گراؤنڈ رپورٹ

جس گاؤں کو وزیر اعظم نریندر مودی نے گود لیا تھا کیا وہ ’آدرش‘بن پایا؟

گراؤنڈ رپورٹ : 2014 میں لوک سبھا انتخاب جیتنے کے بعد وزیر اعظم اور وارانسی کے ایم پی نریندر مودی نے ضلع‎ کے جیاپور گاؤں کو آدرش گرام یوجنا کے تحت گود لیا تھا۔

2014 میں وارانسی کے جیاپور گاؤں کو گود لینے کے دوران منعقد تقریب کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی(فوٹو بہ شکریہ : پی آئی بی)

2014 میں وارانسی کے جیاپور گاؤں کو گود لینے کے دوران منعقد تقریب کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی(فوٹو بہ شکریہ : پی آئی بی)

وارانسی: 2014 کے لوک سبھا انتخاب جیتنے اور وزیر اعظم بننے کے بعد وارانسی کے ایم پی نریندر مودی نے ضلع‎ کے جیاپور گاؤں کو سانسد آدرش گرام یوجنا کے تحت گود لیا تھا۔ جس کا مقصد اس گاؤں کو آدرش گاؤں بنانا تھا۔ایک ایسا گاؤں جس کا نام عالمی سطح پر لیا جا سکے۔ اب پانچ سال گزرنے کو ہے، لوک سبھا انتخاب ہو رہے ہیں لیکن جیاپور وہ آدرش گاؤں نہیں بن پایا، جس کا خواب یہاں رہنے والے لوگوں کو دکھایا گیا تھا۔آج بھی اس گاؤں میں سیور کا انتظام نہیں ہے، تمام گھروں میں لوگ چولہے پر ہی کھانا بناتے ہیں، علاج کے لئے کوئی ہیلتھ سینٹر تک نہیں اور سب سے بڑی بات اس گاؤں میں جانے کے لئے کی مناسب وسائل بھی دستیاب نہیں ہیں۔

آپ کو بتا دیں کہ جیاپور کی کل آبادی اس وقت 4200 ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، اس گاؤں کی آبادی 3100 ہے۔ اس گاؤں میں کل 2700 ووٹر ہیں۔ گاؤں میں ایک بھی مسلم فیملی نہیں ہے۔ یہاں پٹیل، برہمن، بھومیہار، کمہار، دلت وغیرہ کمیونٹی ساتھ رہتے ہیں۔سب سے زیادہ آبادی پٹیل کی ہے۔ اس گاؤں کے لوگ بنیادی طور پر زراعت پر منحصر ہیں۔ یہاں پر گیہوں، دھان اورطرح-طرح کی سبزیوں کی زراعت ہوتی ہے۔ زراعت کے علاوہ کچھ لوگ سرکاری نوکری تو کچھ لوگ پرائیویٹ نوکری میں بھی ہیں۔اگر آپ وزیر اعظم نریندر مودی کے گود لئے گاؤں جیاپور جانے کی سوچ رہے ہیں تو آئیے ہم آپ کو لےکر چلتے ہیں۔ لیکن پہلے آپ یہ سمجھ لیجئے کہ اگر آپ کے پاس اپنی گاڑی ہے تو ٹھیک ہے، نہیں تو گاڑی کے لئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔

آٹو کے لئے کرنا پڑتا ہے لمبا انتظار

وارانسی ریلوے اسٹیشن سے تقریباً 30 کلومیٹر جنوب مغرب میں بسے اس گاؤں میں آنے کے لئے آپ کو وسائل کی کافی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ سب سے پہلے آپ کو ریلوے اسٹیشن سے راجاتالاب (جیاپور گاؤں کے قریب کا سب سے بڑا بازار) کے لئے آٹو یا بس لینی ہوتی ہے۔

(فوٹو : رضوانہ تبسم)

(فوٹو : رضوانہ تبسم)

ریلوے اسٹیشن سے تقریباً 22 کلومیٹر دور راجاتالاب تک آپ آسانی سے پہنچ جاتے ہیں۔ جائیں‌گے، لیکن اس کے بعد جیاپور پہنچنے کے لئے آپ کو دو-تین گھنٹے یا کئی بار اس سے بھی زیادہ وقت تک آٹو کا انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔راجاتالاب سے جیاپور جانے کے لئے واحد ذریعہ آٹو ہے۔ راجاتالاب کے آس پاس کے گاؤں-جکّھنی، مہگاؤں، چنداپور جانے کے لئے بھی آٹو کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

