خبریں

رافیل معاملے میں فرانس کے سابق صدر کا انکشاف؛ مودی حکومت نے پیش کی تھی ریلائنس کو ساجھے دار بنانے کی تجویز

کانگریس صدر راہل گاندھی نے کہا، وزیر اعظم نے ہندوستان کے ساتھ غداری اور فوجیوں کے لہو کی بے عزتی کی۔اولاند کے بیان پر فرانس حکومت نے دی صفائی، رافیل بنانے والی کمپنی نے خود ریلائنس  ڈیفنس   کو منتخب کیا۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور سابق فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند (فائل فوٹو : رائٹرس)

وزیر اعظم نریندر مودی اور سابق فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند (فائل فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی : رافیل قرار میں ایک فرانسیسی  ناشر نے مبینہ طور پر سابق فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند کے حوالے سے سنسنی خیز انکشاف  کرتے ہوئے کہا کہ اربوں ڈالر کے اس سودے  میں حکومت ہند نے انل امبانی کی ریلائنس  ڈیفنس   کو ڈاسسو ایویشن کا ساجھے  دار بنانے کی تجویز دی تھی۔ اولاند کا تبصرہ اس معاملے میں حکومت ہند کے رخ سے الگ ہے۔ اس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعہ کو وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا، ‘ سابق فرانسیسی صدر کے اس بیان کو حکومت ہند نے ایک خاص ادارہ کو رافیل میں ڈاسسو ایویشن کاساجھے  دار بنانے کے لئے زور دیا، کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ ‘

ترجمان نے یہ بھی کہا، ‘ ایک بار پھر اس بات کو زور دےکر کہا جا رہا ہے کہ اس تجارتی فیصلے میں نہ تو حکومت اور نہ ہی فرانسیسی حکومت کا کوئی رول  تھا۔ ‘ فرانسیسی  زبان کے ایک پبلیکشن  ‘ میڈیاپارٹ ‘ کی خبر میں اولاند کے حوالے سے کہا گیا ہے، ‘ حکومت ہند نے اس سروس  گروپ کی تجویز دی تھی اور ڈاسسو ایویشن نے (انل) امبانی گروپ کے ساتھ بات چیت کی۔ ہمارے پاس کوئی آپشن  نہیں تھا، ہم نے وہ مذاکرہ کار لیا جو ہمیں دیا گیا۔ ‘

یہ پوچھے جانے پر کہ ساجھے  دار کے طور پر کس نے ریلائنس کا انتخاب کیا اور کیوں، اولاند نے کہا، ‘ اس  میں ہمارا کوئی رول  نہیں تھا۔ ‘ حالانکہ سابق صدر  اولاند کے اس بیان کے بعد فرانس کے وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا ہے۔ فرانس حکومت نے کہا، ‘ ہماری فرینچ کمپنیوں کا اس فیصلے میں کوئی رول  نہیں ہے کہ انہوں نے کن ہندوستانی کمپنیوں کا انتخاب کیا یا کریں‌گی۔ ہندوستانی قانون کے مطابق فرانس کی کمپنیوں کے پاس یہ پوری آزادی ہے کہ وہ ان ہندوستانی  کمپنیوں کو منتخب کریں جن کو وہ سب سے زیادہ مناسب سمجھتی ہیں ‘

وہیں، فرانس حکومت کے علاوہ رافیل ہوائی جہاز بنانے والی کمپنی ڈاسسو ایویشن نے بھی بیان جاری کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ کمپنی نے ریلائنس  ڈیفنس   کا انتخاب حکومت ہند کی ‘ میک ان انڈیا ‘ پالیسی کے تحت کیا ہے۔ کمپنی نے کہا ہے، ‘ اس ساجھے داری  سے فروری 2017 میں ڈاسسو ریلائنس اییرواسپیس لمیٹڈ (ڈی آر اے ایل) نام کی مشترکہ کمپنی بنی۔ فیلکن اور رافیل ہوائی جہاز کے الگ الگ حصوں کی تعمیر کے لئے ڈاسسو ایویشن اور ریلائنس نے ناگ پور میں ایک پلانٹ  کی تعمیر کی ہے۔ ‘

