حقوق انسانی

ورق در ورق: پولیس کے تخلیقی چہرے کو سامنے لاتی ایک کتاب

انداز بیان کے مشمولات خاصے وقیع ہیں گو کہ بعض مضامین کی نوعیت رسمی اور تحسینی ہے پھر بھی مدیر مقدمات کی تدوین اور نتائج کے استخراج سے یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ محکمہ پولیس سے وابستہ افراد اجتماعی واردات اور انسانی المیہ سے بے خبر نہیں ہوتے۔

Andaz-e-Bayan

انسانی حقوق کی پاسداری، سماجی انصاف، جمہوری اقدار کی آبیاری اور باہمی افہام و تفہیم سے مسائل کے پر امن حل پر اصرار کو اکیسویں صدی کا بنیادی شناس نامہ متصور کیا جاتا ہے مگر یوں بھی ہے کہ اسمارٹ فون اور خفیہ کیمرہ کے پیہم استعمال سے انفرادی (Individual) اور اجتماعی (Collective)میں فرق معدوم ہو گیاہے اور حکومت، خواہ وہ جمہوری ہو یا آمرانہ، شہریوں کی ہر سرگرمی پر نظر رکھنا اپنی بقا کا ضامن سمجھتی ہے۔ نئی اطلاعاتی تکنالوجی کے بے محابا استعمال نے اکثر ملکوں کو مخبروں کی مملکت (Nation of Informers)میں تبدیل کر دیا ہے۔حکومتیں اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے قانونی تدابیر کو بروئے کار لاکر تشدد اور استحصال کو روا رکھتی ہیں۔ اسی صورت حال کو فرانز کافکا نے اپنے بے مثال ناول قلعہ (The Castle)میں قانون اساس تشدد (Violence through law) سے تعبیر کیا ہے۔

حکومت اپنی مقصد براری کے لیے پولیس اور دیگر تفتیشی ایجنسیوں کا استعمال کرتی ہے اور انہیں وسیع تر اختیارات دیتی ہے جس کے باعث نہ صرف شہریوں کو ہر قسم کی ناانصافی اورتشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے والی پولیس ان کی بدترین دشمن ثابت ہوتی ہے۔ پولیس بدعنوانی، ظلم اور استحصال کا استعارہ بن جاتی ہے اور سیاست داں، پولیس اور نوکر شاہی کی ملی بھگت ہر ملک کو جارج آرویل کے مطابق پولیس اسٹیٹ میں بدل دیتی ہے۔ جارج آرویل کا ناول 1984اس اجمال کی تفصیل پر گواہ ہے۔

یہ مسئلہ کا ایک رخ ہے اور اسے عام طور پر ایک مسلمہ صداقت کے طور پر تسلیم بھی کیا جاتا ہے مگر ادب فہم عامہ (Common Sense) پر مبنی ہر فیصلہ پر سوالیہ نشان قائم کرتا ہے اور مسئلہ کے ممکنہ تمام پہلوؤں کی طرفیں کھولتا ہے۔ اس نوع کا لائق تحسین اور خیال انگیز کارنامہ معروف نوجوان نقاد اور صحافی حقانی القاسمی نے حال ہی میں انجام دیا ہے کہ انہوں نے پولیس کے تخلیقی امکانات سے قارئین کو واقف کرانے کی غرض سے اپنے ایک موضوعی مجلہ انداز بیان کا خصوصی شمارہ شائع کیا ہے۔ حقانی کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ پولیس کو انسانی دردمندی سے یکسر عاری سمجھنا ایک غیر منصفانہ رویہ ہے جو ہمارے معاشرے کو بڑی حد تک خوش آتا ہے۔

اس سے تو لوگ واقف ہیں کہ انگریزی کے معروف شاعر کے کی دارووالا، تمل کی ممتاز ناول نگار تلکاوتی، اردو کے ممتاز شعرا عین رشید، خلیل مامون، شجاع خاور، فیاض فاروقی، فکشن نگار ظفر عمر (بہرام کی گرفتاری، لال کٹھور اور نیلی چھتری کے مشہور مصنف)، پیغام آفاقی، پنجابی کے ممتاز ڈرامہ نگار سوراج ویر سنگھ، اُڑیہ کے مشہور ادیب وپن بہاری مشرا، منی پوری کے ممتاز قلم کار اور مترجم ایس آئی بوچا اور ہندی کے معروف فکشن نگار وبھوتی نرائن رائے کا تعلق محکمہ پولیس سے رہا ہے مگر اس کے علاوہ بھی اردو میں بہت سے ایسے شاعر ، نثر نگار، نقاد، صحافی، محقق اور سوانح نگار گذرے ہیں جو محکمۂ پولیس سے وابستہ رہے ہیں۔

