہی تھی، 1993 کے ممبئی فسادات نے مہاراشٹر کے مراٹھی مسلمانوں  کے مذہبی علامتوں پر حملہ کیا تھا، مسلم مراٹھی ادب تحریک نے ان مظلوم  اور مظلوم لوگوں کو سہارا دینے کا کام کیا۔

اس ادبی تحریک نے کئی نئے نوجوانوں کو لکھنے کے لئے راغب کیا۔  اس تحریک کے چلتے دلت ادب کی طرح ہی مراٹھی مسلمانوں  کے مسائل کو نشان زد کرنا شروع کیا۔اس ادبی تحریک نے مسلمانوں  کےذات پات کو سامنے لایا۔  جس کو لےکر آگے او بی سی مسلمانوں  کی تحریک کھڑی ہوئی۔  1995 میں فخرالدین بینّور  نے مسلم او بی سی تحریک کو کھڑا کیا۔  اصغرعلی انجینئر نے ٹائمس آف انڈیا، پرفل بٹوئین دی ہندو اور فخرالدین بینّور  نے مراٹھی کے اخباروں میں مسلم او بی سی اورنظام ذات  پر مضامین  لکھے۔  اس تحریک نےشمالی ہندوستان کے پسماندہ  تحریک کو ایندھن دینے کا کام کیا۔  پسماندہ تحریک نے پورے ہندوستان کو ہلاکر رکھ دیا۔

مسلم او بی سی تحریک سے مہاراشٹر کے امام، دھرم گرو کے بانچھیں ہل گئی۔  مہاراشٹر میں ریاستی حکومت نے پسماندہ مسلمانوں  کو او بی سی میں جگہ دی، ان کو سرکاری سہولتیں عطا کی۔ 2006 میں قائم سچر کمیشن نے مسلم او بی سی اور پسماندہ تحریک کے مطالبات کو جگہ دی، مسلمانوں  کو تعلیم میں ریزرویشن کی بات رکھی۔2015 میں فخرالدین بینّور  نے مہاراشٹرین مسلم ریزرویشن تحریک کی بنیاد رکھی، اس تنظیم نے مسلمانوں  کی اقتصادی پسماندگی کا مطالبہ حکومت کے سامنے رکھا، تعلیم میں ریزرویشن، مختصر صنعت کے لئے قرض سہولت وغیرہ مطالبات کو لےکر پوری ریاست میں کئی تحریک کئے۔اپنی زندگی میں انہوں نے ہزاروں چھوٹے بڑے کارکن تیار کئے ہیں۔  بالخصوص خاتون ایکٹوسٹ کے لئے وہ ترغیب اور جوش کا ماخذ بنے۔  ہمیشہ مسکراتا چہرہ، نئے خیالات کا احترام، ان کو سمجھنے کی کوشش میں وہ ہمیشہ رہتے۔  ان کو علم کا تکبر بالکل نہیں تھا۔  نئے لوگوں سے وہ گھنٹوں بات کرتے۔

فخرالدین بینّور  اپنی آخری سانس تک اسلام کے نام پر مسلمانوں  میں جاری متفرق روایت، دقیانوسی نظریہ پر وار کرتے رہے۔  وہ علما اور مذہبی پیروکار کے رجعت پسند خیالات کے خلاف کھڑے  رہے۔  اس کے چلتے دھرم گرو اور علما کے نشانے پر وہ ہمیشہ رہے، ان کے خلاف سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔  پر وہ اپنے نظریہ پر قائم رہے۔  ان کے نظریہ ہندوستان اور مسلم برادری کے لئے بہت بڑی رحمت ثابت ہوا ہے۔اس مراٹھی مسلمان سپوت کو پوری برادری کی طرف سے  جذبات سے لبریز خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