خبریں

چھتیس گڑھ : کیا سی بی آئی سیاسی دباؤ میں سینئر پولیس افسر کلوری کو بچانے میں لگی ہے؟

سی بی آئی کی انٹرنل رپورٹ کے مطابق دو گواہوں نے2011 میں چھتیس گڑھ میں بستر ضلع‎ کے تاڑمیٹلا گاؤں میں پولیس افسر ایس آر  پی کلوری کو آدیواسیوں کے گھروں میں آگ لگاتے ہوئے دیکھا تھا، لیکن جانچ ایجنسی کی فائنل چارج شیٹ سے اس کو ہٹا دیا گیا ہے۔

جنوری 2012 میں سی بی آئی کی ٹیم تاڑمیٹلا میں گاؤں والوں سے ملی۔  سی بی آئی ٹیم پر بھی اسپیشل پولیس افسروں نے حملہ کیا تھا اور ان کو گاؤں والوں سے ملنے سے روکا تھا۔

جنوری 2012 میں سی بی آئی کی ٹیم تاڑمیٹلا میں گاؤں والوں سے ملی۔  سی بی آئی ٹیم پر بھی اسپیشل پولیس افسروں نے حملہ کیا تھا اور ان کو گاؤں والوں سے ملنے سے روکا تھا۔

نئی دہلی: دو گاؤں والے جنہوں نے سی بی آئی سے یہ کہا تھا کہ انہوں نے چھتیس گڑھ پولیس کے سینئر افسر ایس آر پی کلوری کو 2011 کے ایک پولیس آپریشن کے دوران درجنوں قبائلی گھروں میں آگ لگانے والوں میں شامل دیکھا تھا، ان کے ناموں کو ایجنسی نے اوپر سے آئے ہدایتوں کی وجہ سے فردجرم میں گواہوں کی آخری فہرست سے ہٹا لیا ہے۔  یہ بات سی بی آئی کے لیک ہوئے دستاویزوں سے اجاگر ہوئی ہے۔

بستر کے تاڑمیٹلا کا یہ واقعہ -جو چھتیس گڑھ میں پولیس تشدد کی سب سے خوفناک مثالوں میں سے ایک ہے-کی تفتیش سپریم کورٹ کی ہدایت پر سی بی آئی نے کی تھی۔  کورٹ نے یہ ہدایت ریاست اسپانسرڈگرام رکشک آندولن سلوا جڈوم کو بند کرنے کے حکم دیتے ہوئے دی تھی۔

جہاں، سی بی آئی کے ڈائریکٹر آلوک ورما اور اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانا کے درمیان جھگڑا نامی لوگوں کے معاملے میں بد عنوانی اور طاقت کے غلط استعمال پر مرکوز ہے، وہیں چھتیس گڑھ کی فائل اس طرف ایک اشارہ کرتی ہے کہ ہندوستان کی سب سے مشہور تفتیش ایجنسی کی جانچ رپورٹ کو سیاسی ایجنڈے کے تحت اور متاثرہ لوگوں کو مقدمہ سے بچانے کے لئے کتنی آسانی سے بدلوائی جا سکتی ہے۔  ویسی حالت میں بھی جب جانچ‌کی ہدایت خود سپریم کورٹ کے ذریعے دئے گئے ہوں۔

2011 میں چھتیس گڑھ کے تاڑمیٹلا گاؤں میں آگ زنی کے واقعہ میں پولیس افسر ایس آر پی کلوری کے شامل ہونے کی دو گواہوں نے تصدیق کی تھی، لیکن ان کا نام چارج شیٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔

2011 میں چھتیس گڑھ کے تاڑمیٹلا گاؤں میں آگ زنی کے واقعہ میں پولیس افسر ایس آر پی کلوری کے شامل ہونے کی دو گواہوں نے تصدیق کی تھی، لیکن ان کا نام چارج شیٹ سے ہٹا دیا گیا ہے۔

