فکر و نظر

بنگال تشدد کے بعد ٹی ایم سی کو نشانہ بنانے والے  بی جے پی کے دعوے کتنے صحیح تھے؟ 

فیک نیوز راؤنڈ اپ: کیا  بنگال میں پولیس نے ایک مسلم شخص کوگرفتار کیا جو بھگوا پوشاک اور تلک لگاکر تشدد میں ملوث تھا؟ راہل گاندھی کے ٹوئٹ میں نئے   لفظ MODILIE کی حقیقت کیا ہے؟  کیا بی ایچ یو کے کنووکیشن میں طلبانے از خودگاؤن کو ترک کر کے  ہندوستانی لباس میں اسناد قبول کیا؟

راہل گاندھی اور نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

راہل گاندھی اور نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

15 مئی بروز منگل  بی جے پی صدر امت شاہ مغربی بنگال میں موجود تھے۔ امت شاہ عام انتخابات کے آخری  مرحلے کے پرچار کے لئے بنگال میں روڈ شو کر رہے تھے۔ ان کے روڈشوو کے دوران حالات اس وقت بے قابو ہو گئے جب ٹی ایم سی اور بی جے پی کے کارکنوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ یہ فساد ودیا ساگر کالج کے اطراف  میں ہوا جس میں 19ویں صدی کے معروف  فلسفی اور مصلح ایشور چند ودیاساگر کے مجسمے کو بھی  تباہ کر دیا گیا!

مجسمے کو تباہ و برباد کرنے کی خبر جیسے ہی سوشل میڈیا اور ٹی وی  چینلوں پر عام ہوئی  ملک کے ہر حصے میں  اس عمل کی مذمت  کی گئی اور ویڈیو، تصویروں کی اساس پر انٹرنیٹ پر موجود  صارفین بی جے پی کارکنوں کو اس بدعنوانی کا ذمہ دار ماننے لگے۔ جب بی جے پی کارکنوں کے کارناموں سے پردہ اٹھنے لگا تو پارٹی کے  آئی  ٹی سیل انچارج امت مالویہ نے بنگلہ زبان میں لکھی ایک فیس بک پوسٹ شیئر کی جس کا انگریزی ترجمہ پوسٹ کے دائیں جانب لکھا گیا تھا۔ یہ پوسٹ برج نارائن رائے نامی پروفائل سے کی گئی تھی۔ اس پوسٹ سے  امت مالویہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ بنگال میں جو کچھ بھی پیش آیا وہ ٹی ایم سی کی غنڈہ گردی کی وجہ سے تھا اور بی جے پی اس میں بے قصور ہے۔ پوسٹ  میں کئے گئے دعوے حقیقت کے برعکس تھے؛

دعویٰ1: پہلا پتھر ودیاساگر کالج کے اندر سے پھینکا گیا۔

حقیقت: آلٹ نیوز نے دو ویڈیو کی مدد سے  انکشاف  کیا کہ پتھر کالج کے دونوں جانب سے پھینکے جا رہے تھے۔مقامی نیوز چینل آرمبھ ٹی وی  کے ویڈیو  میں دکھایا گیا کہ پتھر دونوں جانب سے پھینکے جا رہے تھے۔

دوسری ویڈیو آنند بازار نامی چینل کی ہے جس میں یہ بالکل واضح ہے کہ پتھر سب سے پہلے  کالج کے باہرسے پھینکے گئے، اس کے جواب میں کالج کے اندر سے بھی پتھر پھینکے گئے۔ باہر سے جو لوگ پتھر پھینک رہے تھے انہوں نے بھگوا رنگ کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھیں جن پر انگریزی میں’نمو اگین’ لکھا ہوا تھا۔

دعویٰ 2: ٹی ایم سی کارکنوں نے موٹر باسائیکلوں  کو آگ کے حوالے کیا۔

حقیقت: ان دو ویڈیو میں یہ حقیقت سامنے ہے کہ بائیکوں کو بی جے پی کے غنڈوں نے ہی آگ لگائی تھی؛

Bikes torched during Amit Shah’s Kolkata rally from Alt News on Vimeo.

Bike Burning outside college from Alt News on Vimeo.

دعویٰ 3: بی جے پی کے کارکن کالج کے اندر داخل نہیں ہوئے تھے کیوں کہ کالج کا دروازہ بند تھا۔

حقیقت: یہ دعویٰ بی جے پی صدر امت شاہ نے ایک پریس کانفرنس میں کیا تھا۔

آلٹ نیوز نے متعدد ویڈیو میں یہ پایا کہ بی جے پی کارکنوں نے کالج کے دروازے کا تالا توڑا اور کالج میں داخل ہوکر ودیاساگر کے مجسمے کو تباہ کیا۔ اس ویڈیو میں ان کو تالا توڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے؛

BJP workers entering Vidyasagar college by force from Alt News on Vimeo.

