فکر و نظر

کیا مودی سرکار ’آتم نربھر بھارت‘ بنانے کے بجائے ’قرض نربھر بھارت‘ بنانا چاہتی ہے؟

کو رونا کےبحران سے پہلے ہی ہندوستانی معیشت قرض کے دلدل میں پھنس چکی تھی۔ اب اس بحران کے بعد نئے قرض بانٹنے سے اس کا برا حال ہونا طے ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

آفت جب آتی ہے چاروں طرف سے آتی ہے۔ کو رونا کے انفیکشن سے خوف اورغیر یقینی  کا ماحول، بےموسم برسات اور ملک میں پہلے سے جاری اقتصادی بحران زخم میں خارش کی طرح سے ہے۔ہندوستانی معیشت کے حالات کو سمجھنے کے لیے ہمیں دوباتوں کو سمجھنا ہوگا پہلا کو رونا انفیکشن سے پہلےہندوستانی معیشت اور کورونا انفیکشن کے بعد کی معیشت۔

ملک کی اقتصادی صورتحال کا تجزیہ کریں توحالات بہت مایوس کن ہیں۔مالی سال2020 کی تیسری سہ ماہی میں ملک  کی جی ڈی پی  4.7 پر آ گئی جو کہ پچھلے 11 سال میں سب سے کم رہی۔پچھلے 7 سال میں ذاتی کھپت کی شرح سب سے نچلی  سطح پر رہی، نئی سرمایہ کاری کی شرح پچھلے 17 سال میں سب سے کم رہی، مینوفیکچرنگ سیکٹر کی شرح نمو 15 سال میں سب سے کم رہی اور کھیتی کی ترقیاتی شرح پچھلے 4 سال میں سب سے کم رہی۔

جنوری 2019 میں اگر زراعتی کاموں  کو کرنے کے لیے قرض لینے کی شرح 7.6فیصد تھی تو جنوری 2020 میں وہ 6.5فیصد پر آ گئی۔ ٹھیک ویسے ہی جنوری 2019 میں اگر انڈسٹریل کاموں کو کرنے کے لیے قرض لینے کی شرح 5.2فیصد تھی تو جنوری 2020 میں وہ 2.5فیصد پر آ گئی۔

سروس سیکٹر میں جنوری 2019 میں اگرقرض لینے کی شرح 23.9 فیصد تھی تو جنوری 2020 میں وہ 8.9 فیصد پر آ گئی۔ نوٹ بندی کے بعد سے ہی ملک کی معیشت بیمار حالت میں چلی گئی۔حکومت سرکار ی خزانے گھاٹے کے مقصد کوحاصل نہیں کر پا رہی تھی جی ڈی پی  کےتناسب میں 3.3فیصد ہدف کو 3.8فیصد تک سرکار نے بڑھایا۔مالی سال 2020 میں براہ راست ٹیکس کےہدف کاکل 65.7فیصد ہی سرکار 10 ماہ میں اکٹھا کر پائی۔

فروری 2020 میں ملک میں بےروزگاری کی شرح 45 سال میں سب سے زیادہ ہو گئی جو کہ 7.78فیصد تھی۔روپیہ  کے مقابلے ڈالر سب سے نچلی  سطح پر ہے۔ایکسپورٹ اور امپورٹ  کاتناسب بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کا بوجھ ملک کی ادائیگی کے توازن  پر پڑےگا۔ سرکار کو بین الاقوامی سطح  پر کچے تیل کے داموں میں کمی آنے کی وجہ سے تھوڑی راحت ملی ہے۔

سال2020-21 کے بجٹ میں سال2019 -20 کے بجٹ کے مقابلے مرکزی حکومت نے عوامی فلاح وبہبود کے مد میں 38968 کروڑ روپے، اشیائےخوردنی میں 68650 کروڑوں روپے اور کسانوں کو ملنے والی کھاد سبسڈی پر 8687 کروڑ روپے اور منریگا کے بجٹ میں 9502 کروڑ کی کٹوتی کی گئی۔