دی وائر نے مارچ،2011 میں چھتیس گڑھ کے سکما ضلع‎ کے تین گاؤں-تاڑمیٹلا، تیماپورم اور مورپلی-میں ایک ہفتے چلے آریشن کے دوران آگ لگانے کے معاملے کی سپریم کورٹ کی ہدایت پر کی گئی سی بی آئی جانچ سے متعلق کاغذات کو حاصل کیا ہے۔

پولیس اور حکومت کا دعویٰ تھا کہ گاؤں میں آگ ماؤوادیوں نے لگائی۔  ایف آئی آر میں بھی یہی کہا گیا، جبکہ اس وقت کی کئی میڈیا رپورٹوں میں سیکورٹی اہلکاروں  کے ذریعے ان گاؤں میں آگ لگانے کی بات کی گئی تھی۔

گاؤں والوں نے سیکورٹی اہلکاروں  کے ذریعےریپ اور قتل کے بارے میں بھی بتایا تھا۔  یہ واقعہ اس وقت اور الجھ گیا جب درون پال میں سلوا جڈوم کے رہنماؤں نے سوامی اگنیویش پر حملہ کیا، جو متاثر ہ گاؤں میں راحت پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے۔

اکتوبر،2016 میں پولیس کی کہانی کے برعکس، سی بی آئی نے 7 اسپیشل  پولیس افسروں (ایس پی او) پر تیماپورم اور تاڑمیٹلا میں آگ زنی اور سلوا جڈوم کے پی وجے اورسویم موکا جیسے رہنماؤں سمیت 26 دیگر پر اگنیویش پر حملہ کرنے کا الزام طے کیا۔  لیکن سی بی آئی نے مورپلی گاؤں میں ریپ، قتل اور آگ زنی کے معاملے کو بند کر دیا۔

حالانکہ، پولیس نے فردجرم پر انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) ایس آر پی کلوری کی قیادت میں اپنا تیکھا رد عمل دیا-حقوق انسانی کے کارکنان کے پتلے جلائے گئے، سپریم کورٹ میں درخواست گزار اور سی پی آئی کے رہنما منیش کنجم کے پریس کانفرنس پر حملہ کیا گیا، درخواست گزار نندنی سندر اور دیگر کے خلاف قتل کا من گڑھت معاملہ دائر کیا، جس پر سپریم کورٹ نے روک لگا دی-لیکن سی بی آئی کے انٹرنل دستاویزوں نے ان امکانات کو جنم دیا ہے کہ اس کے فرد جرم کا مقصد جانچ افسر کے ذریعے اپنی کلوزر رپورٹ میں کئے گئے زیادہ گمبھیرنگرانی کی طرف سے سب کا دھیان بھٹکانا تھا۔

کلوزر رپورٹ کے طور پر سی بی آئی کی تفتیش دنتےواڑا کے اس وقت کے ایس ایس پی اور بعد میں بستر کے آئی جی بنے کلوری کے رول پر سوال اٹھاتی ہے اور اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ کس طرح سے پولیس اور انتظامیہ نے ریپ اور قتل جیسے گھناؤنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔یہ رپورٹ چھتیس گڑھ انتظامیہ کی سنگین چوک کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔  لیکن سی بی آئی کی تفتیش افسروں کے ذریعے کی گئی سفارشوں کے باوجود اس رپورٹ کو کبھی بھی سپریم کورٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔

سی بی آئی نے اس معاملے میں دو سال پہلے ہی فردجرم داخل کیا تھا، لیکن ملزم اسپیشل  پولیس افسر (ایس او پی)اورسلوا جڈوم کے رہنما آج تک رائے پور میں سی بی آئی کے خصوصی جج کے سامنے پیش نہیں ہوئے ہیں۔  جج کی یہ کرسی بھی ایک سال سے خالی پڑی ہے۔  یہاں سے تبادلہ کئے گئے جج کی جگہ کوئی نہیں آیا ہے۔

چھتیس گڑھ کے سینئر پولیس افسر ایس آر پی کلوری۔  (فوٹو بشکریہ: فیس بک/ Govind Raj Naidu)

