فکر و نظر

کیا اپنی ناکامی چھپانے کے لیے مودی حکومت نے لاک ڈاؤن کا سہارا لیا؟

آئی سی ایم آر نے اپریل کے پہلے ہفتے میں سرکار سے کہا تھا،وبا پر قا بو پا نے کے لیے، دوسرے طریقہ کار کو اپنا ئے بغیر اگر لاک ڈاؤن کو واپس لیا گیا تو مرض دوبارہ پھیلنے لگے گا۔ لاک ڈاؤن کے دو ہفتے گزر چکے ہیں، مگر ابھی تک کوئی حکمت عملی  نہیں اپنا ئی  گئی ہے۔

(فوٹو : رائٹرس)

(فوٹو : رائٹرس)

وزیر اعظم نریندر مودی نے 24 مارچ کو ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔اس کے تقریباً ایک ہفتہ بعدانڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ(آئی سی ایم آر)نے حکومت سے کہا تھا کہ کووڈ -19 کے پھیلا ؤ پر لاک ڈاؤن کا اثر محدود ہی رہے گا، یعنی اس سے وبا کی بدترین صورت حال کے دوران کووڈ -19 کے معاملوں میں تقریباً 20-25 فیصد کی کمی آ ئے گی۔ یہ اثر اس وقت تک عا رضی ہوگا جب تک کہ حکومت اس وبائی مرض کو کم کرنے کے لیے سائنسی طور پر تسلیم شدہ دیگراقدامات نہ اٹھا لے۔

اس بات (تجزیہ)کو چھپایا گیا۔  یہ تجزیہ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے ڈاکٹروں، وبائی امراض کے ماہرین بشمول دیگر ماہرین کے ذریعہ پیش کیا گیا تھا، جنہیں کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے نمٹنے کا کام سونپا گیا تھا۔ اس بیماری سے 22 اپریل 2020 تک 652 افراد ہلاک ہو گئے ہیں، اور کل متاثرہ افراد کی تعداد 19818 ہو گئی ہے۔

وبا کے معاملے میں، مودی سرکار کے سب سے اہم صلاح کاروں میں سے ایک ڈاکٹر ونود کے پال نے اپریل کے پہلے ہفتے میں سرکار کو دیے اپنے پریزنٹیشن میں  کہا تھا کہ ،آنے والے دنوں میں جنرلائزڈ ٹرانس میشن صاف طور پر دکھنے لگے گا۔ ان کا یہ پریزنٹیشن آئی سی ایم آر کے تجزیہ پر مشمل تھا۔ اس تجزیہ کو آرٹیکل 14 نے ریویو کیا ہے

ونود کے پال نیتی آیوگ کے ممبر ہیں۔ وہ ایمس میں ڈاکٹر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ کمیونٹی ٹرانس میشن کو ہی جنرلائزڈ ٹرانس میشن کہہ رہے تھے۔ کمیونٹی ٹرانس میشن کا مطلب ہوتا ہے وائرس کا عوام میں بے لگام پھیلنا۔ اس صورت میں یہ پتہ نہیں لگ پاتا ہے کہ کس کو کس سے یہ مرض پھیل  رہا ہے۔  سرکار کا ماننا ہے کہ ہندوستان  میں ابھی ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ لیکن کئی ماہرین اس بات سے اتفاق نہیں رکھتے۔

وزیر اعظم کا ماننا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے عام لوگوں اور خاص طورپرغریبوں کو مالی اور دیگر پریشانیاں در پیش ہیں۔  حالانکہ ونود پال کے پریزنٹیشن کے مطابق ،اس کی (لاک ڈاؤن) وجہ سے ایک دن میں انفیکشن کی تعداد میں زیا دہ سے زیادہ 40 فیصد کی کمی آئے گی، اور اس لاک ڈاؤن سے سرکار کو صرف ان لائحہ عمل کی تیاری کرنے کا موقع بھرملے گا جن میں سے کئی کو(جن کا ذکر اس مضمون کے اگلے قسط میں کیا جائےگا )اس نے اس وقت تک نظر انداز کیا تھا۔

