کشمیری زبان کے رسم الخط کو قدیمی شاردا اور پھر دیوناگری میں تبدیل کرنے کی تحویز اس سے قبل دو بار 2003اور پھر 2016 میں ہندوستان کی وزارت انسانی وسائل نے دی تھی۔ مگر ریاستی حکومت نے اس پر سخت رخ اپنا کر اس کو رد کردیا۔
ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنے کے بعد اب کشمیری عوام کی غالب اکثریت کے تشخص،تہذیب و کلچر پر کاری ضرب لگانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ جہاں ابھی حال ہی میں وزیر داخلہ امت شاہ نے ہندی کو قومی زبان قرار دینے کا عندیہ دیا، وہیں دوسری طرف حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے چند عہدیداروں نے ایک عرضداشت میں مطالبہ کیا ہے کہ علاقائی زبانوں کا اسکرپٹ یعنی رسم الخط دیوناگری یعنی ہندی میں تبدیل کرکے ملک کو جوڑا جائے۔
اس کی زد میں براہ راست کشمیری (کاشئر) اور اردو زبانیں آتی ہیں، جو فارسی-عربی یعنی نستعلیق رسم الخط کے ذریعے لکھی اور پڑھی جاتی ہیں۔ کشمیری زبان کے اسکرپٹ کو تبدیل کرنے کی مہم تو کئی برسوں سے جاری ہے، مگر حال ہی میں بی جے پی کے لیڈروں، بشمول دہلی میں مقیم چند کشمیر ی پنڈت گروپوں نے اس کو مہمیز عطا کی ہے۔
ہندوستان کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال تو عرصہ سے کشمیر کو سیاسی کے بجائے تہذیبی جنگ قرار دیتے ہیں۔ چند برس قبل حیدر آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلہ کا حل تہذیبی جارحیت اور اس خطہ میں ہندو ازم کے احیاء میں مضمر ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ
پچھلے سال کشمیر میں گورنر انتظامیہ نے کشمیری ثقافتی لباس پھیرن پابندی لگادی تھی۔ پہلے تو اسے سکیورٹی رسک قرار دیا گیا جس کے بعدتعلیمی و سرکاری اداروں میں عام لوگوں اور صحافیوں کے پھیرن پہن کر داخل ہونے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ کسی قوم کو ختم کرنے کے لیے صدیوں سے قابض طاقتوں کا وطیرہ رہا ہے کہ اس کو اس کی تاریخ و ثقافت سے دور کردو۔ کشمیریوں کی نسل کشی کے ساتھ کشمیر کی ثقافت کو بھی ختم کرنا اسی منصوبے کا حصہ ہے۔
ایک منصوبے کے تحت کشمیر کی 647سالہ مسلم تاریخ کو ایک تاریک دور کے بطور پیش کیا جا رہا ہے۔ ویسے ان چھ صدیوں میں کشمیری مسلم سلاطین کا دور تو صرف 247سالوں تک ہی محیط تھا، باقی وقت تو بیرونی حکمرانوں نے ہی کشمیر پر گورنروں کے ذریعے حکومت کی ہے۔ کشمیری زبان کے رسم الخط کو قدیمی شاردا اور پھر دیوناگری میں تبدیل کرنے کی تحویز اس سے قبل دو بار 2003اور پھر 2016 میں ہندوستان کی وزارت انسانی وسائل نے دی تھی۔
مگر ریاستی حکومت نے اس پر سخت رخ اپنا کر اس کو رد کردیا۔ بی جے پی کے لیڈر اور اس وقت کے مرکزی وزیر پروفیسر مرلی منوہر جوشی نے 2003میں تجویز دی تھی کہ کشمیر زبان کے لیے دیوناگری کو ایک متبادل رسم الخط کے طور پر سرکاری طور پر تسلیم کیا جائے اور اس رسم الخط میں لکھنے والوں کے لیے ایوارڈ وغیرہ تفویض کئے جائیں۔ ان کے مطابق کشمیری زبان کا قدیمی شاردا اسکرپٹ بھی بحال کیا جائےگا۔