ٹوٹ چکی ہیں سڑکیں

اب جب آپ کو گاڑی مل گئی ہے تو جیاپور جانے کے لئے آپ کو بہت سنبھل‌کر گاڑی میں بیٹھنا ہوگا کیونکہ سڑک اوبڑ-کھابڑ اور بےحد خراب حال میں ہے۔ راجاتالاب سے جیاپور کی دوری محض 6 کلومیٹر ہے۔حالانکہ 6 کلومیٹر کا یہ سفر آٹو سے طے کرنے میں آپ کو کم سے کم 25 منٹ تک لگ جاتا ہے۔ سڑک اتنی خراب ہے کہ مشکل سے 10 منٹ کا راستہ پورا کرنے میں تقریباً آدھے گھنٹے کا وقت لگ جاتا ہے۔

اب آپ جیاپور گاؤں کے گیٹ پر پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ یہاں پر آپ کو ایک بس اسٹینڈ ملے‌گا، جو پی ایم مودی کے جیاپور گود لینے کے کچھ ہی مہینوں بعد بن گیا تھا۔ حالانکہ یہاں مسافر کبھی بس کا انتظار نہیں کرتے ہیں۔بس اسٹینڈ کے پاس کھڑے قریب 65 سال کے راماشری نام کے ایک شخص نے بتایا،’ایک بس صبح شام چلتی ہے لیکن اس کا کوئی طے وقت نہیں ہے۔ کب آتی ہے اور کب جاتی ہے، کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ‘

جیاپور گاؤں کی سڑکیں بےحد خستہ حال ہیں۔ (فوٹو : رضوانہ تبسم)

جیاپور گاؤں کی سڑکیں بےحد خستہ حال ہیں۔ (فوٹو : رضوانہ تبسم)

راماشری نے بتایا،’گاؤں سے اگر باہر جانا ہے تو اپنی گاڑی ہے تو ٹھیک ہے، نہیں تو ہمیں پیدل ہی جانا ہوتا ہے۔ ‘وہ بتاتے ہیں،’ہمارے گاؤں کو مودی جی گود لئے ہیں، تبھی تو روز روز صحافی آتے ہیں اور لکھ-پڑھ‌کر چلے جاتے ہیں۔ اس کے بعد پھر سناٹا۔ ‘

صرف آٹھویں تک ہی پڑھائی کی سہولت

جیاپور گاؤں کے لئے ایک مڈل اسکول ہے، جو پاس کے چنداپور گاؤں میں واقع ہے۔اسکول چنداپور گاؤں کے آخری سرے پر واقع ہے، جہاں سے جیاپور گاؤں کی شروعات ہوتی ہے۔یہاں آٹھویں تک کی پڑھائی ہوتی ہے۔ عمارت دیکھ‌کر اسکول اچھی حالت میں لگتی ہے۔ اسکول میں سوچھ بھارت مشن بھی کامیاب نظر آیا۔ ہینڈپمپ صحیح ہیں۔ بچے اپنی پڑھائی میں مشغول نظر آئے۔

آٹھویں سے آگے کی پڑھائی کے لئے گاؤں میں کوئی انتظام نہیں ہے۔ بچوں کو جکّھنی یا راجاتالاب جانا پڑتا ہے، جو کہ تقریباً چھے کلومیٹر دور ہے۔ گاؤں میں کوئی وسائل نہیں ہیں اس لئے بچے سائیکل سے پڑھنے کے لئے جاتے ہیں۔جس بچے کے پاس سائیکل نہیں ہے وہ کیسے اسکول جاتے ہیں، اس کے جواب میں ایک گاؤں والے نے کہا، ‘کیا کر لیں‌گے پڑھائی کرکے، کرنا تو کھیتی باڑی ہی ہے۔ ‘

بند پڑی ہے لائبریری

جب آپ تھوڑا آگے بڑھتے ہیں تو آپ کو ایک لائبریری دکھائی دیتی ہے۔ لائبریری کی دیوار پر اچھی-اچھی باتیں تو لکھی ہیں لیکن وہ سب شاید دکھاوے کے لئے ہی ہے، کیونکہ اس لائبریری میں تالا لگا ہوا ہے۔یہ کب سے بند ہے کسی کو نہیں پتہ۔ آخری بار کب کھلی تھی، گاؤں میں کسی کو جانکاری نہیں ہے۔ یہاں سے کسی نے کبھی کوئی کتاب لی ہو، ایسا کوئی شخص بھی گاؤں میں نہیں ملا۔

