خبریں

الیکشن کمیشن نے نریندر مودی کو کلین چٹ دینے کا فیصلہ متفقہ طور پر نہیں کیا

وزیر اعظم نریندر مودی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے تین معاملوں میں الیکشن کمیشن سے کلین چٹ ملی ہے۔ ان میں سے دو معاملوں میں کمیشن کی  رائے ایک نہیں تھی۔

الیکشن کمیشن(فوٹو : رائٹرس)

الیکشن کمیشن(فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے معاملوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کو الیکشن کمیشن (ای سی) سے کلین چٹ مل گئی ہے لیکن ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ متفقہ طو رپرنہیں لیا گیا تھا۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،وزیر اعظم نریندر مودی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے تین معاملوں میں الیکشن کمیشن سے کلین چٹ ملی ہے لیکن ان میں سے دو معاملوں میں کمیشن کی رائے ایک  نہیں تھی۔مودی کو وردھا اور لاتور میں ان کی تقریروں کو لےکر کلین چٹ دی گئی لیکن ان معاملوں میں ایک الیکشن کمشنر نے مودی کو کلین چٹ دئے جانے کی مخالفت کی جبکہ باڑمیر کی ان کی تقریر کو لےکر الیکشن کمیشن کی رائے ایک تھی۔

واضح  ہو کہ نریندر مودی نے ایک اپریل کو وردھا میں میں دی اپنی تقریر میں وائناڈ سیٹ سے انتخاب لڑنے کے لئے کانگریس صدر راہل گاندھی کی تنقید کی تھی اور اشارہ دیا تھا کہ کیرل کے اس پارلیامانی حلقہ میں اقلیتی کمیونٹی کے رائےدہندگان کی تعداد زیادہ ہے۔وہیں نو اپریل کو مہاراشٹر کے لاتور میں پہلی بار ووٹ دینے جا رہے رائےدہندگان سے اپنا ووٹ بالاکوٹ ہوائی حملے کے جوانوں اور پلواما حملے میں شہید ہوئے جوانوں کے نام پر کرنے کی بات کہی تھی۔ان دونوں معاملوں میں فیصلہ 2-1 کی اکثریت سے لیا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑہ کے علاوہ دو دوسرے الیکشن کمشنر اشوک لواسا اور سشیل چندرا نے اس  میں ووٹنگ کی تھی۔ ان میں سے ایک کمشنر کی رائے وزیر اعظم کے حق میں نہیں تھی۔

لیکن راجستھان کے باڑمیر میں مودی کے متنازعہ بیان پر کلین چٹ دینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ اتفاق رائے سے لیا گیا۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ہے۔غور طلب ہے کہ مودی نے باڑمیر میں اپنے انتخابی جلسہ میں کہا تھا کہ ہندوستان کے جوہری ہتھیار دیوالی کے لئے استعمال کئے جانے کے لئے نہیں رکھے ہیں۔الیکشن کمیشن ایکٹ، 1991 کی دفعہ 10 کے مطابق، ‘جہاں تک ممکن ہو الیکشن کمیشن کا کام کاج سب کی رضامندی سے چلنا چاہیے۔ اہتمام یہ بھی کہتا ہے کہ اگر کسی معاملے میں چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنر میں اختلاف ہو تو ایسے معاملے میں اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ لیا جانا چاہیے۔ ‘

مودی کو وردھا اور لاتور معاملوں میں کلین چٹ دئے جانے پر الیکشن کمیشن میں ایک رائے نہیں تھی۔ الیکشن کمیٹی اس نتیجہ پر پہنچی تھی کہ مودی کا یہ بیان عوامی نمائندگی قانون کی دفعہ 123 (3اے) اور 125 کی خلاف ورزی نہیں ہے۔یہ دفعات کسی بھی امیدوار کے ذریعے ملک میں مذہب، ذات، کمیونٹی اور زبان کےبنیاد پر مختلف طبقوں کے شہریوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کے جذبات کو بڑھانے سے متعلق ہیں۔ حالانکہ اس قانون کے نافذ ہونے کے بعد اکثریت سے ایسے فیصلے بہت کم لئے گئے ہیں۔الیکشن کمیشن میں اختلاف کی کچھ مثالوں میں سے ایک 2009 کی ہے، جب منقسم کمیشن نے کانگریس کی اس وقت کی صدر سونیا گاندھی کو غیر ملکی ایوارڈ ملنے کے لئے رکن پارلیامان کے طور پر نااہل قرار دیے جانے پر اپنی رائے صدر جمہوریہ کو بھیجی تھی۔

اس وقت این گوپال سوامی چیف الیکشن کمشنر تھے اور ایس وائی قریشی اور نوین چاولہ کمیٹی میں ان کے معاون تھے۔ گوپال سوامی کی رائے تھی کہ نومبر 2006 میں سونیا گاندھی کو بیلجیم کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز دئے جانے کی تفتیش کی ضرورت تھی، جس کو چاولہ اور قریشی نے خارج کر دیا تھا۔انہوں نے کہا تھا کہ تفتیش پوری ہو گئی ہے اور اس معاملے میں اور تفتیش کی ضرورت نہیں ہے۔