400 سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مجلہ اردو میں بالکل ایک نئے اور بہت اہم موضوع پر خیال انگیز ڈسکورس قائم کرتا ہے اور بیشتر مضامین یہ باور کراتے ہیں کہ محکمہ پولیس سے وابستہ افراد نے فنون لطیفہ علی الخصوص ادبی اصناف میں اپنی تخلیقی انفرادیت کے لازوال نقوش مرتسم کیے ہیں۔ اس سے یہ بھی متبادر ہوتا ہے کہ ان کے باطن بھی انسانی دردمندی کی آگ سے روشن ہیں اور ان کے حسی ارتعاشات زندگی کے نادیدہ پہلوؤں کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ مدیر کا یہ شکوہ درست ہے کہ ؛

ان کا (محکمہ پولیس سے وابستہ افراد کا) حساس ذہن سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کے ادراک میں کامیاب ہے۔ ان کے اندر بھی جذبات کا دریا موجزن ہے۔ وہ ساری خوبیاں جو ایک آرٹسٹ یا فن کار میں ہوتی ہیں ان سے یہ بھی متصف ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ انہیں کسی بھی جامعہ یا دانش گاہ میں نہ تو موضوع کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی انفرادی طور پر پولیس کی ادبی خدمات کو موضوع بنایا گیا ہے۔

یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ ان اہم فن کاروں پر تو ضرور لکھا گیا ہے جو پولیس میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے مگر بحیثیت مجموعی پولیس کی ادبی خدمات کو موضوع بحث نہیں بنایا گیا ہے۔ ویسے کسی ایک مخصوص محکمہ یا پیشہ سے وابستہ افراد کو موضوع بحث بنانا فی نفسہٖ بہت اہم بات نہیں ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ زیر مطالعہ فن کار کی انفرادیت کو دقت نظر سے واضح کیا جائے اور اس کے ادبی سرمایہ کی معروضی تعین قدر پر توجہ مرکوز کی جائے۔

حقانی القاسمی کو پیش پا افتادہ موضوعات سے طبعاً نفور ہے اور ان کی تحریریں طباعی اور تخلیقی فطانت کو خاطر نشان کرتی ہیں۔اس شمارہ میں بھی انہوں نے اردو کے مشہور اور ضخیم تذکرہ ‘خم خانہ جاوید'(مصنف لالہ سری رام، پانچ جلدیں)سے استفادہ کرتے ہوئے ان شعرا کا تذکرہ کیا جو محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔اس نوع کے شعرا میں پنڈت کاشی ناتھ شیدا، منشی طالب علی خاں اور سید محمد عسکری عدیل کے نام شامل ہیں۔مصنف نے پھر مختلف صوبوں مثلاً اتر پردیش، مدھیہ پردیش، جھارکھنڈ، گجرات، راجستھان، بہار، مہاراشٹراور مغربی بنگال وغیرہ کے ان شعرا کا تذکرہ لکھا ہے جن کا تعلق پولیس سے تھا۔

تخلیقی ادب کے علاوہ محکمۂ پولیس میں ملازم حضرات نے تحقیق و تنقید اور صحافت کے میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔اس ضمن میں حقانی نے آغا حیدر حسن مرزا (جنہوں نے دکنی لغت دکنی مخطوطات کی تدوین کی اور دکن کے محقق اور مخطوطہ شناس کے طور پر شہرت حاصل کی)، مولانا احترام الدین شاغل (مصنف تذکرہ شعرائے جے پور)، مولوی عبد الرحیم بیگ (مصنف ساطع برہان)، معین الدین حسن خاں (مصنف خدنگ نظر)، چودھری نبی احمد سندیلوی (مصنف وقائع عالم گیری، تذکرہ مورخین وغیرہ)، ڈاکٹر نریند ناتھ منی (مصنف اردو نظموں میں قومیت اور وطنیت 1857ء) اور معصوم عزیز کاظمی (مصنف مولانا محمد علی جوہر) کے علمی اور تحقیقی اکتباسات کا ذکر کیا ہے۔

شجاع خاور کی غزلیں ایک نئے طرز احساس کی غماز ہیں گو کہ ان کی شاعری کو کم ہی موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔ ‘انداز بیان’ میں شجاع خاور کے فن سے متعلق تین مقالے شریک اشاعت کیے گئے ہیں۔ اردو کے سربرآوردہ نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنے مضمون ‘شجاع خاور: ہیں اہل خرد کس روش خاص پر نازاں’میں لکھا ہے کہ شجاع خاور نے Subversionکو اپنے فن میں اساسی اہمیت دی ہے، یہی سبب ہے کہ طنز اور تعریض کے اسالیب بطور خاص استعمال کیے گئے ہیں۔ نارنگ صاحب کا خیال ہے کہ معنی کی جدلیت کو بروئے کار لانا ہر قابل ذکر شاعر کی صفت ہے اور شجاع خاور نے طرفگی اور تازہ کاری کے نئے امکانات ہویدا کرنے کے لیے قول محال سے تواتر کے ساتھ تخلیقی سطح پر استفادہ کیا۔ الفاظ معنی کی ترسیل نہیں کرتے ہیں بلکہ اخفا کرتے ہیں، اسی لیے شجاع خاور نے کہا ؂

