فکر و نظر

دبئی کی شہزادیاں، مودی حکومت اور عرب حکمرانوں کی قربتیں

 مودی جب سے برسراقتدار آئے ہیں، عرب ممالک انہیں کچھ زیادہ ہی سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں۔ ملک میں اقلیتوں کے تئیں خوف و ہراس کی فضا، ہندو تنظیموں اور حکومت کی طرف سے آئے دن دل آزار بیانات، شہریت کے نئے قانون اور دہلی کے  فسادات بھی  عرب حکمرانوں کو  پسیج نہیں پا رہے ہیں۔  عرب حکمراں  آخر مودی حکومت کی منہ بھرائی کیوں کر رہے ہیں؟  یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔

فائل فوٹو بہ شکریہ ، ٹوئٹر

فائل فوٹو بہ شکریہ ، ٹوئٹر

مارچ 2018،نئی دہلی کے پاور گلیاروں میں خبریں گشت کر رہی تھیں کہ ستمبر 2016کی طرز پر ہندوستان نے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کی ہے۔ اس بار یہ اسٹرائیک بحیرہ عرب میں کسی جگہ کی گئی ہیں۔ قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کی دہلی میں عدم موجودگی اور  پورے ایک ہفتے ساحلی صوبہ گووا کے دارلحکومت پانا جی میں ڈیرا ڈالنے سے خبرو ں کو اور بھی تقویت مل رہی تھی۔ ملک کی سمندری حدود کرا س کرکے یہ آپریشن بحری افواج کے بجائے کوسٹ گارڈز نے کی تھیں۔

خبریں یہ بھی تھیں کہ بحریہ کے سربراہ ایڈمرل سنیل لامبا خاصے ناراض تھے اور انہوں نے حکومتی رولز کا حوالہ دےکر وزیر اعظم نریندر مودی کو شکایت کی تھی کہ بین الاقوامی پانیوں میں فوجی کارروائی صرف بحریہ ہی انجام دے سکتی ہے۔ انہوں نے احتجاج کیا کہ نہ صرف بحریہ کو آپریشن سے دور رکھا گیابلکہ ان کو اس کی بھنک بھی لگنے نہیں دی گئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ کمانڈوز کی یہ کارروائی کسی پاکستانی جہاز کے خلاف نہیں  بلکہ ایک امریکہ پرچم بردار لگزری یاٹ نوسٹرومو پر کی گئی تھی۔

چونکہ آپریشن حساس اور خفیہ نوعیت کا تھا، اس لیے ڈوبھال نے بحریہ کے سربراہ کے بجائے اپنے ہی صوبہ اتراکھنڈ کے مکین اور قریبی رفیق  کوسٹ گارڈ کے سربراہ راجندر سنگھ کو اعتماد میں لےکر آپریشن انجام دیا۔ گو کہ آپریشن خارجی انٹلی جنس ریسرچ اینڈ انالسس یعنی راء کے کمانڈو دستوں کے انجام دیا، مگر کوسٹ گارڈ کو کور اور دیگر لاجسٹکس کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس امریکی جہاز پر دبئی کے فرمانروا اور متحدہ امارات کے وزیرا عظم شیخ محمد بن رشید المکتوم کی صاحبزادی شہزادی لطیفہ سوار تھی۔ و ہ اپنی ایک خاتون ٹرینر فن لینڈ کی ٹینا جاوحیائنین کے ساتھ محل سے فرار ہوکر امریکہ میں سیاسی پناہ لینے کے فراق میں تھی۔

یہ آپریشن شہزادی کو بازیاب کروانے کےلیے متحدہ عرب امارات کی درخواست پر ہندوستان نے انجام دیا۔ جب اصل کہانی میڈیا پر ظاہر ہونے لگی تو اس کو سختی سے دبادیا گیا۔ دہلی میں مختلف ذرائع سے اس وقت جتنی تفصیلات مل سکتی تھی، ان پر مبنی ایک کالم میں نے  پچھلے سال تحریر کیا تھا۔ متحدہ امارات اور سعودی عرب کے ہندوستان کے ساتھ ایک نئی نوعیت کے تعلقات اور نئی دہلی کا عرب حکمرانوں کی ایما پر ایک امریکی جہاز پر اس طرح کا حساس آپریشن کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے، جہاں بعد میں ان ممالک نے کشمیر اور پاکستان کے دیگر امور کے حوالے سے سرد مہری دکھائی۔

