فکر و نظر

اخلاق کا گاؤں: ’آپ لوگ جائیے، ہم اپنے جہنم میں خوش ہیں‘

بھیڑ کے ذریعے پیٹ پیٹ‌کر محمد اخلاق کو مار دئے جانے کے تقریباً 4 سال بعد دادری کے بساہڑا گاؤں میں کوئی پچھتاوا نہیں دکھتا۔ یہاں کے مسلمانوں نے خود کو مقدر کے حوالے کر دیا ہے۔

دادری کے بساہڑا میں آویزاں  بی جے پی امیدوار کا بینر(فوٹو : دی وائر)

دادری کے بساہڑا میں آویزاں  بی جے پی امیدوار کا بینر(فوٹو : دی وائر)

دادری:‘ڈر تو لگتا ہے، لیکن یہاں سے کہاں جائیں‌گے۔ مرنا تو اب بھی ہے، تب بھی۔ لیکن اس کی رضا کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ ‘گریٹر نوئیڈا کے دادری علاقے کے بساہڑا گاؤں کی حسینہ بی(تبدیل شدہ نام)دھیرے سے یہ کہتی ہیں مانو اب ان کو اپنی قسمت سے کوئی امید باقی نہیں رہ گئی ہے۔بساہڑا گاؤں کا نام 2015 میں اس وقت  سرخیوں میں آیا تھا، جب 55 سال کے محمد اخلاق کو گائے کا گوشت رکھنے کے شک کی وجہ سے بھیڑ نے پیٹ پیٹ‌کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعہ کو تقریباً چار سال بیت چکے ہیں، لیکن اس گاؤں میں پھیلی کشیدگی، ڈر اور عدم اعتماد کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

قومی راجدھانی سے تقریباً 60 کلومیٹر دور ٹھاکر اکثریتی یہ گاؤں ترقی یافتہ اور ثروت مند لگتا ہے۔ 16ویں صدی کے راجپوت راجا مہارانا پرتاپ کا مجسمہ والا ایک گیٹ گاؤں کی طرف لے جاتا ہے، جہاں سیمنٹ کی صاف سڑکیں ہیں، پکے گھر اور چپس وغیرہ جیسے مصنوعات کی کئی دوکانیں ہیں۔گاؤں کی واحد مسجد کے اکلوتے امام بتاتے ہیں کہ اخلاق والے واقعہ کے بعد کوئی بھی یہاں امامت کرنے کو راضی نہیں ہوتا، اس لئے ‘خدا کی راہ میں’ انہوں نے یہ ذمہ داری سنبھالی ہے۔وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد خوفی کی وجہ سے کئی مسلمانوں نے گاؤں چھوڑ دیا۔ ان کے پاس صحیح صحیح اعداد وشمار  تو نہیں ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ لوگ کبھی نہیں لوٹے۔وہ کہتے ہیں،’کوئی کسی سے بات نہیں کرتا، کوئی کسی پر بھروسہ نہیں کرتا۔ جتنا کم کہیں اتنا ہی اچھا۔ اتنا ماحول گندا کر دیا، گاؤں برباد کر دیا۔ ‘

کیمرے کے سامنے بولنے سے ڈر

جب ہم وہاں پہنچے تو دوپہر نہیں ہوئی تھی اور مسلم کمیونٹی کے مرد، جو بنا زمین والے یومیہ مزدور ہیں، اپنے کام پر نکلے ہوئے تھے۔50 سے زائد عمر کی لگ رہی حسینہ بی اپنی بکریاں چرا رہی تھیں، ساتھ ہی آس پاس بھاگتے بچوں کو ڈانٹ رہی تھیں۔ وہ کیمرے کے سامنے بات نہیں کرنا چاہتیں۔ ان کو ڈر ہے کہ ان کے بیانات کو توڑا-مروڑا جائے‌گا اور ان کا غلط مطلب نکالا جائے‌گا۔وہ کہتی ہیں کہ ایسا پہلے ہو چکا ہے۔ کیمرا ہٹانے پر وہ کھل‌کر بات کرتی ہیں۔ اپنی ناامیدی اور تشویش کو چھپاتے ہوئے وہ پھر بھی کہتی ہیں،’ڈرنے سے کیا ہوگا۔ یہ ہمارا ملک ہے، ہمارا گاؤں ہے۔ ہمیں یہاں سے کون نکال سکتا ہے۔ ‘