پال کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کا بہترین استعمال یہ ہے کہ اس دورانیہ میں ضروری تیاریاں کی جائیں۔ جیسے  گھر گھر جا کر اسکرینننگ کرنا اور متاثرہ علاقوں میں کورونا کے علامات والے لوگوں کو کورنٹائن کرنے کی کوشش کو اور تیز کرنا ۔پال کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان اقدامات سے انفیکشن کی تعداد جب عروج پر ہوگی ، تب اس میں کافی کمی آئے گی۔

Capture 1

 ان کا ماننا تھا کہ سرکار جب بھی اس کے لیے منظوری دیتی ہے، اس کے بعد (پہلا) لاک ڈاؤن ختم ہونے سے پہلے اس کی تیاری کرنے  میں ایک ہفتہ کا وقت لگے گا۔

ونود پال کے پریزنٹیشن کے مطابق پورے ملک میں بخار اور کھانسی سے متاثرین  کی بڑی تعداد میں اسکرینننگ کے لیے سرکار کو مندرجہ ذیل باتوں کو یقینی بنانا ہوگا۔

غریبوں کے گھر تک ضروری سامان پہنچانا۔

ہر ضلع میں کووڈ -19 کے پھیلاؤ کا اندازہ  لگانا اور انفیکشن کے رجحان پر نظر رکھنا۔

متاثرہ علاقوں کی تیزی سے پہچان اور متاثرہ افراد کو کورنٹائن کرنا۔

گھنی آبادی (جھگی جھوپڑی) میں رہنے والوں کو کسی خاص جگہ پر اور باقی لوگوں کو ان کے گھروں میں کورنٹائن کرنا۔

آئی سی یو اور ہاسپٹل میں بستروں کی تعداد میں تیزی رفتاری سے اضافہ کرنا

ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز اور بیڈ کی مطلوبہ تعداد کے حوالے سے ونود پال کا جو تجزیہ ہے، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اپریل کی ابتدا تک، لاک ڈاؤن کے با وجود، سائنسدانوں کے ذریعے بتائے گئے کووڈ19 کے ممکنہ مریضوں کے علاج کے لیے ملک تیار نہیں تھا، جبکہ سرکار کا دعوی تھا کہ اس کے ذریعے اٹھا ئے گئے قدم کی وجہ سے ہندوستان میں حالات اب تک زیادہ سنگین نہیں ہوئے ہیں۔

پا ل نے یہ اندازہ  لگا یا تھا کہ اگر کسی علاقے میں انفیکشن کی رفتارہردن کےحساب سے 500 ہے تو سرکار کو وہاں پر 150 وینٹی لیٹر، 300 آئی سی یو بیڈ اور 1200 سے 6000 بیڈ کی ضرورت ہوگی۔

لیکن ونود کا تجزیہ ایک بڑے خطرے کی چھوٹی سی تصویر تھی۔ آئی  سی ایم آر کا ریسرچ جس پر ان کی پیش کش مبنی تھی، اس سے زیادہ  سیاہ تصویر ہمارے سامنے رکھتی ہے۔

تباہ کن تعداد کے ساتھ بڑے پیمانے پر ٹرانس میشن

وقت بہ وقت اور جگہ جگہ پر بڑی تعداد میں خوفناک نتیجے کے ساتھ کمیونٹی ٹرانس میشن ہونا طے ہے۔

آئی سی ایم آر نے یہ پیشن گوئی اپنے  ڈرافٹ پریزنٹیشن میں کی تھی۔جس کو ونود پال نے سرکار کوصلاح دینے کے لیے استعمال کیا تھا۔  آئی سی  ایم آر کا ڈرافٹ پریزنٹیشن پال کو اپریل کے پہلے ہفتے میں بھیجا گیا تھا۔

 آئی سی ایم آر کے ڈرافٹ پریزنٹیشن میں کہا گیا  تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے انفیکشن کےعروج میں 40 فیصد کی کمی آئے گی، مگر یہ بات صرف تھیوری پر مشتمل ہے۔دراصل   لاک ڈاؤن کی وجہ سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں صرف بیس سے پچیس فیصد کی کمی ہی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔

