خبریں

جانیے،حیدرآباد ریپ معاملے میں مسلمانوں کو کیسے لگاتار بدنام کرنے کوشش کی گئی

فیک نیوز راؤنڈ اپ: کیا نابالغ مسلم ملزموں کی شناخت چھپانے کے لئے حیدرآباد پولیس نے ان کے نام بدل کر ہندو نام رکھ دیے تھے۔ انکاؤنٹر کے بعد میڈیا نے تمام ملزموں کی لاشوں کی جو تصویر عام کی، اس کی حقیقت کیا ہے۔ کیا مودی حکومت نے عصمت دری کے معاملات میں ملزم کو موت کی سزا دینے کا نیا قانون بنایا ہے؟

Fake_Hyderabad

حیدرآباد ریپ معاملے میں 6 دسمبر کی صبح ایک نیا موڑ سامنے آیا جب خبروں سے یہ معلوم ہوا کہ ریپ کے چاروں ملزموں کو تلنگانہ پولیس نے مار ڈالا اور پولیس کے اس کارنامے کو ‘انکاؤنٹر’ قرار دیا گیا! لیکن اس سے قبل 5 دسمبر تک اس معاملے کو فرقہ وارانہ چشمے سے دیکھا جاتا رہا۔ ریپ کے بعد سوشل میڈیا میں عام کیا گیا تھا کہ چار ملزموں میں ایک مسلمان ہے جو کہ خاص طور پر اس جرم کے لئے ذمہ دار ہے۔ ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد اس مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصب میں اضافہ یہ ہوا کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر فرقہ بندی کا دائرہ بڑھ گیا اور اب یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ ریپ اور قتل کے چاروں ملزم مسلمان ہیں اور پولیس نے ان کا نام بدل کر ایک خاص مذہب کا دفاع کیا ہے۔

دی یوتھ نامی ویب سائٹ پر ایک مضمون شائع کیا گیا جس میں خود کو سنت مہاتما  کہنے والے شخص سوامی یتی نرہری سرسوتی کو منسوب کر کے لکھا تھا کہ حیدرآباد ریپ معاملے کے تمام ملزم مسلمان ہیں اور پولیس نے ان کی شناخت چھپانے کے لئے ان کا نام تبدیل کیا۔

اس مضمون کے شائع ہو جانے کے بعد اس کو سوشل میڈیا میں وائرل کیا جانے لگا۔ 7 دسمبر سنیچر کی صبح تک اس کو تقریباً 3700 شئیر حاصل ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر جگدیش ہرےمت نامی ٹوئٹر ہینڈل سے اس کے لنک کو شئیر کر کے لکھا گیا:

سوامی نرہری نے کہا ہے کہ ریپ معاملے کے تمام ملزم مسلمان تھے۔ کیا کوئی اس کی تصدیق کر سکتا ہے؟ اگر یہ حقیقت ہے تو حیدرآباد پولیس اور اس کے سیاسی آقا سب سے بڑے مجرم ہیں۔

مینا داس نارائن نامی ہینڈل سے نریندر مودی، امت شاہ اور پی ایم او کو ٹیگ کرتے ہوئے یہ لنک شئیر کیا گیا۔ مینا داس نارائن کی سب سے اہم کامیابی یہ ہے کہ ان کو پرائم منسٹر نریندر مودی خود بھی فالو کرتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا پولیس نے ریپ کرنے والوں کی مذہبی شناخت کو مخفی رکھنے کے لئے پولیس نے ان کے نام تبدیل کر دیے اور جیل کی پہلی شام کو ہی ان کو بکرے کا گوشت کھلایا۔ مینا داس نارائن نے بعد میں اپنا یہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیا۔

غور طلب ہے کہ 2 دسمبر کو سوامی سرسوتی نے ایک ویڈیو میں یہ دعویٰ کیا تھا:

 سوامی نے ویڈیو میں دعویٰ کیا کہ چار ملزموں میں سے ایک محمد پاشا بالغ مسلمان ہے لیکن باقی تین نا بالغ ہیں۔ اس لیے ان تینوں کے اصل ناموں کو ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تینوں کو خیالی نام دیے گئے ہیں جو ہندؤں کے ہیں۔ اس لیےان نابالغ مسلمانوں کو ہندو نام دےکر ہندو مذہب کو بدنام کیا جا رہا ہے۔

آلٹ نیوز نے ان دعووں کو خارج کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ:

