گراؤنڈ رپورٹ

گراؤنڈ رپورٹ : صفائی ملازم سیویج میں اترنے کے لیےکیوں مجبور ہیں؟

گراؤنڈ رپورٹ : مغربی دہلی کے موتی نگر علاقے میں واقع ڈی ایل ایف کامپلیکس میں سیویج ٹینک صاف کرتے وقت دم گھٹنے کی وجہ سے 5لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔مرنے والوں  کے رشتہ داروں کا الزام ہے کہ ہاؤس کیپنگ کے لئے رکھے گئے ملازمین‎ کو ٹینکوں کی صفائی کے لئے مجبور کیا گیا تھا۔

سیور حادثے میں مارے گئے شنکر، سرفراز، پنکج اور امیش

سیور حادثے میں مارے گئے شنکر، سرفراز، پنکج اور امیش

نئی دہلی :‘ میرے بھائی امیش کو سیور میں زبردستی اتارا گیا۔اس کا کام ہاؤس کیپنگ کا تھا۔ ہاؤس کیپنگ کا مطلب جھاڑو-پوچھا کرنا یا پانی پہنچانا ہوتا ہے۔نالی کو صاف کرنا نہیں مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ آخر کیوں اور کیسے اس کو سیور میں گھسایا گیا؟ ‘یہ کہتے ہوئے وجے مشرا کا گلا بھر آیا۔ان کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔وجے مشرا کے ماموں زادبھائی امیش کمار تیواری (22)کے پچھلے 9 ستمبر کو دہلی کے موتی نگر علاقے میں موجود ڈی ایل ایف کپیٹلس گرین کامپلیکس سوسائٹی کے اندر سیور پلانٹ کی صفائی کے دوران موت ہوئی تھی۔اس تکلیف دہ واقعہ میں امیش کے علاوہ، شنکر کمار سنگھ عرف راجا (22)، محمد سرفراز (20)، عظیم (19) اور پنکج کمار یادو (26) کل 5 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔

یہ تمام روزی روٹی کی تلاش میں ملک کے الگ الگ علاقوں سے دہلی آئے ہوئے غریب نوجوان تھے۔تمام لوگوں پر اپنی فیملی کے لئے دو وقت کی روٹی کےانتظام کی ذمہ داری تھی۔خاص بات یہ ہے کہ اس حادثے میں مرنے والوں میں کوئی بھی سیور صفائی ملازم نہیں تھا۔متاثرین کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ سب ڈی ایل ایف میں الگ الگ ایجنسیوں کی طرف سے ہاؤس کیپنگ، مینٹننس، موٹر آپریٹر اور دیگر کام کرنے والے تھے۔پھر بھی ان سے سیور کی صفائی کروائی جا رہی تھی۔

ان کا یہ بھی الزام ہے کہ ان کو سیور میں اترنے پر مجبور کیا گیا تھا۔وجے نے کہا، ‘امیش پچھلے پانچ سالوں سے میرے ہی گھر میں رہ‌کر کام کر رہا تھا۔وہ ڈی ایل ایف میں پچھلے چار سال سے کام کر رہا تھا۔اس کے اندر الگ الگ کمپنیوں کو الگ الگ کاموں کا ٹھیکہ دیا جاتا ہے۔امیش کو کرسٹا کمرشیل پروجیکٹ پرائیویٹ لمیٹڈ نام کی کمپنی نے ہاؤس کیپنگ کے کام پر رکھا تھا۔اس کو پہلی بار سیور میں اتارا گیا۔اس سے پہلے کبھی اس طرح کا کام اس سے نہیں کروایا گیا۔وہ مجھ سے چھوٹی-چھوٹی باتیں بھی شیئر کرتا تھا۔اگر اس طرح کبھی اس کو پریشان کیا گیا ہوتا تو مجھے ضرور بتاتا۔مجھ سے نہیں چھپاتا۔  ‘