گاؤں میں ہیں دو بینک

جب یہاں سے آپ تھوڑی اور دور پر جاتے ہیں تو آپ کو دو بینک دکھائی دیتے ہیں۔ سنڈیکیٹ بینک اور یونین بینک۔ یہاں ایک پوسٹ آفس بھی ہے۔ پی ایم مودی کے گاؤں گود لینے کے بعد یہاں بینک کھلے ہیں، جس سے گاؤں والوں کو کھاتا کھلوانے میں آسانی ہو گئی۔گاؤں کی تقریباً40 سال کی خاتون (نام بتانے میں جھجک)بتاتی ہیں،’ بینک کھلنے سے لوگ یہیں پر اپنا کھاتا کھلوا لئے ہیں، اب کسی دوسرے گاؤں نہیں جانا پڑتا ہے۔ ‘

علاج کے لئے نہیں ہے کوئی ہیلتھ سینٹر

جیاپور میں کوئی بھی ہیلتھ سینٹر نہیں ہے۔ یہاں سے تقریباًچار کلومیٹر دور مہگاؤں ہے، وہاں ایک پرائمری ہیلتھ سینٹرہے، جیاپور کے علاج کے لئے لوگ وہیں جاتے ہیں۔ یہ خاتون کہتی ہیں،’گاؤں میں کوئی بھی ہیلتھ سینٹر نہیں ہے۔ جب کبھی طبیعت خراب ہوتی ہے تو یہاں سے تقریباً پانچ کیلومیٹر دور جکّھنی جانا پڑتا ہے۔ ‘ان کا کہنا ہے،’ڈیلیوری یا کوئی بھی ایمرجنسی کے دوران کوئی سہولت اس گاؤں میں نہیں ہے۔ ہاں، ایمبولینس آتی ہے تو اس سے لوگوں کو تھوڑی آسانی ہوئی ہے۔ ‘

تقریباً چھے کیلومیٹر دور راجاتالاب میں ایک پرائمری ہیلتھ سینٹر ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً پانچ کلومیٹر جکّھنی میں بھی کمیونٹی ہیلتھ سینٹرہے۔ ان تمام صحت مراکز پر ایمبولینس کا انتظام ہے۔حالانکہ لوگ راجاتالاب کے ہیلتھ سینٹر جاتے ہیں، کیونکہ وہاں جانے کے لئے وسائل آسانی سے مل جاتے ہیں۔ان مراکز میں ڈیلیوری کا انتظام ہے۔ اگر کسی مریض کی حالت زیادہ خراب ہوتی ہے تو اس کو یہاں سے ضلع ہاسپٹل کبیرچورا ریفر کر دیا جاتا ہے، اگر وہاں کے ڈاکٹر کو بھی مریض کی حالت ٹھیک نہیں لگتی ہے تو بی ایچ یو ریفر کر دیا جاتا ہے۔

 سوچھ بھارت مشن بھی فیل

وزیر اعظم کے سوچھ بھارت مشن کے تحت انتظامیہ نے جیاپور گاؤں میں ہر گھر میں بیت الخلا تعمیر کروانے کے لئے ایڑی-چوٹی کا زور لگا دیا تھا اور کام ہوا بھی۔قریب قریب تمام گھروں میں بیت الخلا بنا دئے گئے، لیکن ان بیت الخلا کی حالت پی ایم مودی کےسوچھ بھارت مشن کی ناکامی کی کہانی بیان کر رہے ہیں۔

جیاپور گاؤں میں بنے بیت الخلا کا حال۔ (فوٹو : رضوانہ تبسم)

جیاپور گاؤں میں بنے بیت الخلا کا حال۔ (فوٹو : رضوانہ تبسم)

گاؤں میں نندگھر (آنگن باڑی مرکز)سے تھوڑی دور پر بنے ایک بیت الخلا میں تالا لگا ہوا ہے اور اس کا آدھا دروازہ ٹوٹا ہوا ہے۔تھوڑا اور آگے جانے پر سڑک کےکنارے بنا بیت الخلا ٹوٹا پڑا ہے، نہ اس میں نل بچا ہے اور نہ ہی اس میں پانی کا انتظام ہے۔ گاؤں کے آخری سرے پر بسے اٹل نگر میں جو بیت الخلا بنا ہوا ہے اس میں اپلے رکھے ہوئے ہیں۔