چھتیس گڑھ کے سینئر پولیس افسر ایس آر پی کلوری۔  (فوٹو بشکریہ: فیس بک/ Govind Raj Naidu)

اپنے ہی نتائج پر لیپاپوتی کرنے کے لئے سی بی آئی نے اب ابھشیک شانڈلیہ کو چھتیس گڑھ کے انچارج ایس پی کے طور پر تقرر کیا ہے۔یہ دلچسپ ہے کہ شانڈلیہ اس وقت سکما کے ایس پی تھے، جب 2012 میں سی بی آئی کے جانچ افسروں پر خصوصی پولیس افسروں نے حملہ کیا تھا۔سی بی آئی اکثر ایسے مفادات کے ٹکراؤ سے پرہیز کرتی ہے، کیونکہ ایجنسی کو اکثر ایسے معاملوں کی تفتیش کرنی پڑتی ہے، جس کو ریاستی پولیس کے ذریعے بے پٹری کر دیا گیا ہوتا ہے، یا جس میں اس کے ہی ملوث ہونے کا شک ہوتا ہے۔

کیا ہوا تھا مارچ، 2011 میں

2011 میں11 مارچ سے 16 مارچ کے درمیان، اس وقت سکما کے ایڈیشنل ایس پی ڈی ایس ماراوی کی قیادت میں’327 جوانوں ‘کی ایک ٹیم نے ایس ایس پی دانتے واڑا کے حکم پر ایک ‘کھوج ابھیان’چلایا تھا۔  (ماراوی کے ذریعے دائر ایف آئی آر 4/2011)۔اس وقت دنتے واڑا کے ایس ایس پی کلوری تھے۔

گاؤں والے بتاتے ہیں کہ کام کے درمیان تین لوگوں کا -بھانڈا مورپلی کے ماڈوی سلا، پالن پاڑ کے بڈسے بھیما اور پالن پاڑ کے ہی منو یادو کا قتل کر دیا گیا تھا۔  تین خواتین کے ساتھ ریپ  کیا گیاتھا۔  مورپلی میں دو اور تاڑمیٹلا میں ایک۔مورپلی میں کل 33، تیماپورم میں 59 گھر جلائے گئے تھے اور تاڑمیٹلا میں 160 گھروں کو آگ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔میڈیا میں اس واقعہ کی رپورٹنگ 23 مارچ کو کی گئی۔  اور اس کے بعد ہی پولیس نے آگ زنی کو لےکر ایف آئی آر دائر کرنے کی زحمت اٹھائی۔  حالانکہ، پولیس کی ایف آئی آر میں ماؤوادیوں پر الزام لگایا گیا ہے۔

کلکٹر اور کمشنر نے 24 مارچ کو موقع واردات کا دورہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کو پولیس کے ذریعے واپس لوٹا دیا۔خصوصی پولیس افسروں نے کمشنر کے ذریعے راحت پہنچانے کے لئے لگائے گئے ٹرک کے ڈرائیور کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔  مقامی صحافیوں کو بھی روکا گیا۔آخرکار جب سوامی اگنیویش نے 26 مارچ کو گاؤں کو راحت پہنچانے کی کوشش کی تب ان پر اور ان کے پیروکاروں پر درون پال پر بےرحمی سے حملہ کیا گیا۔

اسمبلی میں کانگریس کے ذریعے اور باہر نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے ذریعے سوال پوچھے گئے۔  10 اپریل،2011 کو تاڑمیٹلا کی ایک ریپ متاثرہ نے جگدل پور میں ہوئی عوامی سماعت میں اپنی آپ بیتی سنائی۔5 جولائی،2011 کو سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے کہ اس کو ریاستی حکومت کے حکم سے کرائی جانے والی کسی تفتیش میں بھروسہ نہیں ہے، واقعہ کی سی بی آئی جانچ‌کے حکم دئے۔