حادثے کے بعد فیملی کو کمپنی کی طرف سے خبر تک نہیں دینے کو لےکر بھی وجے خاصے ناراض تھے۔انہوں نے کہا، ‘ اتوار (9 ستمبر) شام کے تقریباً 5 بجے کسی دوست نے فون کر کےمجھے بتایا کہ ڈی ایل ایف کے اندر کوئی حادثہ ہوا ہے۔خبر ملتے ہی میں بھاگتے ہوئے ڈی ایل ایف کے گیٹ کے پاس گیا تھا۔میں شام 6.30 بجے تک وہاں کھڑی سکیورٹی گارڈ سے منت کرتا رہا کہ بڑےبھائی مجھے اندر جانے دو، میرا چھوٹا بھائی اندر ہے اور اس کا فون نہیں لگ رہا۔6.30کے بعد میں لڑائی-جھگڑا کرکے کسی طرح اندر گھس گیا۔وہاں تقریباً25-30 پولیس والے تھے۔جب میں نے ان سے پوچھا کہ میرے بھائی کو کیا ہوا،تو اتناہی بتایا کہ اس کو ہسپتال لےکے گئے ہیں۔اصل میں اس کے ساتھ کیا ہوا، کس ہسپتال میں لے گئے، کس حالت میں ہے، کچھ بھی نہیں بتایا۔  وہاں کے سپروائزروں کا بھی یہی سلوک رہا۔آخر میں میں اپنے دوستوں کے ذریعے پہلے موتی نگر کے بھیکشو ہسپتال میں پتہ لگوایا۔تب معلوم ہوا کہ وہاں سے ایک کو آر ایم ایل لے گئے تھے اور چار کو دین دیال لے گئے اور سب کی حالت نازک ہے۔لیکن یہ نہیں بتایا کہ کس کو کہاں لے جایا گیا۔پھر ایک دوست کو دین دیال بھیجا تو پتہ چلا کہ وہاں میرا بھائی مرچکا ہے۔ ‘

وجے ہی نہیں، بلکہ تمام مرنے والوں  کے اہل خانہ  نے بھی یہی الزام لگایا کہ حادثے کے بعد ڈی ایل ایف یا کسی اور کمپنی نے ان کو کم سے کم اس کی جانکاری دینے کی ضرورت بھی نہیں سمجھی۔ادھر ادھر سے واقعہ کی جانکاری ملنے کے بعد وہ لوگ خودہی ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال کا چکر کاٹتے رہے۔37 سال کا وجے مشرا اپنی بیوی-بچوں کے ساتھ کئی سالوں سے پریم نگر بستی میں رہ رہے ہیں، جہاں سے موتی نگر کا ڈی ایل ایف کامپلیکس بالکل قریب ہے۔

دہلی کے موتی نگر میں واقع ڈی ایل ایف کیپٹل گرینس (فوٹو :سنتوشی مرکام / دی وائر)

دہلی کے موتی نگر میں واقع ڈی ایل ایف کیپٹل گرینس (فوٹو :سنتوشی مرکام / دی وائر)

بستی کے بیچ میں کھڑے ہوکر دیکھیں، تو ڈی ایل ایف کی اعلیٰ شان اور اونچی-اونچی عمارتیں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔لیکن اس بستی کی تنگ گلیوں میں بےحد چھوٹے-چھوٹے مکان ایک دم سٹے ہوئے ہیں۔گلیوں میں جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔کئی جگہوں میں کھلی گندی نالی کا پانی سڑک پر بہہ رہا تھا۔شہر کے الگ الگ علاقوں میں جاکر صاف-صفائی سے لےکر کئی قسم کے کام کرنے والے لوگوں کی اس بستی میں پھیلی گندگی کو دیکھتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ سسٹم  نام کی چیز یہاں کبھی پہنچتی بھی ہے یا نہیں۔

ویسے پریم نگر میں وجے کا گھر تلاش کرنا بھی ہمارے لئے آسان نہیں تھا۔حادثے کی خبر ملنے کے بعد،11ستمبر کو سب سے پہلے ہم موتی نگر واقع اس سوسائٹی کے پاس گئے تھے، جہاں یہ حادثہ ہوا تھا۔وہاں بڑی تعداد میں سیکورٹی گارڈ تعینات تھے۔جب ہم نے مرنے والے  مزدوروں کے رہنے کی جگہوں کا پتہ لگانے کی کوشش کی، تو وہاں موجود سیکورٹی اہلکار‎ نے کوئی بھی جواب دینے سے انکار کر دیا۔واقعہ سے متعلق جانکاری لینے کی تمام کوششوں پر بھی انہوں نے پانی پھیر دیا۔یہاں تک کہ گیٹ کے پاس ہمارے رکنے پر بھی اعتراض جتاتے ہوئے ہمیں وہاں سے چلے جانے کو کہا گیا تھا۔