خیر دوسال بعد اب ایک برطانوی عدالت نے اس آپریشن کی تفصیلات سے پردہ اٹھایا ہے۔ حال ہی میں ایک لمبی سماعت اور تحقیق کے بعد برطانوی ہائی کورٹ کے جج اینڈریو میک فارلین نے بتایا کہ4اور5  مارچ، 2018کی درمیانی رات کو ہندوستانی سیکورٹی دستوں نے امریکی جہاز کو گھیر کر اس کو قبضہ میں لیا تھا۔ جاوحیائنین کے بیان کے مطابق شہزادی اس کی معیت میں 24فروری کو ہی محل سے فرار ہوگئی تھی۔ اس نے چند دوستوں کی مدد سے امریکہ سے سیاسی پناہ کی درخواست کی تھی۔ دراصل برطانوی عدالت ایک دوسرے کیس کی سماعت کر رہی تھی۔

Sheikha Latifa/ Credit: Video grab

Sheikha Latifa/ Credit: Video grab

جس میں اس کو دبئی کے حکمراں  کے دو بچوں 12سالہ جلیلہ اور سات سالہ زیاد کی کسٹدی طے کرنی تھی۔  ان کی والدہ شہزادی حیاء، المکتوم کی دوسری اہلیہ بچوں سمیت دوبئی کے محل سے فرار ہوکر لند ن آپہنچی تھی۔ اس کا الزام تھا کہ محل میں اس کو اذیتیں دی جا رہی تھیں۔ شہزادی حیاء اردن کے فرمانراو شاہ عبداللہ دوم کی ہمشیرہ ہیں۔ لندن میں اس کے قیام کو قانونی شکل دینے اور متحدہ امارات کی طرف سے حوالگی کی درخواست کا کاونٹر کرنے کے لیے اردن نے شہزادی کو لندن میں اپنے  سفارت خانے میں فرسٹ سکریٹری متعین کرکے اس کے لیے سفارتی استثنیٰ حاصل کرلیا تھا۔

جلیلہ اور زیاد شیخ مکتوم کے سبھی 25بچوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ شہزادی حیا ء نے عدالت کو بتایا کہ بچوں کے ساتھ بھاگنے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ پچھلے سال 11سالہ جلیلہ کا نکاح  زبردستی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ کرایا جا رہا تھا۔ مگر شاہی خاندان کے وکیل الیکس وردان نے اس کو سختی کے ساتھ مستردکرتے ہوئے کہا کہ جلیلہ کی ہی عمر کی شیخ مکتوم کی دیگر 13اولادیں ہیں اور ایک باپ اس طرح کسی بھی صورت میں اولاد کو قربان نہیں کرسکتا ہے۔

اس کیس کی سماعت کے دوران برطانوی جج نے شیخ المکتوم اور دوبئی کے شاہی محل میں رونما ہوئے ایسے پچھلے واقعات کا نوٹس لےکر جب تحقیق کی تو شہزادی لطیفہ اور اس سے قبل اس کی بڑی بہن شہزادی شمسہ کے فرار اور پھر اغوا اور ان کی قید کی تفصیلات منظر عام پر آگئی۔ کورٹ کے دستاویزات کے مطابق لطیفہ ایک فرانسیسی نژاد امریکی ہروی جوبرٹ کے ساتھ رابطہ میں تھی اور اسی نے فرارا کا منصوبہ بنایا تھا۔ جوبرٹ کی ایک کتاب Escape from Dubai اس سے قبل منظر عام پر آچکی تھی۔  فن لینڈ کی ٹرینر کے بقول شہزادی نے اس کتاب کو پڑھنے کے بعد جوبرٹ کے ساتھ رابطہ کرنے اور فرار میں مدد دینے کا کام اس کو سونپا تھا۔