Capture 2

Capture 3

آئی سی ایم آر کا یہ اندازہ مرکزی حکومت کے ان بیا نات سے  میل نہیں کھاتا جو 21 دنوں کے لاک ڈاؤن کی کامیابی کے بارے میں ( جو اب تین مئی تک ہے) دیے گئے تھے۔14 اپریل کو وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا؛جب ہمارے یہاں صرف 550 معاملے تھے، تبھی ہندوستان میں 21 دنوں کے لیے لاک ڈاؤن کرنے جیسا بڑا قدم اٹھا یا گیا تھا۔ ہندوستان  نے حالات خراب ہونے کا انتظار نہیں کیا۔اس کے  برعکس جیسے ہی ضرورت محسوس ہوئی، ہم نے فورا ًفیصلہ لیا اور مسئلہ کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی۔

آرٹیکل 14 نے اس اسٹوری پر، پال، وزارت صحت اور آئی سی ایم آر کے رد عمل کے لیے، ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ 48 گھنٹوں سے زیادہ انتظار کیا گیا۔ مگر کسی کا کوئی جواب نہیں آیا ۔ اگر ہمیں، ان کا کوئی جواب ملتا ہے، تو اس مضمون کو اپڈیٹ کر دیا جائے گا۔

11 اپریل کو وزارت صحت نے میڈیا کے لیے ایک گراف جاری کیا اور یہ بھی بتا یا کہ لاک ڈاؤن کامیاب رہا ہے۔

 وزارت صحت کا کہنا تھا کہ اگر لاک ڈاؤن نہ ہوتا تو 10 اپریل کو کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ساڑھے سات ہزار کے بجائے دو لاکھ آٹھ ہزار (208544) ہوتی۔

Capture 1

اس گراف پر جو اعدادوشمار تھے، ان کی بنیاد کیا تھی، اس کا ذکر نہیں تھا۔  جانکاروں کے مطابق اس میں اس بات کا بھی تذکرہ نہیں تھا کہ ہندوستان  ٹیسٹ کرنے کے معاملے میں پوری دنیا میں کافی پیچھے ہے۔

نیشنل ہیلتھ سسٹم ریسورس سینٹرکے سابق ڈائریکٹر اور ٹا ٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے سابق ڈین ٹی سندرم کے مطابق،سرکار کے اعداد و شمار  قابل یقین نہیں ہیں، کیونکہ ہمارے یہا  ں ٹیسٹ کرنے کی رفتار بہت دھیمی ہے۔ اپریل کے درمیان تک، کسی کورونا کے مریض کے رابطہ  میں آنے کے شک کے بغیر اس کے علامات کے پائے جانے پر بھی ٹیسٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔

دیکھا جائے تو جیسے جیسے سرکار نے ٹیسٹ کرنا زیادہ کیا، دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں ہاٹ اسپاٹ اور سیل ہونے والے علاقوں کی تعداد میں اضا فہ ہوا۔ زیادہ ٹیسٹ ہونے کی وجہ سے آج ملک میں کووڈ -19 کے کل معاملوں میں سے ایک چوتھائی کیسز انہی دونوں شہروں سے ہیں۔

لاک ڈاؤن شروع ہونے کے ایک ہفتے کے بعد(31 مارچ کو) سرکار نے سپریم کورٹ میں  یہ دعوی بھی کیا کہ؛

سماجی دوری کو پوری طرح سے نافذ کرنے اور انفیکشن کے چین کو توڑنے کے لیے پورے ملک میں لاک ڈاؤن ضروری تھا۔ اور یہ  فیصلہ ماہرین کے ساتھ صلا ح و مشورہ کے بعد  پورے احتیاط کے ساتھ لیا گیا اور اس سے پہلے اس کے سبھی ممکنہ نتائج اورآپشنز پر ڈھنگ سے غور کر لیا گیا تھا۔