اتفاق سے فروری، 2012 میں سی بی آئی پر خود خصوصی پولیس افسروں کے ذریعے درون پال میں حملہ ہوا، جس کے بعد تفتیش کو کچھ وقت کے لئے روک دیا گیا۔  جب تفتیش پھر سے شروع ہوئی، تب گاؤں والوں کو گواہی دینے کے لئے 200 کلومیٹر دور جگدل پور جانا پڑا۔

جنوری 2012 میں سی بی آئی ٹیم آگ زنی سے متاثر ایک گاؤں میں لوگوں سے ملنے گئی تھی تب خصوصی پولیس افسروں نے ٹیم پر حملہ کر دیا تھا اور ان کو گاؤں والوں سے ملنے سے روکا تھا۔

جنوری 2012 میں سی بی آئی ٹیم آگ زنی سے متاثر ایک گاؤں میں لوگوں سے ملنے گئی تھی تب خصوصی پولیس افسروں نے ٹیم پر حملہ کر دیا تھا اور ان کو گاؤں والوں سے ملنے سے روکا تھا۔

ایک تازہ ایف آئی آر کی ضرورت ہونے کے باوجود، جس میں ریپ  اور قتل کے الزامات کو شامل کیا جاتا ہے، سی بی آئی کے ذریعے ریاستی حکومت کو بچانے کی پہلی کوشش تب کی گئی، جب اس نے پولیس کی ایف آئی آر کو اپنی تفتیش کی بنیاد بنایا۔سی بی آئی کے ذریعے اکتوبر، 2016 میں دائر کی گئی ایف آئی آر میں ماراوی، جو اس وقت ایڈیشنل ایس پی تھے، کو شکایت گزار کے طور پر لسٹ کیا گیا۔  حقیقت یہ ہے کہ 2011 میں آگ زنی کے واقعہ کی قیادت کرنے کی وجہ سے، ان کو اہم ملزم بنایا جانا چاہیے تھا۔

معاملے میں ایس آر پی کلوری کی شمولیت

23 اکتوبر، 2016 کو کئے گئے ایک پریس کانفرنس میں، یعنی سی بی آئی کے ذریعے فردجرم دائر کرنے کے ٹھیک بعد، کلوری نے ان آپریشنوں کی پوری ذمہ داری لی تھی اور کہا تھا کہ ان کو این ایچ آر سی میں جانے کے لئے مجبور کیا گیا۔انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ تاڑمیٹلا کے گھروں میں پولیس اور نکسل کے درمیان گولی باری کی وجہ سے آگ خودبخود لگ گئی، کیونکہ یہ گرم تھا۔

سی بی آئی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این ایچ آر سی کے بارے میں دعویٰ’چھتیس گڑھ پولس کی شرارتی ذہن کی پیداوار ہے، کیونکہ اس کے ذریعے وہ نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کی شکایتوں پر تفتیش سے بچنا چاہتے ہیں۔  حالانکہ ان کے ذہن میں یہ پہلے دن سے ہی صاف تھا کہ یہ آپریشن  صرف نکسل مخالف آپریشن تھا۔اس رپورٹ میں دو گواہوں کے ناموں کا ذکر کیا گیا ہے، جنہوں نے کلوری کو آگ لگانے میں شامل دیکھا، لیکن ان کے ناموں کو اوپر سے آئے ‘ہدایتوں’کی وجہ سے آخری فردجرم میں گواہوں کی فہرست سے باہر کر دیا۔

سی بی آئی کی انٹرنل رپورٹ میں کلوری کے بارے میں یہ کہا گیا ہے:

آرسی10(ایس)/2011 میں دو گواہ ہیں، جنہوں نے تاڑمیٹلا گاؤں میں آگ لگانے والوں میں شری ایس آر پی کلوری کا نام لیا ہے، جو اس وقت دنتےواڑا کے ڈی آئی جی-ایس ایس پی تھے۔

