خبریں

دہلی پولیس نے یو اے پی اے کا حوالہ دے کر ماحولیاتی قانون کے خلاف مہم چلانے والی ویب سائٹ کو بند کرایا

مودی سرکار کے متنازعہ ماحولیاتی قانون کو  واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ویب سائٹ کو بلاک کرنے کا آرڈر دیتے ہوئے دہلی پولیس نے کہا تھا کہ ان کی سرگرمیاں ملک کی سالمیت  کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔ اب پولیس کا کہنا ہے کہ یو اے پی اے کے الزام  والا نوٹس ‘غلطی’ سے چلا گیا تھا۔

(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@FFFIndia)

(فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@FFFIndia)

نئی دہلی: مودی سرکار کےماحولیاتی اثرات کی تشخیص کے متنازعہ ڈرافٹ(ای آئی اے)2020 کے مسودے کے خلاف مہم چلا رہی ایک ویب سائٹ کو دہلی پولیس کی ہدایت  پر 10جولائی 2020 کو اچانک بلاک کر دیا گیا تھا۔اب اس سے متعلق  ایک نئی بات سامنے آئی  ہے کہ اس ویب سائٹ کو بلاک کرنے کے سلسلے میں دہلی پولیس کے سائبر سیل کی جانب سے جاری نوٹس میں کہا گیا تھا اس ویب سائٹ کی سرگرمیاں ملک کی سالمیت  اور امن وامان  کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیےیو اے پی اے قانون کے تحت معاملہ درج کیا جا سکتا ہے۔

ماحولیاتی کارکنوں اور رضاکاروں کے گروپ FridaysforFuture.inیا اایف ایف ایف انڈیا نے 23 مارچ کو جاری کیے گئے متازعہ ماحولیاتی قانون کے خلاف چار جون 2020 کو ایک آن لان مہم  شروع کی تھی۔اس کے ذریعے انہوں نے لوگوں سے اس نئے قانون پر رائے مانگی اور اس کی خامیوں کے بارے میں لوگوں کو بتانا شروع کیا۔

اس گروپ  نے اپنے ویب سائٹ پر وزارت ماحولیات اور وزیرماحولیات پرکاش جاویڈکر کا ای میل آئی ڈی ڈالا، جو پہلے سے ہی عوامی ہے اور لوگوں سے کہا کہ وہ اپنی رائے ان پر بھیج کر اپنی  مخالفت یا رائے درج کرائیں۔اس مہم  کے بعد جاویڈکر کو اس قانون کوواپس لینے کے لیے ڈھیر سارے ای میل آئے، جس کے بعد انہوں نے دہلی پولیس میں شکایت درج کی اور کہا کہ انہیں‘ای آئی اے 2020’کے نام سے بہت سےای میل ملے ہیں اور وہ متعلقہ ملزم کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں۔

اس کے بعد دہلی پولیس نے آٹھ جولائی کو ایف ایف ایف انڈیا ویب سائٹ کو ہوسٹ کرنے والے ڈومین پرووائیڈر کو نوٹس بھیجا اور انہیں ہدایت  دی کہ وہ فوراً اس کو بلاک کریں۔اتنا ہی نہیں، سائبر سیل نے یہ دھمکی بھی دی کہ اس ویب سائٹ کی سرگرمیاں ملک  کی سالمیت کے لیے ٹھیک  نہیں ہیں، اس لیے  اس پر یو اے پی اے کے تحت کیس درج ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘مذکورہ ویب سائٹ پرقابل اعتراض مواد اور غیرقانونی سرگرمیوں یادہشت گردانہ سرگرمیوں کوپیش کیا گیا ہے، جو ہندوستان کے امن وامان اور خودمختاریت کے لیے خطرناک ہیں۔ ایسے قابل اعتراض مواد کی نشرواشاعت یو اے پی اے  کی دفعہ 18 کے تحت نوٹس میں لیے جانے لائق اور قابل سزا جرم  ہے۔’

غورطلب ہے کہ لگاتار مرکزی حکومت پر یہ الزام لگتے رہے ہیں کہ وہ احتجاج کودبانے کے لیے یو اے پی اے قانون کا غلط استعمال کر رہی ہے اور اس کی مدد سے اقتدار کے خلاف اٹھ رہی آوازوں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔پولیس نے ڈومین پرووائیڈر سے کہا کہ آپ کی خدمات  کا استعمال قابل اعتراض چیزوں کو پھیلانے میں ہو رہا ہے، اس لیے اس کو بلاک کیا جائے اور اس کےبارے میں رپورٹ بھیجی جائے۔

انہوں  نے کہا کہ اس طرح کے جرائم  کی سزا پانچ سال سے لےکر عمر قید تک ہے۔اس کے بعد ایف ایف ایف انڈیا نے 22 جولائی کو دہلی کے سائبر کرائم یونٹ کو ایک جوابی خط لکھا۔اس میں کہا گیا کہ ویب سائٹ نے خود کوئی ای میل نہیں بھیجا ہے، بلکہ دیگر لوگوں کو اپنے مشورے اور اعتراضات بھیجنے میں مدد کی ہے۔اگرآپ ایک سادہ سی  جانچ کرتے ہیں تو پتہ چلےگا کہ کوئی بھی ای میل ہماری ویب سائٹ سے نہیں بھیجا گیا تھا۔شہریوں نے اپنے اپنے آئی ڈی سے ای میل بھیجا ہے۔