 مشتبہ افراد کی محدود جانچ اور ممکنہ ہاٹ اسپاٹ پر کم نگرانی کے باوجود، سرکار لگاتار دعویٰ کر رہی ہے کہ ابھی انفیکشن کمیو نٹی ٹرانس میشن کے اسٹیج پر نہیں پہنچا ہے۔  یعنی سرکار کے مطابق ابھی یہ لوکل اسٹیج میں ہی ہے، یعنی جہاں انفیکشن کے پھیلاؤ کی رفتار اتنی کم ہوتی ہے کہ سبھی متاثرہ افراد اور ان کے ذرائع کا پتہ لگا یا جا سکتا ہے۔ ان میں زیادہ تر دوسرے ملک سے آئے لوگ ہوتے ہیں۔

آئی سی ایم کی سفارشات

 آئی سی ایم آر کے اپنے  ڈرافٹ پریزنٹیشن میں یہ کہا گیا تھا کہ ؛کنٹرول کرنے کے دوسرے طریقوں کو اپنائے بغیر، لاک ڈاؤن ہٹانے سے انفیکشن کےمعاملوں میں اضافہ ہوگا۔ ان طریقوں میں پورے ملک سے ڈیٹا اکٹھا کرنا، ہفتے میں دو بار گھر گھر جا کر جانکاری حاصل کرنا اور ایسے لوگوں کو بڑے پیمانے پر کورنٹائن کرنا شامل ہے جن میں کووڈ 19 کے علامات ظاہر ہو رہے ہوں۔

 آئی سی ایم آر نے اپنے تجزیہ میں دہلی  میں انفیکشن سے جڑی جانکا ریوں کا حوالہ دیتے ہوے یہ بتایا ہے کہ  لاک ڈاؤن کا پورے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر کیا اثر ہوگا۔ اس کا کہنا تھا کی 21 دن کے لاک ڈاؤن کے باوجود تقریباً 13 لاکھ لوگ وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

آئی سی ایم آر کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن سے بس یہ ہوگا کہ ہم انفیکشن کے عروج پر دیر سے پہنچیں گے۔  لاک ڈاؤن نہ ہو تو  پہلے کیس سے عروج تک پہنچنے میں 100-150 دن کا وقت لگے گا۔ لاک ڈاؤن رہتے ہوئے انفیکشن کو عروج پر پہنچے میں 200-150 دن لگیں گے۔

یعنی ملک بھر میں کل معاملوں کی تعداد آخر میں اتنی ہی ہوگی۔ مرض ایک سال سے زیادہ کے وقفے تک پھیلے گا۔

نریندر مودی  نے 14 اپریل کو لاک ڈاؤن کو بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔ جبکہ آئی سی ایم آر کا اپنے تجزیہ میں یہ کہنا تھا کہ ایسا کرناکئی طرح کے چیلنج سے بھرا ہوگا۔

تجزیہ میں یہ کہا گیا کہ؛ابھی تک انفیکشن کو روکنے کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ جتنی جلدی ہو لوگوں کو کورنٹائن کیا جائے اور صرف ان کو ہی نہیں جن کے متاثرہونے کی تصدیق ہو چکی ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی جن کے اندر اس مرض کے علامات دکھ رہے ہیں ۔

آئی سی ایم آر کے سائنس دانوں کی یہ رائے تھی کہ منصوبہ بندی کمیونٹی  بیسڈ ٹیسٹ اورکورنٹائن کی ہونی چاہئے۔ یعنی بڑے پیمانے پر لوگوں کی جانچ کی جائے اور  انہیں دوسرے لوگوں سے الگ کیا جائے۔ صلا ح یہ تھی کہ جن لوگوں میں علامات ہیں ، ان میں سے ہر دوسرے آدمی کو 48 گھنٹے کے اندرکورنٹائن کیا جائے اور علامات دکھنے کے چار دنوں کے اندر ہر چار میں سے تین لوگوں کے ساتھ ایسا کیا جائے۔