سوال ہے کہ اگر کشمیری زبان کا اسکرپٹ شاردا میں بحال کرنا ہے، تو سنسکرت اور دیگر زبانوں کا قدیمی رسم الخط بھی بحال کرو۔ یہ کرم پھر کشمیری زبان پر ہی کیوں؟ وزیر موصوف نے یہ دلیل بھی دی تھی، کہ چونکہ بیشتر کشمیری پنڈت پچھلے تیس سالوں سے کشمیر سے باہر رہ رہے ہیں، ان کی نئی جنریشن اردو یا فارسی رسم الخط سے نا آشنا ہے۔ اس لئے ان کی سہولیت کی خاطر ہندی رسم الخط کو کشمیر ی زبان کی ترویج کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس میٹنگ میں بہر حال مرحوم وزیرا علیٰ مفتی محمد سعید نے مرلی منوہر جوشی کو قائل کرالیا کہ ان کے فیصلہ سے پچھلے 600سالوں سے وجود میں آیا کشمیر زبان و ادب بیک جنبش قلم نابود ہو جائےگا۔
مجھے یاد ہے کہ کشمیری زبان کے چند پنڈت اسکالروں نے بھی وزیر موصوف کو سمجھایا کہ کشمیری زبان میں ایسی چند آوازیں ہیں، جن کو دیو ناگری اسکرپٹ میں ادا نہیں جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان آوازوں کو فارسی اسکرپٹ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بھی خاصی تحقیق و مشقت کرنی پڑی ہے۔ ان کو قدیمی شاردا اسکرپٹ میں بھی اب ادا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کشمیری زبان میں 16حروف علت یا واولز او ر 35حروف صحیح ہیں نیز چھ ڈیگراف یا Aspirated Consonents ہیں۔ وزیر موصوف، جو خود بھی ایک اسکالر تھے، کسی حد تک قائل ہوگئے اور یہ تجویز داخل دفتر کی گئی۔
مودی حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد جب شمال مشرقی صوبہ اڑیسہ میں بولی جانے والی اڑیہ زبان کو کلاسک زبان کا درجہ دیا، تو کشمیر کی ادبی تنظیموں کی ایما پر ریاستی حکومت نے بھی کشمیر ی زبان کو یہ درجہ دلانے کے لیے ایک عرضداشت مرکزی حکومت کو بھیجی۔ فی الحال تامل، سنسکرت، کنڑ، تیلگو، ملیالم اور اڑیہ کو ہندوستان میں کلاسک زبانوں کا درجہ ملا ہے۔ کلاسک زبان قرار دئے جانے کا پیمانہ یہ ہے کہ زبان کی مستند تاریخ ہو اور اس کا ادب وتحریر 1500سے 2000سال قدیم ہوں۔ اس کے علاوہ اس کا ادب قیمتی ورثہ کے زمرے میں آتا ہو۔
نیز اس کا ادب کسی اور زبان سے مستعار نہ لیا گیا ہو۔ چونکہ ان سبھی پیمانوں پر کشمیر ی یا کاشئر زبان بالکل فٹ بیٹھتی تھی، اس لئے خیال تھا کہ یہ عرضداشت کسی لیت و لعل کے بغیر ہی منظور کی جائیگی۔ عرضداشت میں بتایا گیا تھا کہ کشمیر ی زبان سنسکرت کی ہم عصر رہی ہے نہ کہ اس سے ماخوذ ہے۔ہندوستان میں جہاں آجکل تاریخ کو مسخ کیا جا رہا ہے، وہیں مختلف زبانوں کے سورس بھی سنسکرت سے جوڑے جا رہے ہیں۔
خیر اس عرضداشت پر مرکزی حکومت نے بتایا کہ کشمیری و اقعی کلاسک زبان قرار دئے جانے کی اہل ہے، مگر شرط رکھی کہ اس کے لیے اساکا رسم الخط سرکاری طور پر دیوناگری یعنی ہندی تسلیم کرناہوگا۔ کلاسک زبان قرار دئے جانے کے فائدے یہ ہیں کہ ہر سال دو اہم ایوارڈ ان کے فروغ اور ان کے اسکالروں کو دئے جاتے ہیں۔ نیز ان کی ترویج کے لیے ایک اعلیٰ ریسرچ سینٹر کا قیام اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی طرف سے چند یونیورسٹیز میں چیرز کو منظوری دینا شامل ہے۔