تقریباً چار دہائی پہلے وہ یہاں ایک دلہن کے  طورپر پہنچی تھیں۔ آج ان کے تین بیٹے ہیں، جن میں سے ایک درزی ہیں، ایک یومیہ مزدور ہے، جو پاس ہی کام کرتے ہیں اور ایک لیب میں کام کرتے ہیں۔انہوں نے اس مسلم  نظریے کہ مسلمانوں کو ان کی تعلیم کے مطابق کام نہیں ملتا، پر یقین کرتے ہوئے اپنے بچوں کو نہیں پڑھایا۔ وہ پھیکی ہنسی کے ساتھ کہتی ہیں،’ہمیں کون نوکری دے‌گا بہن؟ ‘آس پاس سے گزر رہے دوسرے مسلمان تجسس کے ساتھ ہمارے پاس آتے ہیں اور ان کو اکیلا چھوڑ دینے کو کہتے ہیں،’آپ لوگ جائیے، ہم اپنے جہنم میں خوش ہیں۔ ‘

(فوٹو : دی وائر)

(فوٹو : دی وائر)

بساہڑا میں وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ کی ریلی

اس گاؤں میں تقریباً 6500 رائےدہندگان ہیں۔ 35 مسلم فیملی کے علاوہ زیادہ تر راجپوت ہیں۔ یہاں مسلمانوں میں عدم اعتماد اور الگ کردیے جانے کا جذبہ صاف دیکھا جا سکتا ہے، جس کو بی جے پی رہنماؤں اور ان کی بانٹنے والی سیاست نے اور گہرا کرتے ہوئے یہاں فرقہ وارانہ جنون کو اور بھڑکا دیا ہے۔اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی حالیہ ریلی میں محمد اخلاق کی لنچنگ کے ملزم وشال سنگھ بھی موجود تھے۔ ریلی میں پہلی صف میں بیٹھے وشال باقی نوجوانوں کے ساتھ ‘یوگی-یوگی’کے نعرے لگا رہے تھے۔

اخلاق کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے 18 لوگوں میں سے 17 ضمانت پر ہیں۔ایک ملزم کی جیل میں ڈینگو سے موت ہو گئی تھی۔ گاؤں والوں نے ان کی لاش کو ترنگے میں لپیٹا تھا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ وہ شہید تھا، جس نے ‘ہندو اقدار’ کی حفاظت کی تھی۔یوگی کی ریلی اور اس میں وشال کی موجودگی نے صرف پرانے زخموں کو ہرا کیا ہے۔گزشتہ کچھ سالوں میں بی جے پی کی سیاست نے گاؤں کے راجپوت رائےدہندگان کو واضح طور پر پولرائز کیا ہے، جو یوگی کو ‘ہندوؤں کا رہنما’، بھگوان اور ماں بھارتی کا دیوتا’ مانتے ہیں۔

حالانکہ اب اخلاق کی فیملی سے کوئی اس گاؤں میں نہیں رہتا، اس گاؤں کی سوچ جاننے کے لئے ہم ایک کنفیکشنری کی دوکان پر رکے اور ایک دکاندار سے بات کی۔چہرے پر ندامت کا تاثر لئے ہوئے انہوں نے گاؤں کی امیج بچانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا،’ہمارے گاؤں میں کوئی قاتل نہیں ہے بہن جی۔ سب باہر کے لوگ تھے۔ اخلاق کے ساتھ بہت برا ہوا۔ وہ بھی ہمارا بھائی تھا۔ ‘

(فوٹو : دی وائر)

(فوٹو : دی وائر)

ٹھاکروں کا جارحانہ رویہ

لیکن شدت پسند ٹھاکروں سے بھرے اس گاؤں میں اس دکاندار جیسا سوچنے والے کم ہی ہیں۔ بوڑھے ہوں یا جوان، اس گاؤں کے ٹھاکر ‘ہندوؤں کو ان کو پیروں پر کھڑے ہونے دینے’کے لئے مودی کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔حقائق سے الگ اس گاؤں کے زیادہ تر ٹھاکر مانتے ہیں کہ اخلاق نے ایک گائے کو مار‌کر اپنی فریج میں اس کا گوشت رکھا تھا۔ جب ان سے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ؟ کیا کسی اخبار میں پڑھا یا ٹی وی پر دیکھا، ان کا جواب تھا، ‘اخبار سے کیا ہوتا ہے؟ وہ تو سب مسلمان کے خریدے ہوئے ہیں۔اسی لئے وہ ہمارے بارے میں ایسی خبریں چھاپتے ہیں۔ سب اخبار اور میڈیا ہندو-مخالف ہیں۔ ‘