ایس آر پی کلوری کی ٹور  پروگرام سے بھی یہ پتا چلتا ہے کہ وہ اس دوران چنتل نار چوکی پر موجود تھے۔اس لئے ایس آر پی کلوری کےرول کو بھی پوری طرح سے خارج نہیں کیا جا سکتا ہے۔

اگر گاؤں والوں کے ذریعے پہچان کئے گئے خصوصی پولیس افسروں (ایس او پی)کے خلاف مقدمہ چلانے کی سفارش کو صحیح مانا جاتا ہے، تو یہی دلیل ایس آر پی کلوری اور ڈی ایس ماراوی پر بھی نافذ ہوگی، کیونکہ ان کی پہچان بھی گاؤں والوں کے ذریعے کی گئی ہے اور وہ آپریشن کی قیادت کر رہے تھے۔

گاؤں والوں کے بیانات کے علاوہ کوئی اور ثبوت ایسا نہیں ہے جو یہ ثابت کر سکے کہ گاؤں والوں کے ذریعے پہچان کئے گئے خصوصی پولیس افسر‎ واقعہ والے دن گاؤں میں داخل ہوئے تھے یا نہیں۔

اگر ہم سی آر پی ایف/کوربا کے بیانات کوخصوصی پولس افسروں کے گاؤں میں داخل ہونے کے علاوہ ثبوت کے طور پر دیکھیں، تو یہ بتانا مفید ہوگا کہ انہوں نے کسی آدمی کا نام لئے بغیر تمام خصوصی پولیس افسروں/چھتیس گڑھ پولیس پارٹی کے بارے میں عام طور پر بتایا ہے۔

اس لئے اگر ان کا ثبوت نجی طور پر خصوصی پولیس افسروں (ایس پی او)پر نافذ ہوتا ہے، تو یہ ایس آر پی کلوری اور ڈی ایس ماراوی پر بھی نافذ ہوگا۔

جانچ‌کے دوران جمع کئے گئے ایس آر پی کلوری کے ٹور پروگرام کے مطابق وہ مذکورہ مدت کے دوران چنتل نار چوکی پر موجودتھے اور تاڑمیٹلا گاؤں چنتل نار چوکی سے صرف 10/12 کلومیٹر دور ہے۔

جہاں کلوری پر لئے گئے یو-ٹرن نے یہ یقینی بنایا کہ متاثر کن پولیس افسروں کو مقدمہ کا سامنا نہیں کرنا پڑے‌گا، وہیں آخری چارج شیٹ کو اس طرح سے تیار کیا گیا تاکہ سی بی آئی کے زیادہ پریشانی پیدا کرنے والے نتائج کو کمزور کیا جا سکے۔

کیسے کی سی بی آئی نے اپنے ہی نتائج پر لیپاپوتی

سی بی آئی کی انٹرنل رپورٹ اور اس کے ذریعے کورٹ میں دائر چارج شیٹ کے درمیان فرق کئی پوائنٹس پر بہت صاف ہے:

آگ زنی

سی بی آئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بات کو لےکر کوئی سوال نہیں ہے کہ 16 مارچ، 2011 کو تاڑمیٹلا گاؤں میں 160 گھروں کو جلا دیا گیا تھا۔سوال یہ ہے کہ یہ کام آخر کس نے کیا-کیا یہ کام ماؤوادیوں نے کیا، جیسا کہ پولیس ایف آئی آر کا دعویٰ ہے ؛ یا یہ کام سیکورٹی اہلکاروں  کا ہے، جیسا کہ گاؤں والوں کا دعویٰ ہے۔

سی بی آئی کی چارج شیٹ یہ صاف صاف کہتی ہے کہ گاؤں والوں نے گھروں کو جلانے کے لئے ذمہ دار کچھ چنے ہوئے خصوصی پولیس افسروں کا نام لیا۔اس طرح سے یہ چارج شیٹ گاؤں والوں کے دعویٰ کو اپنے الزام کی واحد بنیاد بناتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ انٹرنل رپورٹ کہیں زیادہ مہلک ہے:

