فکر و نظر

انتخابی ریلیوں میں راجیو گاندھی کا نام بار بار کیوں لے رہے ہیں نریندر مودی ؟

1984 کے سکھ مخالف فسادات چونکہ بہت جذباتی اور حساس معاملہ ہے، چنانچہ اس سے متعلق باتیں کرتے ہوئے راہل چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

راہل اور پرینکا کو وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ چیلنج قبول کر لینا چاہیے کہ پنجاب  اور  دہلی میں ہونے والا لوک سبھا انتخاب  وہ راجیو گاندھی کی وراثت کے موضوع پر لڑ لیں۔ اگرچہ کسی بھی مہذب اور جمہوری معاشرے میں رائے عامہ کے لیے پیش کیے گئے استدلال کا غلط ہو جانا ایک پھسپھسا سا امر ہے۔پنجاب اور دہلی 1984 کے بعد سے کئی ودھان سبھا اور لوک سبھا انتخا ب دیکھ چکے ہیں۔ پنجاب میں 1992سے97، 2007سے2012 اور 2012 سے اب تک کانگریس کی سرکار رہی۔ دہلی میں بھی 15 سال تک شیلا دکشت کا راج رہا، تب کہ جب کانگریس کی کمان راجیو گاندھی کی بیوہ سونیا گاندھی کے ہاتھوں میں تھی۔

راجیو گاندھی کے خلاف مودی کا ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ بھوپال گیس حادثے کے ذمہ دار، یونین کاربائیڈ کارپوریشن کے چیئرمین وارین انڈرسن کو ملک سے باہر جانے دینے کے ذمہ دار تھے۔ بھوپال میں یونین کاربائیڈ فیکٹری سے خطرناک گیس رسنے کا دردناک حادثہ ہونے کے چار دن بعد 7 دسمبر 1984 کو اینڈرسن بھوپال آئے تھے۔ اس حادثے میں 3000 لوگوں کی جان فی الفور چلی گئی تھی اور متاثرین کی ایک بہت بڑی تعداد لاپتہ ہو گئی تھی۔ستمبر 2014 میں 93 سالہ اینڈرسن کی امریکہ میں موت ہو گئی۔ بھوپال حادثے کے کسی کیس میں وہ ہندوستان کی کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں  ہوئے۔ جون 2010 میں بھوپال کی ایک عدالت نے اس حادثے کا ذمہ دار مانتے ہوئے سات لوگوں کو سزا سنائی۔ اس فیصلے میں اینڈرسن کا نام نہیں تھا، بلکہ اس میں انہیں “بھگوڑا” کہا گیا تھا۔

اس وقت صوبے کے وزیر اعلیٰ ارجن سنگھ نے بعد میں اپنی یادداشت لکھتے وقت اینڈرسن کو ملک سے فرار کرانے  کا ذمہ دار پی وی نرسمہا راو کو ٹھہرایا، جو اس وقت مرکزی وزیر داخلہ تھے۔ ارجن سنگھ نے لکھا ہے کہ یونین کاربائیڈ کے چیف کو بھوپال ایئرپورٹ پر گرفتار کر لیا گیا تھا، لیکن چند گھنٹوں بعد ہی پی وی نرسمہا راو کی ایماء پر اسے چھوڑنا پڑا۔اپنی خودنوشت “اے گرین آف سینڈ ان د ہاورگلاس آف ٹائم” میں ارجن سنگھ نے صاف لکھا ہے کہ اینڈرسن کو ملک سے بھگانے والے راو ہی تھے، جو اس وقت ملک کے وزیر داخلہ تھے۔ “میں اسے واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ (اینڈرسن کو چھوڑنے کی بابت) راجیو نے کبھی مجھ سے بات نہیں کی، نہ ہی انہوں نے اس کی کوئی سفارش کی۔ مجھے یہ بعد میں پتہ چلا کہ مرکزی وزیر داخلہ پی وی نرسمہا راو کی ہدایت پر مرکزی داخلہ سکریٹری آر ڈی پردھان نے (تب مدھیہ پردیش کے چیف سکریٹری) برہما سوروپ کو فون کر کے کہا تھا کہ اینڈرسن کو چھوڑ دیا جائے۔”