دوسری طرف، اولاند کے بیان کے متعلق رپورٹ آنے کے بعد حزب مخالف جماعتوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پر اپنے حملے اور تیز کر دیے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی نے الزام لگایا، ‘ وزیر اعظم نے بند کمرے میں رافیل ڈیل  کو لےکر بات چیت کی اور اس کو بدلوایا۔ فرانسوا اولاند کا شکریہ کہ اب ہمیں پتا چلا کہ انہوں نے (مودی) دیوالیہ انل امبانی کو اربوں ڈالر کا سودا  دلوایا۔ ‘

انہوں نے آگے کہا، ‘ وزیر اعظم نے ہندوستان کے ساتھ غداری کی ہے۔ انہوں نے ہمارے فوجیوں کے خون کی بے عزتی کی ہے۔ ‘ دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا کہ اولاند کا بیان سیدھے سیدھے اس بات کا متضاد ہے جو ابتک مودی حکومت کہتی رہی ہے اور پوچھا کہ کیا قرار پر ‘ اہم فیکٹس  کو چھپانے ‘ سے نیشنل سکیورٹی  کو خطرے میں نہیں ڈالا گیا؟

وزیر اعظم نریندر مودی نے 10 اپریل 2015 کو پیرس میں اس وقت کے فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند کے ساتھ بات چیت کے بعد 36 رافیل ہوائی جہازوں کی خرید کا اعلان کیا تھا۔ قرار پر آخری صورت میں  23 ستمبر 2016 کو مہر لگی تھی۔ خبر میں اولاند نے قرار کا ان کے ایسوسی ایٹ  جولی گائٹ کی فلم سے کسی بھی طرح کے تعلق سے انکار کیا ہے۔ گزشتہ مہینے ایک اخبار میں اس طرح کی خبر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ رافیل ڈیل پر مہر لگنے سے پہلے امبانی کا ریلائنس انٹرٹینمنٹ  نے گائٹ کے ساتھ ایک فلم سازی کے لئے سمجھوتہ کیا تھا۔

سی پی آئی (ایم) جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے کہا، ‘ اگر اس طرح کا کوئی قرار ہوا ہے تو یہ رافیل ڈیل  ایک گھوٹالہ ہے۔ مودی حکومت نے جھوٹ بولا اور ہندوستانیوں کو گمراہ کیا۔ پورا سچ ہر حال میں سامنے آنا چاہیے۔ ‘ کانگریس کے اہم ترجمان رندیپ سرجے والا نے کہا، ‘ سفید جھوٹ کا پردہ فاش ہوا۔ وزیر اعظم کے ساٹھ گانٹھ والے سرمایہ دار دوستوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے پبلک سیکٹر  کی انٹر پرائز  ہندوستان ایئروناٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) کو 30 ہزار کروڑ روپے کے آفسیٹ کانٹریکٹ سے محروم کیا گیا۔ اس میں مودی حکومت کی ملی بھگت اور سازش کا انکشاف  ہو گیا ہے۔ ‘

وہیں، کانگریس ترجمان منیش تیواری نے طنز کرتے  ہوئے کہا، ‘ فرانسوا اولاند کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ 2012 میں جو ہوائی جہاز 590 کروڑ روپے  کا تھا، وہ 2015 میں 1690 کروڑ روپے  کا کیسے ہو گیا۔ 1100 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ ‘ حکومت یہ کہتی رہی ہے کہ ڈاسسو ایویشن کے ذریعے آفسیٹ ساجھی  دار کے انتخاب میں اس  کا کوئی رول  نہیں ہے۔دریں اثنا فرانس کے سابق صدر نے این ڈی ٹی وی سے بات چیت میں کہا ہے کہ وہ اپنے دعوے پر قائم ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)