مطلب مری تحریر کا الفاظ سے مت پوچھ

الفاظ تو مفہوم چھپانے کے لیے ہیں

پروفیسر قاضی عبید الرحمان ہاشمی کے نزدیک شجاع خاور کا کمال یہ ہے کہ ،’وہ بڑی سے بڑی بات اتنی سہولت اور غیر رسمی انداز میں کہہ جاتے ہیں کہ قاری آئینہ حیرت بن جاتا ہے’۔ شجاع خاور کی شاعری کا بنیادی رمز سہولت اظہار ہے اور ان کی شاعری میں گفتگو کی سی برجستگی ہے جس کی نشاندہی کم کی گئی ہے۔ شجاع خاور کو غزل میں گفتگو کا شاعر قرار دینا ایک نوع کی تنقیدی سہل انگاری ہے۔

خلیل مامون ہمارے عہد بہت اہم شاعر ہیں اور ان کی شاعری علی الخصوص نظمیں اخترا لایمان کی سی گہری دبازت اور تخلیقی اضطراب کی نئی منزلوں کا پتہ ریتی ہے۔ خلیل مامون کی نظموں کا سب سے اچھا مطالعہ محمود ہاشمی نے کیا ہے جن کی بے مثال تنقیدی ژرف نگاہی کا اعتراف شاذ ہی کیا گیا ہے۔ خلیل مامون کی ایک نظم ‘راستہ کوئی نہیں’کو تجزیہ کے عمل سے گزار کر محمود ہاشمی نے لکھا ہے کہ خلیل نے اپنے عہد میں ظلمت کی رات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ذات کی تابانی اور احساس بیداری کو زرہ بکتر بنا لیا ہے جو تمام بھیانک قوتوں کے خلاف انسان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ خلیل مامون کا تعلق بنگلور سے ہے جوممتاز شیریں اور محمود ایاز کے باعث ادبی منظر نامہ کا ناگزیر حصہ رہاہے۔ اب بھی خلیل مامون اور شائستہ یوسف کے باعث بنگلور کی ادبی اہمیت برقرار ہے۔

‘مکان’اور’پلیتہ’پیغام آفاقی کے دو اہم ناول ہیں اور یہ اردو فکشن کے Stock in trade تصور کی تکذیب کرتے ہیں۔ اس شمارے میں پیغام آفاقی کے فن سے متعلق پانچ مضامین شائع کیے گئے ہیں۔ مکان پر تو خاصی گفتگو کی گئی ہے مگر پلیتہ ادبی دنیا کو زیادہ متوجہ نہیں کر سکا۔ پلیتہ میں زبان و بیان کی فاش غلطیاں کثرت سے راہ پا گئی ہیں اور علالت نے پیغام آفاقی کو نظر ثانی کا موقع نہیں دیا۔ پھر بھی یہ ناول کالے پانی اور جزیرہ انڈمان کے سیاسی اور تہذیبی تناظر کو عصری معنویت سے تخلیقی سطح پر ہم آہنگ کرتا ہے۔

پولیس سے وابستہ اہم فن کاروں پر مضامین کے علاوہ پولیس کے تخلیقی خانوادہ اور اردو افسانے میں پولیس کے کردار کے جائزے پر مبنی مضامین بھی شریک اشاعت کیے گئے ہیں۔ انداز بیان میں ان افراد کا بھی ذکر کیا گیا ہے جن کے والد کا تعلق محکمہ پولیس سے رہا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم نام شہریار کا ہے۔ نیاز فتح پوری، مرزا حامد بیگ اور امراؤ طارق کا تعلق بھی پولیس سے تھا، یہ اطلاع نئی اور اہم ہے۔ فاروق ارگلی نے ریاض خیرآبادی پر ایک مضمون سپرد قلم کیا ہے تاہم اس کی صراحت موجود نہیں ہے کہ ریاض خیرآبادی محکمہ پولیس سے کب منسلک رہے۔

انداز بیان کے مشمولات خاصے وقیع ہیں گو کہ بعض مضامین کی نوعیت رسمی اور تحسینی ہے پھر بھی مدیر مقدمات کی تدوین اور نتائج کے استخراج سے یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ محکمہ پولیس سے وابستہ افراد اجتماعی واردات اور انسانی المیہ سے بے خبر نہیں ہوتے۔

(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)