آخر ہندوستانی حکومت کشمیری زبان کے رسم الخط کو تبدیل کرنے پر کیوں مصر ہے؟ کشمیر کے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کی ملکہ حبہ خاتون (زون) ہو یا محمود گامی یا عبدالاحد آزاد، غلام احمد مہجور یا مشتاق کشمیری چونکہ عام طور پر سبھی کشمیری شاعروں نے اس خطے پر ہوئے ظلم و ستم کو موضوع بنایا ہے اور تحریک آزادی کو ایک فکری مہمیز عطا کی ہے، اسی لئے شاید ان کے کلام کو بیگانہ کرنے کے لیے زبان کے لیے کفن بنا جا رہا ہے۔ پچھلے سات سو سالوں میں علمدار کشمیر شیخ نورالدین ولی ہو یا لل دید، رسو ل میر، وہا ب کھار یا موجودہ دو ر میں دینا ناتھ نادم، سوم ناتھ زتشی رگھناتھ کستور، واسدیو ریہہ، وغیرہ، غرض سبھی نے تو نستعلیق کو ہی اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔2011کی مردم شماری کے مطابق وادی کشمیر اور وادی چناب میں 6.8ملین افراد کشمیری زبان بولنے والے رہتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے نیلم اور لیپا کی وادیوں میں مزید ایک لاکھ 30ہزار افراد کشمیری کو مادری زبان گردانتے ہیں۔
علاقوں کی مناسبت کے لحاظ سے کشمیری زبان کی پانچ بولیاں یا گفتار کے طریقے ہیں۔ کسی کشمیری کے گفتار سے ہی پتہ چلتا ہے کہ وہ ریاست کے کس خطے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان میں مرازی(جنوبی کشمیر) کمرازی (شمالی کشمیر) یمرازی (وسطی کشمیر)، کشتواڑی (چناب ویلی) اور پوگلی(رام بن) ہیں۔ جرمنی کی لیپزیگ یونیورسٹی کے ایک محقق جان کومر کے مطابق کشمیر ی زبان آرین زبانوں کی ایک مخصوص فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قواعد اور تاریخی جائزوں کے مطابق اس کا ایرانی یا انڈین زبانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چونکہ سنسکرت اور کشمیری زبانیں ہم عصر رہی ہیں، اس لئے لفظوں کی ادلا بدلی موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیری کو انڈو۔داردک فیملی کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ اس گروپ میں چترالی، شینا، سراجی، کوہستانی، گاوی اور توروالی زبانیں آتی ہیں۔ گو کہ کشمیر کی قدیم تاریخ راج ترنگنی سنسکرت میں لکھی گئی ہے، مگر اس میں کشمیری زبان بہ کثرت استعمال کی گئی ہے۔
کشمیری وازہ وان یعنی انواع قسم کے پکوانوں کے ساتھ ساتھ کشمیر ی زبان اور اس کا ادب بھی کشمیر کے باسیوں کی ہنرمندی اور ان کے ذوق کی پہچان ہے۔مگر و ہ وقت دور نہیں، جب یہ ہندوستان اور ہندو توا کی ثقافتی یلغار اور دہشت گردی کی بھینٹ چڑجائے گی۔ ہندوستان کے اندر اور باہر انسانی حقوق کے عالمی ادارو ں کو اس کا نوٹس لے کر اس امر کا ادراک کروانا چاہئے کہ کس طرح جمہوریت، سیکولر ازم کے دعووں کے پسِ پردہ مودی حکومت ایک قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ اس صورتحال کی اجاگر کرنے کے لیے اگر مؤثر اقدامات نہ اٹھائے گئے، تو تاریخ میں اس چشم پوشی کو یقیناً اچھے لفظوں میں یاد نہیں رکھا جائے گا۔
Categories: فکر و نظر