ہم نے وہاں کھڑے درجنوں دوسرے لوگوں سے بھی پوچھا تھا کہ مرنے والے  کی فیملی کہاں-کہاں رہتی ہیں اور ان کے نام کیا ہیں؟لیکن سب کا ایک ہی جواب تھا-ہمیں کچھ نہیں پتہ۔آخر میں موتی نگر  پولیس تھانے کی طرف رخ کرنا پڑا، جہاں اس معاملے کی ایف آئی آر درج ہوئی تھی، لیکن تھانے سے بھی ہمیں مایوسی ہی حاصل ہوئی۔انہوں نے کہا کہ وہ سب دہلی کے باہر کے ہیں، یہاں نہیں ملیں‌گے۔

بڑی مشقت کے بعد ایک ٹھیلے والے سے ہمیں جانکاری ملی کہ ایک مرنے والوں میں سے ایک  امیش تیواری پریم نگر میں رہتے تھے۔امیش تیواری اتر پردیش کے سلطان پور کے تیواری پور گاؤں کے رہنے والے تھے۔وہ اس بستی میں وجے کی فیملی کے ساتھ رہتے ہوئے روز ڈی ایل ایف میں کام پر جاتے تھے۔امیش کی پوری فیملی ان کے گاؤں تیواری پور میں رہتی ہے۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ عام طور پر سیوروں کی صفائی کے دوران ہونے والے حادثہ میں مرنے والوں میں زیادہ تر لوگ دلت کمیونٹی سے آتے ہیں۔اگر دہلی کی ہی بات کریں، تو زیادہ تر والمیکی (دلت) ذات کے لوگ ہی ایسے حادثہ کا شکار بنتے ہیں۔

لیکن اس حادثے میں جان گنوانے والوں میں سے امیش برہمن تھے اور شنکر سنگھ راجپوت، جن کو ‘ اعلیٰ ‘ ذات مانا جاتا ہے۔امیش نے 12ویں تک کی پڑھائی کی تھی۔فیملی میں کمانے والا واحد آدمی وہی تھا۔ان کے گھر میں ان کی بیوی اور8مہینے کی بچی اور ان کے ماں باپ، دادا-دادی اور دو چھوٹے بھائی ہیں۔وجے نے بتایا، ‘فیملی کی مفلسی کو دیکھتے ہوئے ہی امیش کو کام کی تلاش میں یہاں آنا پڑا۔اس کو مہینے میں 12 ہزار روپے ملتے تھے۔اپنی کمائی کا تقریباً 80 فیصد حصہ وہ اپنا گھر بھیج دیتا تھا اور باقی پیسوں سے یہاں اپنا خرچ نکال لیتا تھا۔  ‘

امیش کو سیور میں کن حالات میں اترنا پڑا ہوگا، یہ پوچھنے پر وجے نے آگے بتایا، ‘سیور میں اترنے کے لئے ان کو کیسے مجبور کیا گیا اس کی پوری جانکاری تو مجھے نہیں ہے۔حالانکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس کو نوکری سے نکال دینے یا کسی طرح کی دھمکی دےکر اتارا گیا ہوگا۔ ‘

جب ہم نے ان سے یہ پوچھا کہ آگے آپ کیا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا، ‘اب گئی جان تو واپس نہیں آ سکتی، لیکن صحیح معاوضہ ملنا چاہیے، تاکہ ان کی بیوی-بچی کو کچھ مدد مل سکے۔’جب ہم وجے کے گھر کے اندر داخل ہوئے، تو پتہ چلا کہ ان کے چھوٹے بچوں کو ابھی نہیں پتہ تھا کہ ان کے چچا امیش کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ایک ایکسیڈنٹ میں پیر ٹوٹنے سے گاؤں بھیجنے کی بات بچوں کو بتائی گئی ہے۔وہ ابھی بھی امیش کے واپس آنے کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

کچھ ایسی ہی کہانی آنند پربت میں رہنے والے اور اس حادثے میں اپنی جان گنوانے والے سرفرازکی بھی ہے۔ان کے والد محمد حئی (50) اور فیملی کے دیگر ممبروں کے ساتھ-ساتھ پڑوسیوں کے چہروں پر ابھی بھی ماتم چھایا ہوا ہے۔محمدسرفراز کی فیملی بنیادی طور پر بہار کے دربھنگا ضلع کےہریٹھ گاؤں کا ہے۔روزی-روٹی کی تلاش میں 1984-85 میں وہ لوگ دہلی آ گئے۔تب سے یہ دہلی کے الگ الگ علاقوں میں رہتے آئے ہیں۔