المکتوم نے کورٹ کو بتایا کہ جوبرٹ شہزادی کا استحصال کرکے محل تک رسائی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اس کے بچوں کے فرار سے زیادہ سیکورٹی اور انٹلی جنس سے جڑا ہے۔ امریکی جہاز پر آپریشن تسلیم کرتے ہوئے، شیخ کا کہنا  تھا وہ اس کو ایک ریسکو مشن تصور کرتے ہیں۔ خادمہ کے بقول شہزادی نے فرار کےلیے جوبرٹ کو تین لاکھ پونڈ کی رقم ادا کی تھی۔ لہذا یہ کہنا کہ اس کے شہزادی کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے یا اس کو اغوا کیا جارہا تھا، بالکل غلط بیانی ہے۔ مگر جوبرٹ کا اپنا ماضی بھی خاصا پراسرار ہے۔ 1993تک وہ فرانسیسی خفیہ محکمہ کا ایک اعلیٰ عہدیدار تھا۔ بعد میں امریکہ میں سٹل ہوکر اس نے فلوریڈا میں تفریحی آبدوز بنانے کا کارخانہ کھولا۔

اسی دوران متحدہ امارات کے حکمراں اکثر اس کے دفتر آتے جاتے رہتے  تھے۔ انہوں نے 2004میں اس کو دبئی کے فلیگ شپ پروجیکٹ پام جمریہ اور ورلڈ آئی لینڈ کا انچارج بنادیا۔ مگر چار سال بعد اس پر چار ملین ڈالر کے غبن اور ناقص ساز و سامان کی فراہمی کا الزام لگایا۔ دبئی کی عدالت نے اس کا پاسپورٹ ضبط کرکے اس کے سفر پر پابندی لگادئی۔ اس سے پہلے کہ سماعت مکمل ہوتی اور اس کو جیل میں ڈال دیا جاتا، جوبرٹ غوطہ خوروں کالباس اور اس کے اوپر برقع پہن کر ساحل تک پہنچا۔سمندر کے اندر 6گھنٹے تک تیرنے کے بعد بین الاقوامی پانیوں میں اس کا ایک دوست اور سابق جاسوس ایک کشتی لئے اس کا منتظر تھا۔ جس نے آٹھ دنوں کے بعد اس کو ممبئی کے ساحل پر اتارا، جہاں سے امریکی سفارت خانہ کی مدد سے وہ فلوریڈا روانہ ہوگیا۔

خیر کورٹ کے دستاویزات کے مطابق جب شہزادی محل سے فرار ہوئی تو موسم خاصا خراب تھا اور سمند ر پر شور تھا۔ وہ بارڈر کراس کرکے عمان کے ساحل تک پہنچے، جہاں ان کی ملاقات جوبرٹ اور اس کے ساتھیوں سے ہوئی۔ 15 میل کا فاصلہ ایک ربر بوٹ پر طے کرنے کے بعد انہیں ایک تیز رفتار کشتی میں منتقل کیا گیا اور کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد رات دیر گئے وہ امریکی جہازنوسٹرومو پر پہنچ گئے۔

اگلے آٹھ دن جہاز بحیرہ عرب کے پانیوں کو چیرتا رہا۔ چھٹے دن ملاحوں نے  اطلاع دی کہ ایک کشتی خاصی دور سے ان کا پیچھا کر رہی ہے اور اس میں سوار افراد دوربین سے مسلسل ان پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ جہاز نے اب ہندوستان کے گووا کے ساحل کی طرف تیزی سے بڑھنا شروع کیا، جہاں چند امریکی اہلکار ان کے منتظر تھے۔ مگر اگلے روز ہندوستانی کوسٹ گارڈ کے چند ہیلی کاپٹروں نے جہاز کے اوپر نیچی پروازیں کیں۔