جب ان سے پوچھا کہ مان لیجئے اگر اخلاق نے گائے کا گوشت کھایا ہوتا، تب ان کا قتل کرنا صحیح ہوتا؟ ان میں سے سن رسیدہ  بزرگ نے جواب دیا،’قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے، لیکن لڑکوں کا خون گرم ہوتا ہے۔ ‘اس بیچ ایک ادھیڑ آدمی اس بات چیت  کے بیچ میں  آکر بولے کہ مذہب کوئی بھی ہو، ہرایک کو ہندوستان میں رہنے کا حق ہے۔ انہوں نے آگے کہا،’وہ سب باہر کے لوگ ہیں۔ کسی بھی مذہب کے ماننے والے لوگ ہوں، ان کو ہندوستان میں رہنے کا حق ہے۔ ‘

تب ہی ایک بزرگ نے ان کو بیچ میں روکتے ہوئے کہا، ‘تو کیوں اتنا بول رہا ہے بے؟ تجھ کو کیا پڑی ہے؟ پھر مت آئیو ہمارے پاس۔ ‘ٹھاکر کمیونٹی اس بات سے سب سے زیادہ ناراض ہے کہ ان کے’بےقصور لڑکوں’کو جیل ہوئی  اور اس سے ان کی فیملی اور زندگی برباد ہو گئی۔ ان کا کہنا ہے،’ملائم کی پولیس نے ہمارے لونڈوں کی زندگی برباد کر دی۔ اکھلیش حکومت نہیں چلا رہے تھے، حکومت تو اعظم چلا رہے تھے۔ ‘

وہ اس وقت کے اکھلیش یادو حکومت پر ان کے لڑکوں کو غلط طرح سے گرفتار کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ اکھلیش نے سماجوادی پارٹی کے سینئر رہنما اعظم خان کے اثر میں’مسلمانوں کی حمایت کی۔ ‘یہاں اخلاق کے ساتھ جو ہوا اس پر کوئی افسوس نہیں دکھتا، بلکہ ان کی فیملی کو حکومت سے معاوضہ ملنے کو لےکر کڑواہٹ نظر آتی ہے۔ان کا کہنا ہے، ‘اب وہ یہاں کیوں رہیں‌گے، ان کو ضرورت کیا ہے اس بے جھڑ گاؤں میں رہنے کی۔ اتنا نقصان نہیں ہوا تھا، جتنا فائدہ ہو گیا۔ ہندوؤں کی سنتا ہی کون ہے، سب مسلمانوں کی طرفداری کرتے ہیں۔ ‘

(فوٹو : دی وائر)

(فوٹو : دی وائر)

ہندو راشٹر کا منصوبہ

بساہڑا میں آج 11 اپریل کو و ووٹنگ ہورہی  ہے۔ جس طرح سے پولرائزیشن کی سیاست نے یہاں کے باشندوں کے دل میں فرقہ پرستی کا زہر گھولا ہے، اس سے صاف ہے کہ علاقے کے نمائندے کے لئے ان کی پسند بجلی، سڑک، پانی یا روزگار جیسے اقتصادی و سماجی مدعوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ دوسروں کے تئیں نفرت پر مبنی ہوگی۔اکثریت اشرافیہ ٹھاکر کمیونٹی کا تسلط، جس کو حکمراں جماعت کی حمایت ملی ہوئی ہے اور عدم تحفظ میں جی رہے اقلیت مسلمانوں کا الگ تھلگ کر دیا جانا حیرت انگیز طور پر سنگھ پریوار کے ‘ہندوراشٹر’کے تصور کے بہت قریب دکھتا ہے۔دادری، اتر پردیش یا ملک میں لوک سبھا انتخاب کا نتیجہ جو ہو، یہ گاؤں شاید کچھ وقت کے لئے اسی تصور کے اثر میں رہنے والا ہے۔