12ویں کی پڑھائی ختم کرنے کے بعد سرفراز دہلی یونیورسٹی کے ڈسٹینس اسکول میں سوشل سائنس میں گریجویشن کر رہے تھے۔فیملی کی اقتصادی حالت کو دیکھتے ہوئے پچھلے 10 مہینے سے ہی وہ ڈی ایل ایف میں معاون موٹر آپریٹر کے طور پر کام کر رہے تھے، جس سے ان کو مہینے میں13000روپے مل رہے تھے۔سرفراز کی فیملی میں ان کے ماں باپ کے علاوہ دو بھائی اور ایک بہن ہے۔ان کے والد محمد حئی جسمانی طور پر معذور ہیں اور صحیح سے کھڑے ہو نہیں پاتے۔ان کے بڑے بھائی محمد معراج بی اے کی پڑھائی کر رہے ہیں اور ساتھ ہی، شادی پور علاقے میں الیکٹریشین کا کام بھی کرتے ہیں۔

حئی نے بتایا، ‘میرے بچے کو زبردستی سیور میں اتارا گیا۔اس کا کام یہ نہیں تھا۔یہ واقعہ دوپہر کے 2 بجے کے آس پاس ہوا تھا لیکن کمپنی والوں کی طرف سے ہمیں کوئی خبر نہیں دی گئی۔وہ بیمار ہوا تھا، یا ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا، کچھ بھی ہمیں نہیں بتایا گیا۔اس کے ساتھ کام کرنے والے ایک دوسرے بچے نے مجھے شام کے 7 بجے یہ خبر دی کہ آپ کا بیٹا دین دیال ہسپتال میں بھرتی ہے۔جب ہم وہاں گئے تب تک وہ مر چکا تھا۔  ‘

بی اے  کرنے والے سرفراز کو کن حالات میں نوکری کرنی پڑی، یہ پوچھنے پر انہوں نے کہا، ‘چونکہ میں جسم سے معذور ہوں، میری مجبوری کو دیکھتے ہوئے اس کو کام پکڑنا پڑا۔ ‘ انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ حادثے کو ہوئے ہفتہ بیت گیا لیکن ابھی تک نہ تو حکومت سے، نہ ہی کمپنی سے کوئی مدد ملی۔آخر میں جب بیٹے کی لاش ملی، تو اس کو بہار کے اپنے گاؤں تک لے جانے کے لئے بھی پیسہ نہیں تھا۔حئی کے ایک پڑوسی نے بتایا کہ بستی کے لوگوں نے چندہ اکٹھا کرکے سرفراز کے جنازہ کے لئے بہار لے جانے کا انتظام کیا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بہار میں سرفراز کی 90 سال کی دادی ابھی بھی صدمے میں ہے۔سرفراز کی فیملی والوں کے علاوہ آس پاس کے لوگوں کا بھی یہ الزام ہے کہ اب تک نہ تو ڈی ایل ایف نے نہ ہی اس کمپنی نے جس کے ساتھ سرفراز کانٹریکٹ میں کام کرتے تھے، یہ نہیں بتایا کہ آخر یہ حادثہ کیسے ہوا تھا اور کیوں ان کو سیور میں اتارا گیا تھا۔

سرفراز کی فیملی آنند پربت کی جس بستی میں رہتی ہے وہ ایک مزدور کیمپ ہے۔اس کو ٹرانزٹ کیمپ بھی کہا جاتا ہے۔وہاں ان کو ڈی ڈی اے نے مکان کے نام پر صرف ایک کمرہ دے رکھا ہے۔آس پاس کے لوگوں نے ہمیں بتایا کہ ایک سروے  کے مطابق اس کیمپ میں کل 2800 مکان ہیں۔لیکن لوگوں کا کہنا تھا کہ حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ ہوں‌گے۔

تمام فیملی ایک کمرے میں ہی رہنے کو مجبور ہے۔کسی-کسی مکان میں تو دو-دو فیملی بھی رہ رہی تھی۔پریم نگر کی ہی طرح اس بستی میں بھی گندگی اتنی تھی کہ چاروں طرف گندی نالیاں، کوڑے کے ڈھیر، مچھر اور مکھیوں کی دہشت پھیلی ہوئی تھی۔ بستی میں جگہ جگہ خواتین بڑی تعداد میں پانی بھر رہی تھیں۔کچھ لوگ گلی میں ہی چٹائی بچھاکر آرام کر رہے تھے۔کچھ لوگ جھوپڑی کے سامنے چارپائی ڈال‌کر بیٹھے ہوئے تھے۔