4اور5مارچ کی رات کو اسلحہ بردار کشتیوں اور ایک جنگی جہاز نے یاٹ کو چاروں طرف سے گھیر کر پہلے فائرنگ اور بعد میں گیس کے گرنیڈ  اندر پھینکے۔ جلد ہی چند مسلح  نقاب پوش رسیوں کے سہارے  جہاز کے اندر داخل ہوئے اور شہزادی کے بارے میں پوچھنے لگے۔ جاوحیائنین کے مطابق چند لمحوں میں ایک عرب کو جہاز میں اتارا گیا، جس نے شہزادی اور اس کی شناخت کی۔ ان کو کوسٹ گارڈ کے جہاز میں منتقل کرکے پہلے گووا لے جایا گیااور اسی دن متحدہ امارات کی بحریہ کے حوالے کر دیا گیا۔ فن لینڈ کی ٹرینر کے مطابق شہزادی کے آخری الفاظ تھے۔ ”مجھے واپس مت بھیجو، مجھے یہیں گولی مار کر سمندر میں پھینک دو۔“

عدالت کی سماعت کے دوران یہ بھی انکشاف ہو اکہ برطانوی شہر کیمبرج میں 2000سے پولیس کے پاس لطیفہ کی بڑی ہمشیرہ شہزادی شمسہ کے اغوا کی رپورٹ درج ہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق دبئی شاہی خاندان کے افراد لندن میں اپنے  نیو مارکیٹ پیلس میں چھٹیاں گزارنے آئے ہوئے تھے۔ شہزادی گارڈز کو جل دےکر محل سے فرار ہوکر کیمبرج میں ایک ہاسٹل میں پناہ گزین ہوگئی۔ ایک امیگریش افسر، جو شمسہ سے ہاسٹل میں ملا تھا،نے  پولیس کو بتایا کہ شہزادی سیکورٹی حصار، حد سے زیادہ ڈسپلن اور پابندیوں سے پر زندگی سے عاجز آچکی تھی اور ایک عام انسان کی زندگی جینا چاہتی تھی۔ اس لئے  برطانیہ میں مقیم ہونے کے لیے وہ امیگریش محکمہ سے مدد کی خواستگار تھی۔

مگر اگست 2000میں چند عرب افراد نے اس ہاسٹل پر دھاوا بول کر اس کو زبردستی ایک گاڑی میں بٹھاکر اس کے والد کے پیلس نیو مارکیٹ پہنچا دیا۔ محل کے ایک خادم الشیبانی نے پولیس کو بتایا کہ اگلے روز شہزادی کو بذریعہ ہیلی کوآپٹر فرانسیسی شہر ڈاوویلا لے جایا گیا، جہا ایک پرائیوٹ جیٹ اس کو دبئی لے جانے کے لیے منتظر تھا۔  برطا نوی قانون دان ٹوبی کیڈمین کی ایما پر  اقوام متحدہ کے دو ادارے کمشنر برائے انسانی حقوق اور گمشدہ افراد کی بازیابی سے متعلق گروپ ان دونوں واقعات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ یہ ادارے ابھی تک  دو بار ہندوستان اور اس کے قومی سلامتی مشیر کو نوٹس ایشو کر چکے ہیں۔یہ طے ہے کہ عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسا کوئی آپریشن اگر خطے کے کسی اور ملک نے کیا ہوتا تو مغربی ممالک نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہوتا۔

اس آپریشن نے یقیناً عرب ممالک میں قومی سلامتی مشیر ڈوبھال کا قد خاصا بلند کیا ہے۔ اس کے عوض امارات کے حکمران بغیر کسی پس و پیش کے مفرور ملزموں کو ہندوستان کے حوالے کر رہے ہیں۔ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج کو امارات میں منعقد اسلامی کانفرنس میں مدعو کیا جاتا ہے۔  شہزادی لطیفہ کے اس آپریشن کے فوراً بعد  1993کے ممبئی دھماکوں کے ملزم اور مبینہ گینگسٹر داؤد ابراہیم کے ساتھی فاروق ٹکلہ کو ہندوستان کے حوالے کر دیا گیا۔

