عالمی خبریں

’وہ جلد سے جلد لوٹنا چاہتے تھے کہ بچوں کو دیکھ سکیں، لیکن ایسے آئیں گے یہ نہیں سوچا تھا‘

بہار کے مشرقی چمپارن ضلع کے ایک گاؤں کے رہنے والے صغیر انصاری دہلی میں سلائی کا کام کرتے تھے۔ لاک ڈاؤن کے دوران کام نہ ہونے اور جمع پونجی ختم ہو جانے کے بعد وہ اپنے بھائی اور کچھ ساتھیوں کے ساتھ سائیکل سے گھر کی طرف نکلے تھے، جب لکھنؤ میں ایک گاڑی نے انہیں ٹکر مار دی، جس کے بعد ان کی موت ہو گئی۔

 (علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

‘ایمبولینس ایک گھنٹے کی تاخیر سے پہنچی تھی، ہاسپٹل میں بھی ضابطہ کے نام پر علاج میں دیری کی گئی۔ وقت پر علاج مل جاتا تو صغیر کو بچایا جا سکتا تھا،’ یہ کہتے ہوئے صغیر انصاری کے بھائی شرب کی آنکھوں میں آنسوآ جاتے ہیں۔صغیر انصاری (26 )پیشہ سے درزی تھے اور گزشتہ پانچ سال سے دہلی میں ہی سلائی کا کام کرتے تھے۔ وہ دس ہزار روپے مہینہ تک کما لیتے تھے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے کام دھندہ چوپٹ تھا۔

معاشی تنگی سے جوجھ رہے اہل خانہ کے پاس جانے کے لیے صغیر انصاری چھ مئی کو دہلی سے بہار سائیکل سے ہی روانہ ہوئے، لیکن راستے میں ایک تیز رفتار کار نے انہیں ٹکر مار دی، اس حادثے میں ان کی موت ہو گئی۔گاؤں میں صغیر کے والدین، ان کی بیوی اور تین چھوٹے بچے ہیں۔ ان کے بھائی شارب انصاری دی  وائر سے بات چیت میں کہتے ہیں، ‘انصاری کی سائیکل سے ہم چھ مئی کو دہلی سے بہار اپنے گھر کے لیے نکلے تھے۔ بہار کے مشرقی  چمپارن میں ڈینیاٹولہ نام کا ہمارا گاؤں ہے۔’

انہوں نے آگے بتایا، ‘ہم سات آٹھ لوگ ایک ساتھ سائیکل سے بہار کے لیے نکلے تھے۔ انصاری سائیکل چلا رہا تھا اور میں اس کے پیچھے بیٹھا تھا۔ چار دن کے بعد ہم نو مئی کو لکھنؤ کے شہید پتھ پہنچے تھے۔’

صغیر انصاری۔ (فوٹو: Special Arrangement)

صغیر انصاری۔ (فوٹو: Special Arrangement)

صغیر کے ساتھ یہیں وہ سڑک حادثہ ہوا۔ شارب کہتے ہیں، ‘صبح کے لگ بھگ دس بج رہے تھے۔ بھوک لگی تھی، تو سڑک کنارے سائیکل کھڑی کی اور سڑک کے ڈیوائیڈر پر بیٹھ کر کھانا کھانے لگے۔ تبھی ایک تیز رفتار کار آکر ڈی وائڈری سے ٹکرائی اور صغیر کو ٹکر مار دی۔شارب کہتے ہیں، ‘میرے دماغ میں ابھی بھی وہی نظارہ  گھوم رہا ہے۔ ٹکر لگتے ہی صغیر دور جا گرا۔ کار میں دو لوگ بیٹھے تھے۔ کار کا ڈرائیور گھبرا یاہوا تھا لیکن تبھی کار کی پیچھے کی سیٹ پر بیٹھا آدمی باہر نکلا۔ اس نے صغیر کے علاج کا پورا خرچ اٹھانے کی بات کہی تھی۔ ادھر ہم نے پولیس اور ایمبولینس دونوں کو اس کی جانکاری دی۔’

شارب کہتے ہیں، ‘ایمبولینس لگ بھگ ایک گھنٹے کی تاخیر سے موقع پر پہنچی تب تک صغیر کا بہت خون بہہ چکا تھا اور وہ لگ بھگ بےہوش تھا۔ ایمبولینس کے آنے کے بعد اسے کے جی ایم یو لے جایا گیا۔’وہ آگے کہتے ہیں کہ ہاسپٹل میں بھی مشکلیں کم نہیں تھی۔ ہاسپٹل نے ضابطوں کا حوالہ دےکر علاج میں دیری کی اور صغیر نے وقت پر علاج نہیں ملنے پر جلد ہی دم توڑ دیا۔

صغیر کے پڑوسی دیپک (21) بہار میں بی ٹیک کی پڑھائی کر رہے ہیں، وہ بتاتے ہیں، ‘اس حادثہ کے وقت میں گاؤں میں ہی تھا۔ یہ سبھی لوگ یومیہ مزدور ہیں، روز کھاکر کمانے والے لوگ ہیں۔حادثہ کے بعد انہیں سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا کیا جائے؟ یہ سبھی لوگ ہمارے ہی گاؤں کے ہیں تو کسی نے مجھے فون کر اس کے بارے میں بتایا۔’

دیپک کہتے ہیں،‘میں نے ان سے کہا کہ کار ڈرائیور کو پولیس کے آنے تک روک کر رکھے اور کار کا نمبر نوٹ کر لیں لیکن پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی کارڈرائیور فرار ہو گیا۔’دیپک نے بتایا کہ اس کے بعد پولیس کو کار کا نمبر دیا گیا اور پتہ لگا کہ کار کے مالک کا نام اشوک سنگھ ہے۔ حادثہ کے وقت ان کا ڈرائیور گاڑی چلا رہا تھا اور وہ پیچھے بیٹھے تھے۔

وہ کہتے ہیں، ‘میں نے خود انہیں فون کیا تھا، وہ تب تک فیملی کی مدد کرنے کی بات کر رہے تھے لیکن نہ تو صغیر کے گھروالوں کومعاوضہ مل سکا اور نہ ہی کار ڈرائیور کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس کہہ رہی ہے کہ ڈرائیور فرار ہے اور پولیس اس کوتلاش کر رہی ہے۔’وہیں شارب کہتے ہیں،‘حادثہ کے وقت کار کے مالک نے صغیر کے علاج کا خرچ اٹھانے کی حامی بھری تھی لیکن بعد میں وہ پلٹ گیا۔’

وہ بتاتے ہیں، ‘صغیر کی موت کے بعد ہم نے اسے کئی بار فون کیا لیکن وہ ہر بار یہی کہتا رہا، جو کرنا ہے کر لو۔ میں ایک پائی نہیں دوں گا۔ اس کے بعد اس کا فون بند ہو گیا۔’صغیر انصاری کی بیوی شاہدہ خاتون کی عمر صرف 21 سال ہے۔ 17 سال کی عمر میں صغیر سے ان کی شادی ہوئی تھی۔ ان کے تین چھوٹے بچہ ہیں، جس میں تین اور دو سال کے بیٹے اور لگ بھگ نو مہینے کی بیٹی ہے۔

صغیر کے گاؤں میں ان کے پاس برائےنام زمین ہے، جو گزر بسر کرنے لائق نہیں ہے۔ شاہدہ دی  وائر سے کہتی ہیں،‘ہماری شادی سے پہلے ہی وہ کمانے کے لیے دہلی چلے گئے تھے، ٹھیک ٹھاک کما لیتے تھے، گزر ہو جاتا تھا۔ وہ ہر مہینے وقت سے پیسے بھیج دیا کرتے تھے۔’

صغیر کی بیوی شاہدہ اور انکے بچہ۔ (فوٹو: Special Arrangement)

صغیر کی بیوی شاہدہ اور انکے بچہ۔ (فوٹو: Special Arrangement)

وہ آگے کہتی ہیں،‘ان سے آخری بار فون پر چھ مئی کو بات ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ دہلی سے روانہ ہو گئے ہیں اور کچھ دنوں میں گاؤں پہنچ جائیں گے۔ میرے پاس فون نہیں ہے، پڑوسی کے فون کے ذریعے ہی ان سے بات ہوتی تھی۔’وہ بتاتی ہیں،‘وہ بہت پریشان تھے۔ لاک ڈاؤن کے بعد دو مہینے دہلی میں بڑی مشکل سے گزارے تھے، ان کی ساری جمع پونجی ختم ہو گئی تھی۔’

شاہدہ کہتی ہیں، ‘پیسے جوڑ رہے تھے تاکہ بچوں کی پرورش ٹھیک سے ہو۔ گھر بھی کئی کئی مہینوں میں آتے تھے۔ اس لاک ڈاؤن نے میرا سب کچھ چھین لیا ہے۔ میرے شوہر کی موت لاپرواہی سے ہوئی ہے نا؟ پہلے کار والے نے لاپرواہی کی، پھر ایمبولینس والے نے اور پھر ہاسپٹل نے۔ غریب آدمی کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے۔’

انتظامیہ سے کسی طرح  کی مدد ملنے کے بارے میں پوچھنے پر شاہدہ کہتی ہیں، ‘بہار سرکار سے ایک لاکھ روپے کا چیک ملا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ادارے کی طرف سے 40000 روپے دیے گئے ہیں۔ ان پیسوں سے گھر چلانے میں مدد تو ملے گی لیکن جو خالی پن ہمیشہ کے لیے رہ گیا ہے، وہ نہیں بھر پائےگا۔’

شاہدہ کہتی ہیں،‘وہ گھر میں اکیلے کمانے والے تھے اور کھانے والے ہم سات لوگ۔ یہ پیسہ بھی کب تک چلےگا؟ بچہ بہت چھوٹے ہیں۔ سسر بیمار رہتے ہیں۔ گاؤں میں ہم پر قرضہ بھی ہے، یہ پیسہ پوری زندگی تو نہیں چل پائےگا نا۔’اس پورے معاملےمیں پولیس کے رویے پر سوال کھڑے کرتے ہوئے دیپک کہتے ہیں،‘اس پورے حادثےمیں پولیس کے رول  پر سوال اٹھنا ہی چاہیے۔ جس کار نے صغیر کو ٹکر ماری تھی، اس کا نمبر پولیس کو دے دیا گیا تھا لیکن پولیس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہی۔’

وہ آگے کہتے ہیں، ‘ہمیں بتا دیا گیا کہ کار اشوک سنگھ نام کے ایک آدمی  کے نام رجسٹرڈ ہے۔ ان سے تب تک کوئی پوچھ تاچھ نہیں کی گئی، جب تک ہم نے پولیس پر دباؤ نہیں بنایا۔ بعد میں پولیس نے یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کر دیے، کہ کار ڈرائیور فرار ہے اور ہم اس کی تلاش میں ہیں۔’

لکھنؤ کے سشانت گولف سٹی پولیس تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق، اس معاملے میں ڈرائیور کے خلاف لاپرواہی سے گاڑی چلانے کا معاملہ درج کیا گیا ہے اور کار کو ضبط کر لیا گیا ہے لیکن ابھی تک معاملے میں کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔دیپک کہتے ہیں کہ لکھنؤ کے ایک مقامی این جی او نے اس حادثے کا پتہ لگنے کے بعد ایک گاڑی کا بندوبست کرکے صغیرکی لاش کو ان کے گاؤں تک پہنچایا تھا۔

شاہدہ کہتی ہیں، ‘وہ جلدی سے جلدی گھر پہنچنا چاہتے تھے تاکہ بچوں کو دیکھ سکیں۔ ہم سب ان کا انتظار کر رہے تھے لیکن نہیں پتہ تھا کہ وہ اس طرح گاؤں لوٹیں گے۔’