اس مزدور بستی میں گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ ایک آدمی سے زیادہ وہاں نہیں جا سکتا۔بالکل ایک دوسرے کے آمنے سامنے مکان یا یوں کہیں کہ کمرے سٹے ہوئے ہیں۔پڑوس کی ایک خاتون نے ہمیں بتایا، ‘ یہاں روز دو بار صبح اور شام ایک ایک گھنٹے کے لئے پانی آتا ہے۔پانی صاف بھی نہیں ہوتا ہے۔یہاں کی آبادی کے لحاظ سے ایک گھنٹے کی پانی سپلائی بےحد کم ہے۔سب لوگ پانی نہیں بھر پاتے۔  ‘

ہم نے باقی تین مرنے والوں کی فیملی  سے بھی ملنے کی کوشش بھی کی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو پایا۔شنکر سنگھ کے چچا زاد بھائی روہت سے فون پر بات ہوئی۔روہت نے بتایا، ‘ شنکر سنگھ عرف راجا بہار کے مدھوبنی ضلع کے نور گاؤں کے رہنے والے تھے۔وہ ڈیڑھ-دو سال پہلے کام کی تلاش میں دہلی آئے تھے۔انہوں نے بھی 12ویں تک کی پڑھائی کی تھی۔ان کی فیملی میں تین بہنیں اور ماں باپ ہیں۔وہ اکلوتا بیٹا تھا۔ان کے والد گاؤں میں کھیتی کرتے ہیں۔

ہم نے ایک دوسرے مرنے والے  پنکج یادو کے چچا زاد بھائی کرشن یادو سے بھی بات کی۔ کرشن بھی کئی سالوں سے ڈی ایل ایف میں ہی کام کر رہے ہیں۔  پہلے دونوں بھائی ساتھ میں موتی نگر میں کام کرتے تھے لیکن ایک سال پہلے کرشن کا تبادلہ گڑگاؤں میں ہو گیا۔پنکج اتر پردیش کے جون پور ضلع کے گاؤں سادات بندولی کے رہنے والے تھے۔پنکج نے 10ویں کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ان کے دو چھوٹے-چھوٹے بچے ہیں۔ایک چار سال کا بیٹا اور ایک تین مہینے کی بیٹی۔پنکج اونتی انجینئرنگ اینڈ کنٹریکٹس پرائیویٹ لمٹیڈ میں کام کر رہے تھے، جس کو ڈی ایل ایف میں مینٹننس کا ٹھیکہ ملا ہوا ہے۔

ڈی ایل ایف سوسائٹی میں حادثے کے بعد  پولیس نے پلانٹ انچارج کو گرفتار کیا۔وہ جے اے ایل نام کی ایک ذاتی کمپنی کا ملازم ہے۔جے ایل ایل نے اس سوسائٹی میں مینٹننس کا ٹھیکہ اونتی اور کرسٹا نام کی دو کمپنیوں کو دے رکھا ہے۔ پولیس میں درج ایف آئی آر کے مطابق مرنے والوں میں چار اونتی اور ایک کرسٹا کی طرف سے نوکری کر رہے تھے۔پولیس نے آئی پی سی سیکشن 304 کے تحت معاملہ درج کیا۔واقعہ کے دو دن تک بی جے پی اور آپ کے رہنماؤں کی طرف سے بیان بازی ہوئی اور اس کے بعد تھم گئی جیسے کہ ہر بار ہوتا ہے۔

غور طلب ہے کہ سیور میں اتر‌کے اس طرح جان گنوانے کا واقعہ ملک کی راجدھانی میں پہلی بار نہیں ہوا ہے۔پچھلے ایک سال کے اندر ہی اس طرح کے حادثے میں کم سے کم 15 لوگوں کی موتیں ہوئیں۔وہیں پورے ملک کا اعداد و شمار دیکھیں تو حال ہی میں11موتیں ہوئی ہیں۔پچھلے 5-6 سالوں میں ملک بھر میں1876 لوگوں کی جان گئیں۔

صفائی کرمچاری تحریک کے چیئرمین اور میگسیسے انعام یافتہ بیزواڑا ولسن کا کہنا ہے کہ اگر دہلی کی بات کی جائے تو یہ تعداد 96 ہے۔این سی ایس کے،کے مطابق 2017 کی شروعات کے بعد سے ہر پانچویں دن ایک صفائی ملازم سیپٹک ٹینک صفائی کرتے ہوئے مر رہا ہے۔

2013 میں بنے قانون کے مطابق مینول اسکیوینجنگ ممنوع ہے۔بنا کسی حفاظت کی سہولیات کے لوگوں کو سیوروں میں اتار‌کر صفائی کروانا مینول اسکیوینجنگ کے تحت ہی آتا ہے۔

(سنتوشی مرکام  دی وائر میں انٹرن ہیں۔)