اس کے  بعد برطانوی شہری کرسچین مشعل کو بھی ہندوستان کے حوالے کر دیا گیا۔   برطانوی شہری اور اسلحہ ڈیلر مشعل نے پچھلی کانگریس حکومت کے دور میں اٹلی کی کمپنی آگستا ویسٹ لینڈ سے وی وی آئی پی افراد کے لیے ہیلی کاپٹر کےتین ہزار کروڑ کے سودے میں دلالی کا کام کیا تھا۔ 2012میں سوئزرلینڈ کے حکام نے مشعل کے ساتھی گیوڈو ہاسشکی کے گھر سے ایک ڈائری برآمد کی تھی، جس میں ہاتھ سے لکھے کورڈ الفاظ میں اپوزیشن کی رہنما  سونیا گاندھی، ان کے خاندان کے دیگر افراد اور ان کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کو رشوت دینے کا ذکر کیا گیا ہے۔ مشعل نے  انکشاف کیا تھا کہ دبئی کے ایک ہوٹل میں ہندوستانی خفیہ ایجنسی کے کسی فرد نے اس کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ سونیا گاندھی اور احمد پٹیل کو اس دفاعی سودے میں ہوئی بد عنوانی میں ملوث کرتا ہے تو ہندوستان کی طرف سے اس کی حوالگی کی درخواست کو رد کیا جائےگا۔

خیر مودی جب سے برسراقتدار آئے ہیں، عرب ممالک انہیں کچھ زیادہ ہی سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں۔ ملک میں اقلیتوں کے تئیں خوف و ہراس کی فضا، ہندو تنظیموں اور حکومتی عناصر کی طرف سے آئے دن دل آزار بیانات، شہریت کے نئے قانون اور دہلی کے خون آشام فسادات بھی  عرب حکمرانوں کو  پسیج نہیں پا رہے ہیں۔  عرب حکمران آخر مودی حکومت کی منہ بھرائی کیوں کر رہی ہیں؟   یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔

مگر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ ایک تو ضیح یہ ہے کہ  اجیت ڈوبھال کے صاحبزادے شوریہ ڈوبھال زیوس اور ٹارچ کمپنی کے سربراہ ہیں، جس کے دیگر حصہ دار سعودی شاہی خاندان کے مثال بن عبداللہ بن ترکی ہیں۔ ان کے ایک اور صاحبزادے وویک ڈوبھال  جو برطانوی شہری ہیں دبئی کی ایک کمپنی جیمنی کارپوریٹ فائننس لمیٹڈ کے ڈائریکٹر ہیں، جس میں ان کے شریک کئی سعودی اور امارات کے شہزادے ہیں۔

ہندوستان کی مرکزی تفتیشی ایجنسی سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن  (سی بی آئی) کے ایک ڈی آئی جی  منیش کمار سنہا نے سپریم کورٹ میں دائر ایک پٹیشن میں الزام لگایا تھا کہ  راء  کے دبئی آپریشنز کے انچارج سمانتا گوئل اور منوج پرساد نے ڈوبھال کے صاحبزادوں کی کمپنیوں کے تجارتی مفادات کو بڑھانے میں کلیدی  رول ادا کیا۔ ان ہی خدمات کے عوض سمانتا گوئل کو پچھلے سال راء کا سربراہ بنایا گیا۔ اپنے کریئرکے دوران پنجاب میں سکھ انتہا پسندی سے نمٹنے اور اسلام آباد میں خفیہ ایجنسی ‘را‘ کے انڈرکور ایجنٹ کے طور پرکئی سال کام کرنے کی وجہ سے ڈوبھال کا  ہدف ہی پاکستان کو نیچا دکھانا رہا ہے۔

ہندوستان کے ایک نامور تفتیشی صحافی جوزی جوزف نے اپنی کتاب A Feast of Vultures میں انکشاف کیا ہے کہ جولائی 2005ء میں دہلی اور ممبئی پولیس کی ایک مشترکہ ٹیم نے جب ایک بدنام زمانہ گینگسٹر وکی ملہوترا کا پیچھا کرتے ہوئے بالآخر اس کو گھیر لیا تو اس کی کار میں اسلحہ کی کھیپ تو تھی ہی مگر ان کی حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب گینگسٹرکے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ پر حال ہی میں انٹلی جنس بیورو کے چیف کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے اجیت ڈوبھال بھی براجمان تھے۔ یہ واقعہ دبا دیا گیا مگر معلوم ہوا کہ ڈوبھال ریٹائر ہونے کے باوجود چھوٹا راجن گینگ کے ساتھ مل کر ایک حساس پروجیکٹ پرکام کر رہے تھے جس کا مقصدکراچی میں کوئی آپریشن کرنا تھا۔