پانی نکاسی کا انتظام نہیں

اس گاؤں کے کسان راج کمار بتاتے ہیں،’ہمارے گاؤں میں سیور نالی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔کم سے کم ہمارے گاؤں میں سیور کا انتظام ہو جائے۔ گاؤں کی چھوٹی-چھوٹی گلیاں، جو خراب ہیں، وہ سب ٹھیک ہو جائے۔ یہ ہمارے گاؤں کی سب سے بڑی دقت ہے۔ ‘پان اور بسکٹ-مٹھائی کی دکان لگانے والے تقریباً45 سال کے سنتوش بتاتے ہیں، گاؤں میں پانی بہنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو پانی گھر میں گھسنے لگتا ہے۔ ہم کیا کریں ایسے ہی رہتے ہیں کوئی شنوائی ہی نہیں ہوتی ہے۔ ‘گاؤں کے لالمن بتاتے ہیں،’ہمارے گاؤں میں ترقی تو بہت ہوئی ہے، لیکن پانی بہنے کا انتظام نہیں ہے۔ سارا پانی ادھر ادھر سڑک پر بہتا ہے۔ کئی بار لکھ‌کر دیا گیا، افسر آئے بھی، لیکن ہمارے گاؤں میں پانی کی نکاسی کا انتظام نہیں ہو پایا۔ ‘

جیاپور کے ساتھ-ساتھ یہاں کے آس پاس کے گاؤں-مہگاؤں، چنداپور ، جکّھنی وغیرہ میں بھی سیور کا انتظام نہیں ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے جیاپور گاؤں کو گود لینے کے بعد انتظامیہ نے وعدہ کیا تھا کہ گاؤں میں تمام طرح کا انتظام کیا جائے‌گا۔گاؤں والوں کے مطابق، ڈی ایم، ایس ڈی ایم، بلاک چیف افسر وغیرہ گاؤں کا دورہ کئے تھے، لیکن وعدہ کسی نے بھی نہیں پورا کیا۔ ڈھائی سال پہلے جب گرام پردھان کا انتخاب ہوا تھا تب بھی امیدواروں نے وعدہ کیا تھا کہ جیتنے کے بعد گاؤں میں پانی نکاسی کا انتظام کیا جائے‌گا، لیکن ایسا کیا نہیں گیا۔نریندر مودی کے گاؤں کو گود لینے کے بعد اس وقت کے ڈی ایم ہرنجل یادو مہینے میں ایک بار گاؤں کا دورہ کرتے تھے اور گاؤں والوں کا مسئلہ سنتے تھے، حالانکہ ان کا تبادلہ ہو گیا اور وہ لکھنؤ چلے گئے۔

جیاپور گاؤں میں پانی نکاسی کا بھی انتظام نہیں ہے۔ (فوٹو : رضوانہ تبسم)

جیاپور گاؤں میں پانی نکاسی کا بھی انتظام نہیں ہے۔ (فوٹو : رضوانہ تبسم)

خراب پڑے ہیں سولر لائٹ

وزیر اعظم نریندر مودی کے جیاپور کو گود لینے کے بعد گاؤں میں جگہ جگہ سولر لائٹ کا انتظام کیا گیا ، لیکن دیکھ ریکھ کے فقدان میں یہ خراب ہو گئے ہیں۔ ان میں لگیں بیٹری بھی چوری ہو گئی ہیں۔گاؤں کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سولر لائٹ لگانے والے ہی بیٹری اٹھا لے گئے، جبکہ کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ گاؤں کے لوگوں نے ہی بیٹری چوری کر لی۔گرام پردھان نارائن پٹیل سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دینے سے منع کر دیا۔

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ پی ایم مودی کے جیاپور گاؤں گود لینے کے بعد یہاں بجلی کی حالت میں کافی اصلاح ہوئی ہے۔تقریباً 20 گھنٹے تک بجلی ملتی ہے۔ اس بارے میں سنتوش یادو کہتے ہیں،’ جب سے پی ایم مودی نے گاؤں کو گود لیا ہے، بجلی وقت پر آتی ہے اور پانی کے لئے بھی بھٹکنا نہیں پڑتا۔ اس سے پہلے بجلی اور پانی دونوں نہیں ملتے تھے۔ ‘