1984 کے سکھ مخالف فسادات چونکہ بہت جذباتی اور حساس معاملہ ہے، چنانچہ اس سے متعلق باتیں کرتے ہوئے راہل چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انگلینڈ میں رہنے والے پارلیامنٹیرنس اور مقامی رہنماؤں کے ساتھ مذاکرے میں راہل نے کہا “اُسے لے کر میرے ذہن میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ وہ ایک ٹریجڈی تھی، ایک دردناک تجربہ۔ آپ کہتے ہیں کہ کانگریس پارٹی اس میں ملوث تھی۔ میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ وہ تو بس مارکاٹ تھی۔ وہ ایک ٹریجڈی تھی۔صحافی ارنب گوسوامی کو ٹیلی ویژن پر ایک انٹرویو دیتے ہوئے راہل گاندھی نے قبول کیا تھا کہ 1984 کے سکھ مخالف فسادات میں کچھ کانگریسی ملوث تھے۔ ریپِڈ فایر کوشچن آنسر سیشن میں کچھ اس طرح کی باتیں ہوئیں:

ارنب : کیا کانگریسی ملوث تھے؟

راہل : کیا بے گناہ لوگ مارے گئے تھے؟ بے شک

ارنب : کیا کانگریسی ملوث تھے؟

راہل : شاید کچھ کانگریسی ملوث ہو سکتے تھے۔

ارنب : کیا متاثرین کو انصاف ملا؟

راہل : یہ ایک قانونی عمل ہوتا ہے، جس سے انہیں گزرنا پڑا۔

ارنب : آپ قبول کرتے ہیں کہ کچھ کانگریسی اس میں ممکنہ طور پر ملوث ہو سکتے تھے۔

راہل : کچھ کانگریسیوں کو اس کے لیے سزا دی گئی۔

اپنی سیاسی و چناوی مجبوریوں کی وجہ سے راہل وہ باتیں نہیں کہہ سکے جو 1999 میں ساؤتھ دہلی سے لوک سبھا چناؤ لڑتے وقت ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہی تھیں۔ حالانکہ اچھی طرح چناؤ لڑنے کے باوجود انہیں بی جے پی کے وجے کمار ملہوترا کے ہاتھوں شکست جھیلنا پڑی تھی۔1999 کی چناوی مہم کے دوران منموہن سنگھ نے ان فسادات کے لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی۔ 2 ستمبر 1999 کو پریس کلب آف انڈیا (دہلی) میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے 1984 کے سکھ مخالف دنگوں کو “ایک کالا دھبہ اور بے حد دردناک واقعہ” قرار دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس میں بطور تنظیم کانگریس کا کوئی دخل نہیں تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دہلی کے مختلف پولیس تھانوں میں درج کرائی گئیں شکایات (ایف آئی آر) سے ثابت ہوتا ہے کہ ان دنگوں میں آر ایس ایس کے کئی کارکن ملوث تھے۔

بعد میں منموہن سنگھ نے یہ صفائی پیش کی کہ انہوں نے 1984 کے ان دنگوں کے لیے پورے طور پر آر ایس ایس کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا تھا۔ 13 دسمبر 1999 کو انہوں نے کہا “چناوی فائدہ اٹھانے کے لیے میرے بیان کو توڑمروڑ کر پیش کیا گیا۔ میں نے کہا تھا کہ کانگریس، آر ایس ایس یا دیگر تنظیموں سے جڑے جو بھی لوگ ان دنگوں میں ملوث تھے، انہیں اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔”1984 کے دنگوں میں ہوئے سکھوں کے قتل عام پر 11 اگست 2005 کو بطور وزیر اعظم راجیہ سبھا میں منموہن سنگھ نے بلا شرط معافی مانگی۔اس وقت انہوں نے جو کچھ بولا اس میں سے آر ایس ایس کا تذکرہ غائب تھا۔ اس وقت وزیر اعظم نے کہا وہ کسی ‘جھوٹے وقار’ کی خاطر کھڑے نہیں ہیں اور ان کا سر شرم سے جھکا ہوا ہے۔ انہوں نے 1999 کا ایک واقعہ بھی یاد کیا کہ کیسے اس وقت وہ ہرمندر صاحب میں سونیا گاندھی کے ساتھ  تھے، اور ‘دونوں نے ساتھ میں یہ دعا کی کہ ہمیں ہمت دیں اور راہ دکھائیں کہ اپنے ملک میں دوبارہ ایسے واقعات کبھی نہ ہوں۔’ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ‘انسان ہونے کے ناطے ہمیں یہ شرف حاصل ہے اور ہم میں اتنی صلاحیت ہے کہ سب کے لیے مستقبل کی نئی عبارت لکھ سکیں۔’