‘ سی آر پی ایف/کوربا سے گواہوں نے کہا ہے کہ مقامی پولیس/خصوصی پولیس افسر گاؤں میں داخل ہوئے تھے اور وہ صرف نالا کے باہر سے گاؤں کی گھیرابندی کر رہے تھے۔  یہ ایف آئی آر کے مضمون کے جھوٹ اور ساتھ ہی پولیس/ایس پی او کے ان بیانات کے جھوٹ کو بھی کہ وہ کبھی تاڑمیٹلا گاؤں میں داخل نہیں ہوئے تھے، کے جھوٹ کو ثابت کر دیتا ہے۔  ‘

اس سے آگے گاؤں والوں نے سیکورٹی اہلکاروں نے آگ لگانے کے لئے ماچس اور گھروں کے اندر سے جلتی ہوئی لکڑی کا استعمال کرنے کی بات کہی تھی۔  سی ایس ایف ایل کی رپورٹ میں بھی مٹی کے تیل یا کسی دھماکہ خیز مادے کی بات نہیں کی گئی ہے۔  ‘اس لئے سی ایف ایس ایل کی منفی رپورٹ کو بھی گاؤں والوں کے بیانات کو مضبوطی دینے والے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔  ‘

جہاں تک پولیس کے اس دعویٰ کا سوال ہے کہ ماؤوادیوں نے گھروں کو جلایا، سی بی آئی کی رپورٹ کا کہنا ہے، ‘ایف آئی آر اور پولیس جوانوں کے بیانات کے علاوہ اس کی تصدیق کرنے کے لئے کوئی دوسرا ثبوت موجود نہیں ہے۔  ‘

نکسلیوں کی موجودگی اور گولی باری

ماراوی کے ذریعے دائر ایف آئی آر کے مطابق :’صبح 7-8 بجے کے قریب، تاڑمیٹلا پہنچنے کے لئے ندی کو پار کرتے وقت ہتھیاربند نکسلیوں نے پولیس پارٹی کو نقصان پہنچانے کے لئے ان پر گولیاں چلائیں۔  پولیس پارٹی نے جواب میں گولیاں چلائیں اور مسلح نکسلوں کو گھیرنے کی کوشش کی۔مسلح نکسلوں نے گھروں میں آگ لگا دی اور جنگل کی طرف بھاگ گئے۔  پولیس  نے ان کا پیچھا کیا، مسلح نکسلوں نے بھی پولیس پر حملہ کیا اور پولیس  پر گولیاں چلاتے رہے۔  پولس پارٹی کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔  ‘

پولیس ایف آئی آر نے ماؤوادیوں کے لئے قتل اور فساد کرنے کی کوشش کرنے کا معاملہ درج کیا ہے۔

لیکن سی بی آئی کی اندرونی رپورٹ میں کہا گیا ہے :

‘ اس کے برعکس دیگر پولیس/سی آر پی ایف گواہوں نے جو نالا کے پاس موجود تھے، نے نکسلیوں کے حملے کا مقابلہ کرنے یا گولیوں کی آواز سننے کی بات نہیں کی ہے۔  اگر نکسلیوں کے ذریعے بھاری گولی باری ہوتی، جس کی وجہ سے وہ گاؤں میں داخل نہیں ہو سکے، تو کم سے کم سارے سیکورٹی اہلکاروں کو حملے کی جانکاری ہوتی اور ان کو گولیوں کے چلنے کی آواز سنائی دی ہوتی۔  اس سے اصل میں اس بات کو لےکر شک پیدا ہوتا ہے کہ کیا سچ مچ نکسلیوں کے ساتھ کوئی تصادم ہوا بھی تھا، جیسا کہ پولیس نے دعویٰ کیا ہے۔  ‘

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام گاؤں والوں نے اس تاریخ کو گاؤں میں کسی نکسل کے موجود ہونے سے انکار کیا۔اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ ماؤوادیوں کی موجودگی کا امکان نہیں تھا، سی بی آئی نے بھی ان کے خلاف فساد کرنے اور قتل کی کوشش کے الزامات کو خارج کر دیا۔