خستہ حال نندگھر / آنگن باڑی مرکز

گاؤں میں نندگھر یعنی آنگن باڑی مرکز بھی بنا ہوا ہے۔ دور سے دیکھنے میں یہ خوبصورت لگتا ہے لیکن جب آپ پاس جاکر دیکھتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ یہاں تالا بند ہے۔ ماربل اکھڑے پڑے ہیں، کھڑکی کا شیشہ ٹوٹا ہوا ہے۔کھڑکی سے اندر دیکھنےپر سارا سامان بکھرا پڑا نظر آتا ہے۔ تمام جگہ دھول ہی دھول ہے۔ اس کو دیکھ‌کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے کئی مہینے سے یہ کھلا نہیں ہے۔ یہ آخری بار کب کھلا تھا، گاؤں والے اس کے بارے میں بھی نہیں بتا پاتے۔گرام پردھان نارائن پٹیل کا کہنا ہے، ‘یہ روز کھلتا ہے، بچے کم ہیں لیکن روز پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ کھلے نا۔ ‘جب میں نے کہا کہ ہم خود دو بار دو الگ الگ دن جاکر دیکھے ہیں، نندگھر بند ہی ملا، پھر بھی گرام پردھان کا یہی کہنا ہے کہ وہ روز کھلتا ہے۔

 اٹل نگر کا حال بے حال

گاؤں کے آخری سرے پر واقع اٹل نگر جانے کا راستہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ کھیت کی مینڑ اور کچے راستے سے ہوتے ہوئے وہاں پہنچتے ہیں۔ یہاں مودی حکومت کی اُجّْولا یوجنا ہی فیل نظر آئی۔ عورتیں چولہے پر کھانا پکا رہی تھیں۔

جیاپور گاؤں کا اٹل نگر ۔ (فوٹو : رضوانہ تبسم)

جیاپور گاؤں کا اٹل نگر ۔ (فوٹو : رضوانہ تبسم)

یہاں پر قریب ایک درجن رہائش گاہ بنائے گئے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے،’اُجّْولا یوجنا کے تحت گیس سلینڈر اور چولہا تو مل گیا ہے مگر سلینڈر دوبارہ بھروانے کے لئے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ لہذا وہ پھر سے لکڑی پر کھانا بنانے کو مجبور ہے۔ ‘ایک گھریلوخاتون آنچل بتاتی ہیں،’حکومت کی یوجنا اچھی ہے، گیس سلینڈر اور چولہا مفت مل گیا، مگر سلینڈر خالی ہونے پر اس کو دوبارہ بھروانے کے لئے 800 روپے کہاں سے لائیں؟ سبسیڈی کا پیسہ تو بعد میں آئے‌گا۔ ‘

وہ کہتی ہیں،’ہم جیسی گھریلوخاتون  کے لئے ہر مہینے 800 روپے سلینڈر پر خرچ کرنا آسان نہیں ہے۔ ہم مشکل سے دن میں 100 روپے کما پاتے ہیں۔ اسی میں بچوں کا خرچ بھی ہوتا ہے۔ میرے شوہر مزدوری کرتے ہیں۔ ہم دونوں لوگ مل‌کر کسی طرح اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال لیتے ہیں۔ ‘گاؤں کی صورتحال کے بارے میں جب پردھان نارائن پٹیل سے پوچھا گیا تو پہلے تو انہوں نے اپنے مصروف ہونے کی بات کہہ‌کر منع کر دیا۔

کافی گزارش کرنے پر انہوں نے کہا، ‘ گاؤں کے لوگوں کو بیت الخلا دیا گیا انہوں نے خیال نہیں رکھا تو کیا کیا جائے۔ حکومت تو ان کے بیت الخلا کا خیال رکھے‌گی نہیں۔ ‘پانی نکاسی کا انتظام پر گرام پردھان نے کہا، ‘ گاؤں میں پانی بہنے کا انتظام ہی نہیں ہے، ابھی کوشش کی جا رہی ہے۔ افسروں سے بات ہوئی ہے، جلدہی کام شروع ہو جائے‌گا۔ ‘ گرام پردھان نے بتایا کہ، ‘ایک ہیلتھ سینٹر بن گیا ہے، ابھی شروع نہیں ہوا ہے۔ ‘

(رضوانہ تبسم آزاد صحافی ہیں۔)