انہوں نے آگے کہا کہ دہلی ہائی کورٹ نے بھی اپنے کئی فیصلوں میں مانا ہے کہ اس نوٹیفیکشن پر سنجیدگی سے غوروخوض کی ضرورت ہے اور تمام زبانوں میں اس کا اشتہار بھی  کیا جانا چاہیے۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے بھی آٹھ جولائی اور 16 جولائی کے فیصلے میں یہی بات کہی ہے۔ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ اس نوٹیفیکشن کی  خوب نشرواشاعت کی جانی چاہیے تاکہ لوگ 11 اگست 2020 سے پہلے تک اپنے مشورے بھیج پائیں۔

ماحولیاتی ویب سائٹ نے کہا، ‘ویب سائٹ کا بلاک ہونا چونکانے والا اور ڈراؤنا ہے۔ یہ پریشان اور مایوس کن ہے کہ سرکار ڈیجیٹل طورپرتحریک کو روک رہی ہے اور ہندوستان کے نوجوانوں پر پوری طرح سے بےتکی باتیں کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔ یہ انتظامیہ میں جوابدہی کی کمی کا اشارہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت شہریوں کے مشورےکو قابل اعتراض سرگرمیوں کے طور پر دیکھتی ہے۔‘

حالانکہ دہلی پولیس نے اس پر صفائی دیتے ہوئے کہا ہے کہ یو اے پی اے کے الزام  والا نوٹس ‘غلطی’ سے چلا گیا تھا۔فرسٹ پوسٹ کے مطابق، دہلی پولیس کے سائبر سیل کے ڈی ایس پی اینییش رائے نے کہا، ‘یو اے پی اے کا کوئی الزام نہیں ہے۔ نوٹس ایک ایسی دفعہ کے تحت جاری کیا گیا تھا جو معاملے کے لیے مناسب نہیں تھا۔ اس کوفوراً  واپس لے لیا گیا اور ہم نے آئی ٹی ایکٹ  کی دفعہ 66 کے تحت نوٹس بھیجا تھا۔ جس پل یہ مدعا سلجھ گیا، نوٹس بھی واپس لے لیا گیا۔ ابھی  اگر ویب سائٹ نہیں چل رہی ہے، تو یہ ہماری وجہ سے نہیں ہے۔’

لیکن ایف ایف ایف انڈیا نے کہا ہے کہ انہیں ایسی کوئی وضاحت دہلی پولیس سے نہیں ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرایسا ہوتا تو انہیں 22 جولائی کو نوٹس کا جواب نہیں بھیجنا پڑتا۔ایف ایف ایف انڈیا کے علاوہ دو دیگر پلیٹ فارم  ThereisnoEarthB.com  اور LetIndiaBreathe کو  بھی اسی طرح کی مہم چلانے کے لیے بلاک کر دیا گیا تھا۔معلوم ہو کہ ملک میں مختلف سطحوں پر مودی سرکار کے اس متنازعہ ماحولیاتی قانون کی مخالفت ہو رہی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کے آرڈر پر اس مسودے پرعوام سے رائے حاصل کرنے کی مدت  بڑھاکر 11 اگست 2020 کی گئی ہے۔

اس سے پہلے وزارت ماحولیات نے ای آئی اے نوٹیفیکیشن، 2020 پر عوام سے اعتراضات یا مشورہ حاصل کرنے کی آخری تاریخ 30 جون 2020 طے کی تھی۔اس متنازعہ نوٹیفیکشن  میں کچھ کمپنیوں کو عوامی شنوائی سے چھوٹ دینا، کمپنیوں کو سالانہ دو تعمیلی رپورٹ کے بجائے ایک پیش کرنے کی اجازت دینا اور ماحولیاتی نقطہ نظرسےحساس علاقوں میں لمبے وقت  کے لیے کان کنی کے منصوبوں کو منظوری دینے جیسےاہتمام  شامل ہیں۔

جیسا کہ دی  وائر نے پہلے ہی رپورٹ کرکے بتایا تھا کہ لوگوں کی جانب سے بھیجے گئے مشورے کی بنیاد پر وزارت ماحولیات کے افسران نے تجویز پیش کی تھی کہ کورونا کو دھیان میں رکھتے ہوئے مشورےاوراعتراضات بھیجنے کی آخری تاریخ کو 60 دن بڑھاکر 10 اگست 2020 کی جانی چاہیے۔

حالانکہ وزیر ماحولیات پرکاش جاویڈکر نے یک طرفہ فیصلہ لیتے ہوئے اس مانگ کو خارج کر دیا تھا اور بنا کوئی وجہ بتائے مسودے پر رائے دینے کی تاریخ 30 جون 2020 طے کی۔د ی وائر نے اپنی ایک اور رپورٹ میں بتایا تھا کہ بہت بڑی تعداد میں لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور ای آئی اے نوٹیفکیشن ہندوستا ن کے گزٹ  میں شائع ہونے کےمحض10دن کے اندر سرکار کو 1190 خط صرف ای میل کے ذریعےموصول ہوئے، جس میں سے 1144خطوط میں اس کی مخالفت کی گئی  اور وزارت ماحولیات  سے اس کو واپس لینے کی مانگ کی گئی ہے۔

کارکنوں اور ماہرین  کا کہنا ہے کہ ای آئی اےنوٹیفکیشن، 2006 میں تبدیلی کرنے کے لیے لایا گیا 2020 کا یہ نیا نوٹیفکیشن ماحولیاتی مخالف  اور ہمیں وقت میں پیچھے لے جانے والا ہے۔