غیر قانونی حراست اورٹارچر

سی بی آئی کی انٹرنل رپورٹ میں کہا گیا ہے :’ایف آئی آر میں غیر قانونی حراست کو لےکر کوئی الزام نہیں لگایا گیا تھا، لیکن جانچ‌کے دوران تاڑمیٹلا گاؤں کے کچھ باشندوں نے جسمانی اذیت اور غیر قانونی حراست کا الزام لگایا۔  دو طرح کے غیر قانونی حراست اوراذیت کے الزام لگائے گئے ہیں،1۔ ماڈوی ہانڈا اور ماڈوی ایٹا کی غیر قانونی حراست۔  پولیس اہلکاروں نے ان کو پکڑ لیا اور ان کو چنتل نار چوکی لےکے گئے۔

  2۔ عام طور پر گاؤں والوں کو غیر قانونی طریقے سے حراست میں لے لیا گیا۔  اس کے ساتھ ہی پولیس اہلکاروں کے ذریعے گاؤں والوں کی پٹائی کی گئی، ان کو جبراً گھر سے باہر نکالا گیا، ان کو ممنوعہ علاقے میں کھڑا کیا گیا اور گھروں میں آگ لگا دی گئی۔  ‘

جنوری 2012 میں آگ زنی سے متاثر گاؤوں میں سے ایک میں سی بی آئی ٹیم۔

جنوری 2012 میں آگ زنی سے متاثر گاؤوں میں سے ایک میں سی بی آئی ٹیم۔

سی بی آئی نے ماڈوی ہانچھا اور ایٹا کے بیانات کی تصدیق کرنے کے لئے کہ ان کو پکڑ‌کر لے جایا گیا، سی آر پی ایف کے علاوہ تحصیل دار کے بیانات کا حوالہ دیا ہے۔  جہاں تک عام طور پر گاؤں والوں کی پٹائی کا تعلق ہے، سی بی آئی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ واقعہ کے طےشدہ وقت اور جگہ کو لےکر متضاد بیانات ہیں، لیکن اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ گاؤں والے ناتجربہ کار ہیں، اور وہاں چار پلی ہیں اور حالت کافی افراتفری  والی تھی، سی بی آئی نے گاؤں والوں کی طرف داری کی  ہے :

‘ گاؤں والوں کے سارے بیانات میں یکساں بات یہ ہے کہ سیکورٹی اہلکار گاؤں میں داخل ہوا، انہوں نے کئی گاؤں والوں کو پیٹا، کئی گاؤں والوں کو زبردستی ان کے گھروں سے باہر نکال دیا گیا، کئی لوگوں  کو پکڑ لیا گیا اور گاؤں کی ایک طےشدہ جگہ پر ان کو قید کرکے ان کے گھروں میں آگ لگا دی گئی۔  ‘

ریپ

پولیس کی ایف آئی آرریپ کو لےکر خاموش تھی، لیکن سی بی آئی نے اس کو گاؤں والوں کی شکایتوں کی بنیاد پر درج کیا۔  چارج شیٹ میں ریپ پر جو کہا گیا ہے اور اس کے بارے میں انٹرنل نوٹ میں جو کہا گیا ہے، ان میں فرق سب سے زیادہ دھیان کھینچنے والا ہے۔  چارج شیٹ کے مطابق،

شریمتی ایم جے ان کے ساتھ ریپ کرنے والے کسی آدمی کی پہچان نہیں ہو پائی۔  الزامات کی تصدیق کرنے والا کوئی ثبوت جانچ‌کے دوران نہیں ملا۔کلوزر رپورٹ کے مطابق، حالانکہ ریپ کا ہونا ثابت ہے، لیکن مجرم کی پہچان نہیں کی جا سکتی ہے :