لیکن ابھی تک سرکار صرف ان لوگوں کوکورنٹائن کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو یا تو جا نچ میں پا زٹیو پائے گئے ہیں یا پھر وہ لوگ جو علامات ظاہر ہونے  پر خود ہی ہاسپٹل پہنچ رہے ہیں۔ آئی سی ایم آر کے سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ بڑے پیمانوں پر نگرانی ہو، ٹیسٹنگ کو بڑھا نے کے لیے گھر گھر جا کر سیمپل لیے جائیں، اور جن میں بھی علامات دکھیں، انہیں کورنٹائن کیا جائے۔

مختصراً سائنس دانوں کا کہنا یہ تھا کہ چین توڑنے کے لیے لاک ڈاؤن پر منحصر ہونا ٹھیک نہیں ہے، جس کا سرکا ر نے 24 مارچ کو دعویٰ کیا تھا۔

آئی سی ایم آر کے اس نتیجہ پر، ونود پال کی یہ رائے تھی کہ لاک ڈاؤن سے صرف یہی ہوا ہے کہ سرکا ر کو وقت مل گیا ہے اور اس موقع کا استعمال ٹیسٹنگ کے ساتھ ساتھ مریضوں کے علاج کے لیے انتظامات کو بڑھانےکے لیے کرنا چاہئے۔ اپنے پریزنٹیشن میں ان کا کہنا تھا کہ اس پورے طریقہ کار کا مقصد، کووڈ -19 کے علامات ملنے کے 48 گھنٹے کے اندر ہر دوسرے شخص کو کورنٹائن کیا جائے۔

Capture 11

ابھی تک لاک ڈاؤن کی پیروی سختی سے کر وائی گئی ہے۔ پولیس نے اس میں اہم رول نبھا یا ہے۔ اپنی سختی کا پورا مظاہرہ کیا ہے۔ سرکار کی اس کے لیے بھی تنقید ہوئی کہ اس نے لاک ڈاؤن کے لیے صرف چار گھنٹے کا نوٹس دیا۔ نتیجے کے طور پر، ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار کا بحران اور کھانے پینے کی اشیا کے لالے پڑ گئے ہیں۔

ٹیسٹ اورکورنٹائن لاک ڈاؤن سے زیادہ کارگر ہے۔ یہ بات دیگر سائنس دانوں کے ذریعہ کئے گئے آزادانہ ریسرچ میں  بھی ثابت ہو ئی  ہے۔

ونود پال کی صلاح سے یہ صاف تھا کہ علامت ملنے کے 48 گھنٹے کے اندر ہر دوسرے فرد کو کورنٹائن کرنے کے لیے  اسٹریٹجی میں تبدیلی کی ضروورت ہوگی۔  اسکریننگ، نگرانی، ٹیسٹنگ اورکورنٹائن  کرنے کے  انتظام میں غیرم معمولی پیمانے پر اضا فہ کرنا ہوگیا۔

سرکار اور وزیر اعظم دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کی تیاریاں  مکمل تھیں ۔ 14 اپریل کو لاک ڈاؤن تین مئی تک بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ؛اگر ہندوستان نے دور اندیشی سے کام نہ لیا ہوتا، ایک نظریہ نہ اپنا یا ہوتا، اور وقت پر فوراً فیصلہ نہ لیا ہو تا تو آج ہندوستان میں حالات مختلف ہوتے۔ یہ با لکل صاف ہے کہ ہم نے جو راستہ اپنا یا ہے وہ آج کے حالات میں پوری طرح سے درست ہیں۔ ملک کو لاک ڈاؤن اور سماجی دوری سے بہت فائدہ ہوا ہے… ہندوستا ن یں ایک لاکھ سے زیادہ بیڈز ہیں۔ 600 سے زائد ہاسپٹل تیار ہیں۔

یہ دو قسطوں پر مشتمل مضمون کا پہلا حصہ ہے۔دوسرا حصہ یہاں ملاحظہ کیجیے،(نتن سیٹھی اور کمار سمبھو شریواستو آ زاد صحافی ہیں۔ وہ   دی رپورٹرز کلیکٹو کے رکن ہیں۔)

(انگریزی سے ترجمہ،سید کاشف)