دیہی حلقوں  کی دوسری اسکیموں میں سرکار نے دو ہزار کروڑ روپے کی کٹوتی کی۔ اس انفیکشن سے پیداہوئے حالات کی وجہ سے دنیا میں مندی کا دور رہےگا اورہندوستان  بھی اس سے اچھوتا نہیں رہےگا۔اگر پہلے سے ہی ہندوستان  کی معیشت بہتر ہوتی تو ہمارا ملک کچھ بہتر طریقے سے انفیکشن سے پیداہوئے حالات کوقابوکر سکتا تھا۔ کو رونا انفیکشن اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت سی بین الاقوامی تنظیمیں  مانتی ہیں کہ ملک کی جی ڈی پی کی گروتھ ریٹ صفر یا منفی ہو جائےگی جو بہت ہی تشویش کی بات ہے۔

مرکزی حکومت نے ہندوستانی معیشت کو ابارنے کے لیے اور ملک کے شہریوں کو راحت دینے کے لیے 20 لاکھ کروڑ کے پیکیج کا اعلان  کیا۔ پیکیج کے ابھی تک کے اعلانات میں سب سے بڑا حصہ بینکوں سے ملنے والے قرض کا ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر بازار میں مانگ ہی نہیں ہوگی تو قرض لےکر انڈسٹری کس چیزکی فراہمی  کریں گی۔ حالات یہ ہیں کہ بینکوں سے قرض لینے کی شرح 27 سال میں سب سے کم ہے۔

ملک میں مارچ 2020 تک بینکوں کا قرض کی صورت میں کاروباریوں پر 56 لاکھ کروڑ روپے (اس میں 83فیصد بقایہ ٹیکس  بڑے کاروباریوں پر ہے) چھوٹے کاروباریوں پر 10 لاکھ کروڑ روپے (جو قرض معافی یا قرض کے تشکیل نو کی مانگ کر رہے ہیں) 12 لاکھ کروڑ روپے کھیتی اور لگ بھگ 26 لاکھ کروڑ روپے کے نجی قرض ہیں۔

مڈل کلاس پہلے ہی تنخواہ کی  کٹوتی اور نوکریاں چھوٹنے کی پریشانی  سے جوجھ رہا جس کی وجہ سے قرض ادائیگی ایک بڑامسئلہ ہوگی۔ اس وجہ سے بینکوں کو ڈر اس بات کا ہے کہ اب دیےگئے قرض کی قسطیں ٹوٹنی شروع ہو جائیں گی۔پرانے قرض نہ دے پانے کی صورت میں نئے قرض کون لےگا اور اس سے ‘آتم نربھرتا’ کیسے بڑھےگی سرکار اس سوال کا جواب نہیں دے پا رہی۔عجلت میں دیے گئے قرض کی وجہ سے بینکوں میں گھوٹالے بھی بڑھیں گے اور قرض ڈوبنے کی صورت میں بینکوں کی مالی حالت پرمنفی اثر پڑےگا۔

ملک میں 6 کروڑ 30 لاکھ مائکرو،مڈل اور چھوٹے بزنس ہیں۔ایم ایس ایم ای سیکٹر میں 45 لاکھ ادیوگوں کو تین لاکھ کروڑ روپے بنا کسی گارنٹی کے لون دینے کی بات کہی گئی ہے۔مرکزی وزیرنتن گڈکری نے یہ مانا ہے کہ ایم ایس ایم ای انڈسٹری جن سینٹرل پبلک سیکٹر کی کمپنیوں  کو فراہمی کر رہے ہیں، انہوں نے مجموعی طور  پر ان کاتقریباً 5 لاکھ کروڑ روپے کی ادائیگی  روک رکھی ہے۔

سرکار کا پیکیج اور سرکاری کمپنیوں پر بقایہ ادائیگی خود بہت کچھ کہتا ہے۔ اس پیکیج کا اعلان  کرنے سے پہلے سرکار کو یہ بھی دھیان رکھنا چاہیے تھا کہ سال2019 دسمبر میں ایم ایس ایم ای  سیکٹر کو دیے گئےکل لون کا 12.6فیصد یعنی 2 لاکھ 3 ہزار کروڑ روپے این پی اے ہونے کی طرف بڑھ گیا تھا۔

اس سیکٹر کے باقی بچے ہوئے کاروباریوں کے لیے سرکار کے پاس کیا منصوبہ ہے اس پر کوئی وضاحت نہیں دکھتی۔ ساتھ ہی اس سیکٹر میں کام کرنے والے 11 کروڑ کراسٹاف کے مفاد کو لےکر بھی سرکار خاموش ہے۔اس سیکٹر میں کام کرنے والے اسٹاف کو گزشتہ 2 سے 3 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی جس کی وجہ سے وہ شدید مالی بحران کے دور سے گزر رہے ہیں۔