‘ حالانکہ ریپ کے الزام خود متاثرہ کے بیان سے ثابت ہوتے ہیں اور اس کی آنکھ کے نزدیک پائے گئے چوٹ کے نشان اور اس کے بیہوش پڑے ہونے کی حقیقت سے اس کی تصدیق بھی ہوتی ہے، لیکن چونکہ اس بتائے گئے جرم کے لئے کسی آدمی کی شناخت نہیں کی جا سکی، اس لئے اس معاملے میں آگے کوئی کارروائی نہیں کی جائے‌گی۔  ‘

ان نتائج کے حساب سے متاثرہ کچھ نہیں تو معاوضے کی تو حق دار ہے ہی۔

ریکارڈس میں موجود تضاد

تیماپورم گاؤں کے معاملے میں دائر کی گئی چارج شیٹ میں سی بی آئی منو یادو اور باڈسے بھیما نامی دو گاؤں والوں کا سیکورٹی اہلکاروں کے ذریعے قتل کے الزامات پر پوری طرح سے خاموش ہے۔

حالانکہ، اس کی انٹرنل کلوزر رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ گمنام نکسل  اصل میں ایک معمولی کسان منو یادو تھا، جس کو خصوصی پولیس افسروں کے ذریعے اس کے گھر سے اٹھاکر لے جایا گیا تھا اور اس کا قتل کر دیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں درج وقتوں، تفتیش کی  رپورٹ، مبینہ طور پر پہنے گئے کپڑے اور دو  سی آر پی ایف جوانوں کے ذریعے مہیّا کرائے گئے ثبوتوں میں فرق کا اشارہ کرتے ہوئے رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے:

‘ اس سے یہ شک پختہ ہوتا ہے کہ شاید جیسا کہ گاؤں والوں کا الزام ہے، سوڈی منو کو چھتیس گڑھ پولیس کے اہلکاروں کے ذریعے پہلے اغوا کر لیا گیا، اس کے بعد اس کا قتل کر دیا گیا، جب وہ سیکورٹی اہلکاروں  کی قید سے بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔  ‘

مورپلی گاؤں کے بارے میں سی بی آئی کورٹ میں دائر کلوزر چارج شیٹ میں، جہاں گاؤں والوں کے ذریعے دوریپاور ایک قتل کا الزام لگایا گیا تھا، سی بی آئی کا نتیجہ ہے کہ حراست میں ریپ کو ثابت نہیں کیا جا سکا، کیونکہ متاثرہ نے چنتل نار تھانہ میں ایک خاتون ایس پی او کے ہونے کی بات کہی تھی اور پولیس ریکارڈ کے مطابق اس دن تھانے میں کوئی خاتون ایس پی او تعینات نہیں تھی۔

لیکن پولیس ریکارڈس کی حالت کو دیکھتے ہوئے اور کسی بھی طرح کی غلطی پر لیپاپوتی کی جی-جان سے کی جانے والی کوشش کو دیکھتے ہوئے، جس کا ذکر خود سی بی آئی نے کیا ہے، اس میں کچھ بھی حیرت کےلائق نہیں ہے۔اصل میں سکما کے ایس پی کے ذریعے جوانوں کی جو فہرست مہیا کرائی گئی، اس میں اس ایس پی او کا ذکر تک نہیں ہے، جو آپریشن میں مارا گیا۔

سی بی آئی کی انٹرنل کلوزر رپورٹ سی بی آئی کی جانچ‌کے تئیں ریاستی پولیس کی لاپروائی بھرے رویے کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔  جب ان سے مارچ، 2011 میں تیماپورم میں ضبط کئے گئے نکسلی لٹریچر کو بھیجنے کے لئے کہا گیا،تب انہوں نے 2013 سے جڑے سامان بھیج دی۔

(نوٹ : نندنی سندر اس معاملے میں سپریم کورٹ میں درخواست گزار ہیں، جن کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سی بی آئی کو 2011 کے معاملے کی جانچ کی ذمہ داری سونپی گئی۔  وہ دی وائر کے  ایک بانی مدیر کی اہلیہ ہیں۔)