لہٰذا ان دلیلوں سے ثابت ہو جاتا ہے ہے کہ بنگال میں جو پیش آیا اس میں بی جے پی کے کارکنوں کا زیادہ ہاتھ ہے اور یہ حقیقت امت شاہ اور امت مالویہ کے دعووں کے برعکس ہے۔

اسی طرح، ودیاساگر کالج تشددکے تعلق سے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو 17 مئی کو شیئر کیا گیا۔ اس ویڈیو میں ایک نوجوان کو پولیس نے گرفتار کیا ہے جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ بھگوا شرٹ پہن کر اور ماتھے پر تلک لگا کر تشدد کرنے والے اس شخص کا نام محمد ناصر ہے۔  اب آپ بہت سی باتیں سمجھ سکتے ہیں کہ غنڈہ گردی کرنے والے یہ بھگوا افراد دراصل ٹی ایم سی کے غنڈے ہیں۔

ویڈیو کو غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ گرفتار کیا گیا شخص جس طرح کی بول چال اور لہجے کا استعمال کر رہا ہے وہ بنگالی کلچر کا حصہ  نہیں ہے بلکہ وہ ہندی صوبوں  کی بولی اور کلچر کی ترجمانی کرتا ہے۔آلٹ نیوز نے واضح کیا کہ یہ ویڈیو جھارکھنڈ کا ہے۔غور طلب ہے کہ 12 مئی کو  جھارکھنڈ میں الیکشن کے دوران ایک پولنگ بوتھ کے باہر   بی جے پی اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے کارکنوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی، جس میں پولیس نے اس شخص کو گرفتار کیا تھا۔ اس شخص کو ویڈیو میں 2:19 پر دیکھا جا سکتا ہے۔

  ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے دو پتھر پھینکنے کو گرفتار کیا تھا۔ یہ شخص غالباً انہی میں سے ایک تھا جس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اس کا نام محمد ناصر ہے اور یہ ٹی ایم سی کا غنڈہ تھا جس نے بی جی پی کو بدنام کرنے کے لئے تلک لگاکر ودیاساگر کالج میں تشدد کیا۔

fake 3

سوشل میڈیا میں ہندتوا  پیجوں کی یہ خصوصیت ہے کہ ملک اور بیرون ملک میں جہاں کہیں بھی کوئی بات ان کے مطابق اچھی ہوتی ہے تو وہ اس کو مودی اور بی جے پی کی کامیابی سے جوڑ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ان معاملات کو ہندوستان کی تاریخ کے اثر قدیم   کی بحالی کے طور پر بھی دیکھتے ہیں جہاں صرف ہندوؤں کی حکومت تھی اور  مسلمانوں (مغلوں) اور عیسائیوں (ایسٹ انڈیا کمپنی اور برٹش کراؤن) نے ان کی سرزمین کو ناپاک نہیں کیا تھا۔

گزشتہ ہفتے ایک تصویر سامنے آئی جس میں اعلیٰ تعلیم کے کسی ادارے کی کنووکیشن یعنی جلسہ تقسیم اسناد میں  کچھ طلباگاؤن کی جگہ کرتا پاجامہ پہن کر بیٹھے ہیں۔اس تصویر کے تعلق سے دعویٰ کیا گیا کہ آئی ٹی، بی ایچ یو کے طلبانے  انگریزی گاؤن ترک کر کے ہندوستانی پوشاک پہنی اور اسی پوشاک میں اسناد قبول کی۔2017 میں اسی تصویر کو انہی جملوں کے ساتھ  مدھو کشور اور راجیو ملہوترا نے بھی ٹوئٹ کیا تھا۔

اس تصویر کی حقیقت یہ ہے کہ یہ تصویریں حیدرباد کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹکنالوجی یعنی ٹرپل آئی ٹی کی ہے۔2016 میں ادارے کا15واں کنووکیشن ہوا تھا جس میں  ادارے کے ایڈمنسٹریشن کی جانب سے ہی یہ ہدایت جاری ہوئی تھی کہ لڑکے کرتا پاجامہ اور لڑکیاں ساڑی یا سلوار سوٹ  پہن کر کنووکیشن میں شامل ہوں گے۔ کنووکیشن کی یہ پوشاک  2011 میں طے  کی گئی تھی۔طلبا نے از خود یہ قدم نہیں اٹھایا تھا اس لئے یہ کہنا غلط ہوگا کہ بی ایچ یو میں طلبا  نے گاؤن کو از خود ترک کر کے ہندوستانی پوشاک کو چنا۔

راہل گاندھی نے  گزشتہ ہفتے ایک ٹوئٹ کیا تھا جس میں انہوں نے کمپیوٹر اسکرین کا اسکرین شاٹ لگایا تھا۔ اس تصویر کے ساتھ راہل نے دعویٰ کیا تھا کہ انگریزی لغت میں ایک نیا لفظ آیا ہے  MODILIE! راہل کا اشارہ پرائم منسٹر مودی کے متعدد جھوٹ کی طرف تھا جس کی وجہ سے انہوں نے یہ تصویر ٹوئٹ کی تھی۔ تصویر میں آن لائن آکسفورڈ ڈکشنری کا حوالہ دیا گیا تھا۔

fake 4

جب ٹوئٹر پر یہ تصویر عام ہوئی تو  صارفین نے راہل گاندھی کو آگاہ کیا کہ یہ تصویر اور تصویر میں موجود لفظ جھوٹا ہے اور اس طرح کا کوئی نیا لفظ فی الحال آکسفورڈ ڈکشنری میں نہیں داخل ہوا ہے۔

راہل کے ٹوئٹ پر آکسفورڈ ڈکشنری نے اپنے جواب میں واضح کیا کہ اس طرح کاکوئی لفظ ہماری لغت میں نہیں ہے۔ لہٰذا، مودی کی طرف MODILIE کا لفظ منسوب کرنے والے راہل گاندھی خود ہی جھوٹ کی اشاعت کر رہے تھے!

(محمد نوید اشرفی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں اور ہر اتوار فیک نیوز پر دی وائر اردو کے لئے کالم لکھتے ہیں. ان کے پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)