محمد پاشا کے علاوہ تینوں ملزم مسلم نہیں تھے اور ان کے یہ نام خیالی نام نہیں تھے۔

پولیس کے جاری کردو پریس نوٹ میں ان کو بالغ دکھایا گیا ہے جس میں تینوں کی عمر تقریباً بیس سال لکھی گئی تھی۔

fake_hyd_muslims

دی کوئنٹ نے ایک مضمون شائع کیا تھا جس میں رپورٹر نے ان تینوں ملزموں کے گھر جاکر ان کے والدین اور احباب سے گفتگو کی تھی۔ اس گفتگو کے دوران واضح ہو گیا تھا کہ یہ لوگ مسلم مذہب کے نہیں ہیں۔

سائبرآباد پولیس کے آفیشل ٹوئٹر ہینڈل سے ایک ٹوئٹ کے جواب میں بھی اس افواہ کو رد کر دیا گیا تھا۔

سوامی سرسوتی کے ویڈیو سے پہلے بھی یہ پروپیگنڈہ سوشل میڈیا میں بہت شدت کے ساتھ عام کیا گیا تھا۔ RealHistoriPix نامی ٹوئٹر ہینڈل سے ایک ٹوئٹ کیا گیا جس میں چاروں ملزموں کی تصویروں پر مسلم نام لکھ تھے۔ یہی پروپیگنڈہ فیس بک پر بھی کیا گیا۔ لیکن یہ تمام دعوے جھوٹے ہی نکلے۔

6 دسمبر کو ریپ اور قتل کے تمام ملزموں کو پولیس نے ایک انکاؤنٹر میں مار دیا۔ یہ کام پولیس نے صبح تین بجے سے پانچ بجے کے درمیان کیا۔ اس کے بعد مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں خبر آگ کی طرح پھیل گئی۔ تمام چینلوں پر اسی انکاؤنٹر کی سرخیاں موجود تھی۔ اسی وقت زی نیوز نے منفرد دعویٰ کرتے ہوئے ایک خبر نشر کی جس میں انہوں نے کچھ تصویریں اور کلپ بھی شامل کی۔ زی نیوز نے ایک تصویر پر First on Zee News کا واٹر مارک لگا کر دعویٰ کیا کہ یہ تصویریں ان ملزموں کی ہیں جن کا انکاؤنٹر حیدرآباد پولیس نے کیا ہے۔ اور یہ سب سے پہلے زی نیوز پر دکھایا جا رہا ہے۔

زی نیوز کے علاوہ ٹی وی نائن گجراتی پر بھی تقریباً یہی دعویٰ کرتے ہوئے واٹر مارک میں لکھا گیا tv9 Exclusive! ٹی وی نائن کے علاوہ ABP نیوز تیلگو نے بھی اس تصویر کے ساتھ یہی دعویٰ کیا۔ تصویر میں دکھایا گیا تھا کہ کچھ لوگوں کی لاشیں زمین پر پڑی ہی ہیں جن کے اطراف میں پولیس کے سپاہی بھی کھڑے ہیں۔

الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ تصویر حیدرآباد کی نہیں ہیں اور یہ کہ میڈیا کے ایک حصے نے تقریباً چار سال پرانی تصویروں کو اپنے چینل پر رپورٹ کا حصہ بناکر عوام کو گمراہ کیا ہے۔ یہ تصویر تامل ناڈو کی تھی۔ 2015 میں انگریزی اخبار دی ہندو میں شائع خبر کے مطابق یہ تصویر ان لوگوں کی ہے جو تمل ناڈو کے جنگلوں میں غیر قانونی طور پر لکڑیاں کاٹ رہے تھے۔ حیدرآباد کے انکاؤنٹر سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور میڈیا دعووں کو جھوٹا ہی مانا جائےگا۔

حیدرآباد کے موجودہ پس منظر میں عام شہریوں اور میڈیا کی تصویروں کے علاوہ صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی ویڈیو بھی وائرل ہو گئی۔ ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ صدر جمہوریہ ایوان میں یہ اعلان کر رہے ہیں کہ ریپ کے مجرموں کو حکومت نے سزا ئےموت دینے کے لئے قانون بنایا ہے:

الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ ویڈیو اسی سال 31 جنوری کو ABP نیوز نے اپنے یو ٹیوب پر اپلوڈ کی تھی۔ اصل ویڈیو میں صدر جمہوریہ نابالغ بچی کے ساتھ ریپ کیے جانے پر حکومت کے سزائے موت کے قانون کا ذکر کر رہے تھے۔ لیکن فیس بک پر عام کی گئی ویڈیو میں بہت صفائی سے لفظ نابالغ ہٹا دیا۔

اس سے ویڈیو شئیر کرنے والوں نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ ریپ کے ہر مجرم کو اب پھانسی کی سزا ہی ہوگی۔ فیس بک کے صارفین نے یہ غالباً اس لئے کیا ہوگا کیونکہ ان کو زبردستی ثابت کرنا تھا کہ ‘مودی ہے تو ممکن ہے’!