پیکیج میں ان 13 کروڑ فیملی کے بارے میں نہیں سوچا گیا ہے جو کووڈ 19 کے انفیکشن کے بعد سب سے زیادہ پریشانی کے دور میں ہے۔ اگر سرکار ان 13 کروڑ فیملی کے بینک اکاؤنٹ میں سیدھے پیسہ بھیجتی، تویقینی طور پرہندوستانی  بازار میں مانگ پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے کاروباریوں کو سیدھامنافع  ملتا۔

معیشت  کا سیدھا سااصول  ہے کہ اگرلوگوں کی خریداری کی طاقت  بڑھےگی تو اس سے چیزوں  کی مانگ بڑھےگی۔پی ایف کے لیے سرکار نے پچیس سو کروڑ کا اہتمام کیا لیکن  اس سے پہلے ہی اسٹاف  کے بھتوں پر سرکار قینچی چلا چکی ہے، جس سے خریدادی کی قوت میں کمی  ہی ہوگی۔

مہاجر مزدور اوردیہی سیکٹر شدید پریشانی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ سرکار نے اعلان کیا ہے کہ آٹھ کروڑ مہاجر مزدوروں کو راشن کارڈ ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں بھی 5 کیلو اناج اور 1 کیلو دال دی جائےگی۔اس کے لیے سرکار نے35 سو کروڑ کا اہتمام کیا ہے۔ 19 کروڑ فیملی کو اپریل ماہ میں 1 کیلو دال دی جانی تھی۔ صارفی امورکی وزارت کے مطابق کل 15فیصد فیملی کو ہی اس کافائدہ  ملا۔

اپریل میں ایک لاکھ 96 ہزار ٹن دال کا بٹوارہ ہونا تھا جبکہ 30 ہزار ٹن دال کا ہی بٹوارہ  ہو پایا۔ ایک ملک ایک راشن کارڈ کی بنیاد پر راشن دینے کی شروعات اچھی ہے پر جس رفتار سے یہ کارڈ بن رہے ہیں وہ کچھوے کی چال سے بھی بدتر ہے۔

(فوٹو: رائٹرس)

(فوٹو: رائٹرس)

منریگا اسکیم  کو لےکر بھی اعلانات  کیے گئے۔ راحت بھری خبر یہ ہے کہ منریگا کے بجٹ میں چالیس ہزار کروڑ روپے کا اہتمام اور کیا گیا ہے۔ حالانکہ سال 2020-21 کے بجٹ میں سرکار پہلے ہی قریب 10000 کروڑ روپے منریگا کے بجٹ میں کم کر چکی تھی۔منریگا کا بجٹ کا بڑھانا اس بات کا بھی اشاریہ ہے کہ دیہی سیکٹر میں غریبی بڑھےگی۔ملک میں 7 کروڑ 60 لاکھ منریگا مزدورجسٹرڈ ہیں۔ مارچ میں ایک کروڑ 60 لاکھ مزدوروں کو روزگار ملا۔ جبکہ اپریل میں کل تیس لاکھ وافراد کو روزگار حاصل ہوا۔

منریگا اسکیم کے مطابق اگرکوئی آدمی اپنا رجسٹریشن کرا لیتا ہے اور اس کو روزگار نہیں ملتا ہے تو اس کو پہلے ماہ کل یومیہ  مزدوری کا چوتھائی، اگلے ماہ آدھا اور تیسرے ماہ پوری مزدوری دینے کااہتمام ہے، بھلے اس کو کام دیا گیا یا نہیں۔عظیم  پریم جی یونیورسٹی کے ایک سروے کے مطابق ملک میں 67فیصد مزدوروں نے لاک ڈاؤن کے دوران اپنا روزگار کھو دیا۔ شہری سیکٹر میں 10 میں سے 8 مزدوروں کے پاس روزگار نہیں تھا جبکہ دیہی سیکٹر میں 10 میں سے چھ مزدوروں کے پاس روزگار نہیں رہا۔