بہت سے لوگوں کو پتہ ہوگا کہ مہاتما گاندھی کے قتل میں آر ایس ایس کا ہاتھ ہونے کی بات کہنے کے بعد راہل گاندھی پر مذکورہ تنظیم نے مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔کانگریس میں اثر رکھنے والا ایک طبقہ ذاتی طور پر مانتا ہے کہ 1984 کے سکھ مخالف فسادات جیسے حساس معاملوں میں راہل گاندھی لبرل اور بائیں بازو کے مفکرین سے متاثر ہیں۔ نہیں تو وہ یہ بھی بتا سکتے تھے کہ منیش تیواری اور اجے ماکن جیسے نیتا خود پنجاب میں ہوئی دہشت گردی کے متاثرین ہیں۔ تیواری کے والد ڈاکٹر وی این تیواری پروفیسر اور کم و بیش 40 کتابوں کے مصنف تھے۔ 1984 میں دہشت گردوں نے گولی مار کر ان کا قتل کر دیا تھا۔ جبکہ اجے ماکن کے بھائی، ممبر آف پارلیامنٹ اور سابق صدرِ جمہوریہ ڈاکٹر شنکر دیال شرما کے داماد للت ماکن 31 جولائی 1985 کو جنوبی دہلی میں ایک خطرناک حملے میں مار دیے گئے تھے۔

ویسے سرکار کی پشت پناہی سے ہونے والے تشدد اور کسی شخصی دہشت گردانہ حملے میں خاصہ فرق ہوتا ہے، لیکن پروفیسر تیواری، للت ماکن اور اس طرح قتل کے دیگر معاملات کا گہرا اثر ہوا۔ اس طرح کی باتیں بھی کہی جاتی ہیں کہ پنجاب میں لمبے وقت تک چلنے والی دہشت گردی کے دوران کوئی 30 ہزار سے زیادہ معصوم لوگ مار دیے گئے، لیکن ان پر کسی طرح کا سیاسی مباحثہ شروع نہیں ہوا۔ 1980 کے دور میں مودی کی پارٹی کے خاص نیتا مدن لال کھرانہ کی عادت تھی کہ اس وقت پنجاب یا ہریانہ میں ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد وہ دہلی کی دیواروں کو “ہم لاشیں گنتے گنتے تھک گئے۔” جیسے نعروں سے رنگ دیتے تھے۔

 راقم نے اپنی انگریزی کتاب “بیلٹ – ٹین ایپیسوڈس دیٹ ہیو شیپڈ انڈیاز ڈیموکریسی” میں ذکر کیا ہے کہ 1980 کے اوائل میں پنجاب میں جب علاحدگی پسند مہم چل رہی تھی، تب اسے دبانے کی اندرا گاندھی کی کوششوں کو آر ایس ایس کی حمایت حاصل تھی۔ سنگھ کے مفکر ناناجی دیش مُکھ نے ہندی رسالے ‘پرتی پکش’ (25 نومبر 1984) میں ایک مضمون لکھا تھا۔ اس کے آخر میں انہوں نے راجیو گاندھی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے ان کی حمایت کی تھی، جبکہ 1984سے85 کے عام چناؤمیں ایک ماہ سے بھی کم کا وقت بچا تھا۔ (بیلٹ – ص 31)

ناناجی دیشمکھ نے اندرا گاندھی کے بارے میں لکھا تھا، “…آخرکار اندرا گاندھی نے ایک عظیم شہید کے طور پر تاریخ میں مستقل مقام حاصل کر ہی لیا۔ اپنی فطری جُرأت مندی اور ذہانت کے دم پر ان میں یہ صلاحیت تھی کہ ملک کو ایک دہائی آگے لے جا پائیں… ان میں تنِ تنہا اتنی لیاقت تھی کہ ایک بد عنوان اور منقسم سماج میں رائج زوال پذیر سیاسی نظام کو بخوبی چلا سکیں۔”کیا وزیر اعظم نریندر مودی ان حقائق کا سامنا کرنے کو تیار ہیں؟

(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )