خبریں

آروگیہ سیتو ایپ کے استعمال کو لازمی بنانا غیرقانونی: جسٹس بی این شری کرشنا

پرسنل  ڈیٹا پروٹیکشن بل  کا پہلا مسودہ لےکر آنے والی کمیٹی کے چیئرمین جسٹس بی این شری کرشنا نے کہا کہ آروگیہ سیتو کے استعمال کو لازمی بنانے کے لیے جاری احکامات کو خاطر خواہ قانونی جواز نہیں مانا جا سکتا ہے۔

جسٹس بی این شری کرشنا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

جسٹس بی این شری کرشنا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے سابق جج بی این شری کرشنا نے سرکارکی طرف سےآروگیہ سیتو ایپ کے استعمال کو لازمی بنائے جانے کو پوری طرح سے غیرقانونی قرار دیا ہے۔ جسٹس شری کرشنا اس کمیٹی کے چیئرمین تھے جوپرسنل  ڈیٹا پروٹیکشن بل  کا پہلا مسودہ لےکر آئی تھی۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، جسٹس شری کرشنا نے کہا، ‘کس قانون کے تحت آپ اس کو سب کے لیے لازمی کر رہے ہیں۔ ابھی تک اس کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔’قابل ذکر ہے کہ ملک گیر لاک ڈاؤن کو بڑھائے جانے کے بعد 1 مئی کو وزارت داخلہ نے اپنے احکامات میں نجی اور پبلک سیکٹر کے دفتروں  کے اسٹاف کے لیے آروگیہ سیتو ایپ کو لازمی بنا دیا۔

اس نے مقامی حکام سے بھی کہا ہے کہ وہ کنٹینمنٹ زون میں ایپ کی 100 فیصدی کوریج یقینی بنائیں۔ یہ احکامات نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ  ایکٹ (این ڈی ایم اے)، 2005 کے تحت بنائی گئی نیشنل ایگزیکٹوکمیٹی کی جانب سے جاری کئے گئے تھے۔اس کے بعد نوئیڈا پولیس نے تب کہا تھا کہ آروگیہ سیتو کے ڈاؤن لوڈ نہیں کرنے پر چھ مہینے کی قید یا 1000 روپے تک کا جرمانہ ہوگا۔

انہوں نے کہا، ‘نوئیڈا پولیس کا حکم پوری طرح سے غیرقانونی ہے۔ میں یہ مان رہا ہوں کہ یہ ابھی بھی ایک جمہوری ملک ہے اور اس طرح کے احکامات کو عدالت میں چیلنج دیا جا سکتا ہے۔’جسٹس شری کرشنا نے کہا کہ آروگیہ سیتو کے استعمال کو لازمی بنانے کے لیے جاری احکامات کو خاطر خواہ  قانونی جواز نہیں مانا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ  ایکٹ اوروبائی امراض سے متعق ایکٹ دونوں قوانین ایک خاص وجہ کے لیے ہیں۔ میرے خیال میں نیشنل ایگزیکٹوکمیٹی ایک آئینی اکائی نہیں ہے۔’جولائی 2017 میں جب سپریم کورٹ اس بات کا جائزہ لے رہی تھا کہ پرائیویسی کا حق ، بنیاد ی حق  ہے یا نہیں تب سرکار نے جسٹس شری کرشنا کو ڈیٹا پروٹیکشن  سے متعلق  کمیٹی کاچیف بنایا تھا۔

ماہرین اور حکام کی کمیٹی نے ملک بھر میں عوامی شنوائی کی اور جولائی 2018 میں ایک رپورٹ پیش کی، جس میں اس نے ڈیٹا پروٹیکشن  بل کا مسودہ بھی پیش کیا۔ایکٹ کو ابھی پارلیامنٹ میں منظوری کے لیے لایا جانا ہے۔ رپورٹ میں اس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ ‘پرسنل ڈیٹا صرف واضح،خاص اورقانونی’ مقاصد کے لیے اکٹھا کیا جانا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے 2017 کے تاریخی فیصلے میں پرائیویسی کے حق کو بنیادی حق تسلیم کیا۔ اس دوران  عدالت نے حکومتی کارروائی کی آئینی حیثیت کا تین گنا ٹیسٹ مرتب کیا جو شہریوں کے رازداری کے حق پر حملہ کرسکتا ہے۔پہلی شرط یہ ہے کہ کارروائی پارلیامنٹ کے ذریعےپاس قانون کے تحت ہونی چاہیے اور سرکار کو یہ دکھانا ہوگا کہ پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی کرنے کے لیے اس کے پاس ‘قانونی سرکاری مفاد’ ہے۔ اس کے علاوہ ، حقوق کی خلاف ورزی کرنے سے پہلے تمام کم مداخلت کرنے والے اقدامات پر غور کیا جانا چاہیے۔

سوموار کو آروگیہ سیتو نے ڈیٹا ایکسیس اور نالج شیئرنگ پروٹوکول جاری کیا ، جس میں  ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اس پر کارروائی کرنے کے اصول قائم کیے گئے تھے۔یہ پروٹوکول ٹکنالوجی اینڈ ڈیٹا مینجمنٹ پر اختیار حاصل گروپ لے ذریعہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کے نیشنل ایگزیکٹو نے قائم کیا ہے۔

جسٹس شری کرشنا نے کہا کہ پروٹوکال ڈیٹا پروٹیکشن کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا، ‘یہ یہ ایک بین الخطی سرکلر کی طرح ہے۔۔ یہ اچھا ہے کہ وہ پرسنل ڈیٹاپروٹیکشن  ایکٹ  کے اصولوں پر عمل کر رہے ہیں، لیکن خلاف ورزی  ہونے پر کون ذمہ دار ہوگا؟ یہ نہیں کہتا کہ کسے نوٹیفائیڈ کیا جائے۔’انہوں نے کہا، ‘یہ بےحد قابل اعتراض ہے کہ ایسا آرڈر ایگزیکٹو سطح  پر جاری کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے آرڈر کوپارلیامانی قانون کے ذریعےحمایت حاصل ہونی  چاہیے، جو سرکار کو ایسا آرڈر جاری کرنے کے لیے بااختیار کرےگا۔’