یہ بھی پڑھیں:آخر کیوں مودی کے آتم نربھر بھارت پیکیج کی مخالفت ہو رہی ہے؟


سال2020-21 کے بجٹ میں نابارڈ کو 90 ہزار کروڑ روپے کااہتمام  حاشیائی کسانوں کو لون دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ کو رونا انفیکشن کے بعد 30 ہزار کروڑ روپے کا اہتمام  اور کیا گیا۔ساتھ ہی 3 کروڑ حاشیائی کسانوں کے لیے چار لاکھ کروڑ کافصلی قرض دستیا ب  کرانے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ زرعی سیکٹر کا قریب ایک لاکھ کروڑ روپے پہلے این پی اے کی طرف بڑھ چکا ہے سرکار کو اس بارے میں بھی سوچنا چاہیے تھا۔

اگریکلچر سینسس کے مطابق ملک میں 14 کروڑ 50 لاکھ کسانوں میں سے 12 کروڑ 30 لاکھ حاشیائی کسان ہے جن کے پاس 2 ہیکٹیئر سے کم کھیتی کی زمین  ہے۔ اس لیے سوال  اٹھتا ہے باقی 9 کروڑ 30 لاکھ کسانوں کا کیا ہوگا؟کسان سمان ندھی یوجنا کے 14 کروڑ کسان اہل ہیں فروری 242020 کی پی آئی بی کی ریلیز کے مطابق 8 کروڑ 46 لاکھ کسانوں کو ہی اس کافائدہ  ملا باقی 5 کروڑ 54 لاکھ کسان اس کے فائدے سےمحروم  رہ گئے۔ دیہی سیکٹر میں کہا جاتا ہے کہ قرض مانگ کر گھی کھایا تو اس کا کیا فائدہ۔

منڈیوں میں کسان ربیع کی فصل کی بکوالی کر رہا ہے۔ مجبوراً کسان کو ایم ایس پی سے کم دام میں اپنی فصل کی بکوالی کرنی پڑ رہی ہے، جس کی وجہ سے کسان بھاری نقصان ہو رہا ہے۔گزشتہ سالوں میں لاگت قیمتوں میں تو بےتحاشہ اضافہ  ہوا ہے پر ایم ایس پی میں اس طرح سے بڑھوتری نہیں کی گئی ہے۔ سرکاری خرید میں گیہوں اور چاول کی کل پیداوارکا قریب 25 سے 30فیصد ہی خریدا جاتا ہے۔

انفیکشن اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیہی سیکٹر میں فوڈ پروسسنگ، باغبانی، پھل اور سبزی اور مرغی پالنےوالے کسانوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ سرکار نے اعلان کیا ہے کہ کسانوں کی کچھ اپج منڈی سمیتی کے دائرے سے باہر ہوں گی۔کسان ان فصلوں کو پورے ملک میں کہیں بھی اور کسی کو بھی بیچ پائےگا۔ اس کے لیے مرکز اور ریاستی حکومتوں  میں بہتر تال میل  ہے اور صاف قوانین کی ضرورت ہے۔ ابھی ان قوانین  کو عملی جامہ  نہیں پہنایا جا سکا۔

وہیں دوسری طرف ملک میں ڈھائی لاکھ نیائے پنچایت ہیں ان میں براڈ بینڈ کنیکشن کی لائن ڈالنے کا کام کچھوے کی رفتار سے چل رہا ہے۔ جو اعلانات وزیر خزانہ نے دیہی سیکٹروں کے لیے کیا ہے ان میں سے زیادہ تراعلانات سال2020-21 کے بجٹ اسپیچ میں پہلے ہی کر چکی ہیں۔

اس لیے اس بات سے کسانوں کو فوری طور پر کتنا فائدہ ہوگا یہ ایک اہم سوال ہے۔ دیہی سیکٹر کو اس وقت مالی امداد کی ضرورت ہے اصلاحی پروگرام  تومستقبل  کے لیے ہوتے ہیں۔ایوی ایشن،سلامتی،کان کنی اورمعدنیات، کوئلہ انڈسٹری، پاور ڈاسکام وغیرہ کے لیے پروجیکٹ ڈیولپمنٹ سیل بنےگا جو ان سیکٹروں میں آئندہ  نیلامی اورسرمایہ کاری  کے مواقع  کو تلاش کرےگا۔

کول بلاک میں 50 نئے بلاک نیلامی کے لیے آئیں گے لیکن مارچ ماہ میں ہی پارلیامنٹ میں پہلے ہی کوئلے کے سیکٹر میں کانی کنی  کو لےکر ایک نیا قانون بن چکا تھا۔ کول بلاک کی نیلامی تبھی کامیاب ہو پائےگی جب بجلی کی مانگ بڑھےگی، تبھی ترقیاتی شرح  میں تیزی آئےگی۔ملک کے چھ ہوائی اڈوں کا بھی پرائیویٹائزیشن ہوگا۔ اس سے صاف ہے کی پہلے کی  سرکاروں کے ذریعے جو ایک بہتر ڈھانچہ پبلک ۔۔۔ کی کمپنیوں کا بنایا گیا تھا ان سب کا پرائیویٹائزیشن کرکے سرکار اپنا خرچ چلانا چاہتی ہے۔

دفاع  میں غیرملکی سرمایہ کاری کی حد49فیصد سے بڑھاکر 74فیصد کی گئی ہے۔ اس سیکٹر میں پہلے ہی میک ان انڈیاناکام  رہا ہے۔کو رونا انفیکشن کے بعد یہ بات بالکل صاف ہے کہ لوگوں کے روزمرہ غیر معمولی تبدیلی آئےگی، اس لیے سرکار نے آن لائن ایجوکیشن  کے لیے نئے چینل کھولنے کی بات کہی ہے۔

ریاست میں دیہی سیکٹروں میں رہنے والے طلبا انٹرنیٹ کی بہتر سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اس سہولت کا کتنافائدہ  لے پائیں گے یہ ایک بڑا سوال ہے۔سرکار نے کمپنی ایکٹ میں سے سات مجرمانہ دفعات کو ہٹانے کی بات کی ہے۔ ریاستی سرکاروں کے اقتصادی  حالات اور بھی بدتر ہیں۔ مرکزی حکومت کو ریاستی سرکاروں کودل کھول کر مالی  مددفراہم کرانی چاہیے جس سے کہ ریاست اپنےشہریوں پر بہتر طریقے سے خرچ کر پائے۔

ریاستوں  کے لیے اوورڈرافٹ کے دنوں کی حد بڑھائی گئی ہے، سرکاریں اب اپنی جی ڈی پی کے تناسب میں 5فیصد قرض کی صورت میں لے سکیں گی، پر مہنگے انٹریسٹ ریٹ  کی وجہ سے ریاست قرض لینے سے پہلے ہی ہچک رہے ہیں۔ریاستوں کی بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا پرائیویٹائزیشن ہوگا جس کی وجہ سے بجلی کا مہنگا ہونا طے ہے۔ آخر میں اس کا بوجھ بھی عام شہری  پر ہی پڑےگا۔

سال 2020-21 میں مرکزی حکومت کا 30 لاکھ 42 ہزار کروڑ کا بجٹ خرچ ہے انفیکشن کے بعد معیشت کونکالنے کے لیے دیا گیا پیکیج بجٹ اعلانات  سے باہر ہے یا بجٹ کے اعلانات میں ہی اس پیکیج کو شامل کیا گیا ہے، یہ مرکزی حکومت کوفوراً ہی صاف کرنا چاہیے۔

کوروناکےبحران سے پہلے ہی ہندوستانی معیشت قرض کے دلدل میں پھنس چکی تھی، اب کو رونابحران کے بعد نئے قرض بانٹنے سے معیشت  کا برا حال ہونا طے ہے۔ 20 لاکھ کے پیکیج میں 70فیصد حصہقرض والے نظام کا ہے۔ملک کی صنعتوں اور شہریوں کے لئے رقم کی لیکویڈیٹی کے ساتھ ساتھ ، حکومت کو ایسے مالی اقدامات کرنے چاہیے جو ملک کے شہریوں کی جیب میں براہ راست پیسہ جائے۔

اس سے یہ بات واضح ہے کہ حکومت  بھارت کوآتم نربھر کرنے کے بجائے بھارت کو قرض نربھر بھارت بنانا چاہتی ہے۔ پیکیج میں جس طرح سے حکومت نے اصلاحاتی پروگراموں پر زور دیا ہے اور امدادی پروگرام  نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اصلاحات اور امداد کے مابین فرق کو نہیں سمجھتی ہے۔

(مضمون نگار کانگریس کے ترجمان  ہیں۔)